لاس اینجلس، جنگلات میں لگی آگ بجھانے والے فائر فائٹرز میں قیدی بھی شامل 

  لاس اینجلس، جنگلات میں لگی آگ بجھانے والے فائر فائٹرز میں قیدی بھی شامل 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

                                                            لا س اینجلس(مانیٹرنگ ڈیسک)امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس کے جنگلات میں لگی خوفناک آگ پر قابو پانے کیلئے فائر فائٹرز کو کیلیفورنیا کے جیل نظام سے بھی مدد مل رہی ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق لاس اینجلس میں لگی آگ پر قابو پانے کے لء تقریباً 14 ہزار فائر فائٹر کام کررہے ہیں جن میں تقریباً 400 قیدی بھی شامل ہیں۔امریکی اخبار کے مطابق فی الحال ریاست کیلیفورنیا کی فائر فائٹنگ فورس کا تقریباً 30 فیصد حصہ قیدیوں پر مشتمل ہے۔کیلیفورنیا میں آگ بجھانے کیلئے قیدیوں کا استعمال پہلی بار نہیں کیا جارہا بلکہ ریاست میں 1915 سے ہی آگ بجھانے کیلئے قیدیوں کی مدد حاصل کی جاتی رہی ہے۔ ایک امریکی جریدے کے مطابق قیدیوں کو فائر فائٹنگ کے طریقوں کی مناسب تربیت دینے کیلئے 1946 میں ایک فائر کیمپ پروگرام شروع کیا گیا تھا۔ کسی بھی قیدی کو فائر فائٹنگ ٹیموں میں شامل ہونے پر مجبور نہیں کیا جاتا اور جو بھی بھی قیدی اس میں شامل ہوتا ہے وہ اپنی مرضی سے ایسا کرتا ہے۔قیدیوں کو فائر فئٹنگ کے لیے معاوضہ بھی ادا کیاجاتا ہے لیکن یہ بہت ہی معمولی ہوتا ہے قیدی دیگر فائر فائٹرز کے ساتھ ہی کام کرتے ہیں اور عام طور پر انہیں برن آؤٹ آپریشنز میں استعمال کیا جاتاہے جس میں آگ کے راستے میں موجود درختوں، اور آگ پکڑنیوالی دیگر چیزوں کو محدود پیمانے پر جلا کر پہلے ہی ختم کردیا جاتا ہے ان قیدی فائر فائٹرز کو اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ آف کریکشنز کے 30 سے زیادہ ’فائر کیمپس‘ میں سے ایک میں تربیت دی جاتی ہے، یہ بنیادی طور پر کم سکیورٹی والی جیلیں ہوتی ہیں جو فائر فائٹر اسکولوں کے طور پر بھی کام کرتی ہیں  اس پروگرام میں شامل رہنے والے ایک قیدی کی رائے میں یہ کام خطرناک تھا، ’لیکن یہ جیل میں رہنے سے بہتر ہے‘۔

آگ  

مزید :

صفحہ اول -