ملتان:عدالتیں کیسوں کا جلد فیصلہ کریں، مہر بانو قریشی

  ملتان:عدالتیں کیسوں کا جلد فیصلہ کریں، مہر بانو قریشی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ملتان )  خصو صی  ر پورٹر(شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی اور تحریک انصاف کی رہنما مہر بانو قریشی نے الیکشن ٹریبونل میں الیکشن پیٹیشن کی سماعت کے بعد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان کے باہر  میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ گزشتہ مہینے بھی ہم ائے تھے تاریخ لگی تھی اس مہینے بھی تاریخ لگی اور یہ تاریخوں کا سلسلہ مجھے خدشہ ہے کہ یونہی چلتا رہے گا کیونکہ جو اپوزنگ کونسل ہیں وہ نہیں چاہتے کہ اس معاملے میں کسی قسم کا فیصلہ ائے کیونکہ ان کے حق (بقیہ نمبر40صفحہ7پر)

میں ہے کہ بات لمبی لٹکی رہے،کیونکہ جتنی دیر فیصلہ نہیں ہوتا اتنی دیر ان کی سیٹ برقرار رہے گی،یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ وہ جانتے ہیں یہ الیکشن وہ نہیں جیتے یہ فارم 45 اور فارم 47 کا جو فرق ہے اس کے عوض وہ اس وقت پارلیمان میں بیٹھے ہیں میری صرف درخواست ہے جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر سے کہ وہ ان معاملات کو جلد از جلد دیکھیں اور انصاف دیں کیونکہ الیکشن ٹرائبیونلز جس قانون کے تحت چل رہے ہیں اس کے اندر ایک پارلیمانی کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ جلد از جلد فیصلے ہوں گے 180 دن کے اندر اندر  الیکشن پٹیشنز کا فیصلہ دیا جائے گا۔ فروری 2024 میں الیکشن ہوئے تھے  اب جنوری 2025  ہے ایک مہینے میں سال بھی گزر جائے گا اور الیکشن پٹیشنز کو مٹی کھاتے ہوئے 10 مہینے گزر جائیں گے، ابھی تک پورے پاکستان میں صرف 27 فیصد ٹرائبیونل پٹیشنز میں فیصلے ہوئے ہیں اور وہ اکثر پٹیشن بلوچستان  سے ہیں حالانکہ سب سے زیادہ الیکشن پٹیشن پنجاب میں فائل کی گئی تھیں اور ابھی بھی پنجاب میں ہم کیا دیکھتے ہیں کہ ٹریبونلز کے جو معاملے ہیں وہ اگے نہیں بڑھ پا رہے اور کیسے بڑھیں گے سی ایم صاحبہ خود ایک جعلی مینڈیٹ کے اوپر بیٹھی ہے نہ صرف ان کی پارٹی کا مینڈیٹ جعلی ہے ان کی اپنی سیٹ جعلی ہے وہ بھی فارم 47 کے فریب پہ مبنی سیٹ ہے۔ایک فراڈ چیف منسٹر ہونے کے باوجود وہ دھمکیاں اور تڑیاں دے رہی ہیں دوسری سیاسی جماعتوں کو کل انہوں نے کہا کہ ان کے پاس جانوروں کا علاج موجود ہے امید ہے کہ ان کے پاس پلیٹلیٹس گرنے کا علاج بھی موجود ہوگا کیونکہ شاید عنقریب اس کی ضرورت پڑ جائے مگر جانوروں کا علاج موجود ہے اور سیاسی جماعتوں کا بھی علاج موجود ہے جس کو وہ علاج کہتی ہیں اس کو ہم فریب فراڈ فسطائیت اور قانون کا گلا گھونٹنا کہتے ہیں مگر اس ملک میں صرف ایک علاج کی ضرورت ہے اور سب ٹھیک ہو جائے گا اور وہ ہے انصاف جس دن ہم پاکستان میں انصاف کا نظام قائم کریں گے چاہے وہ مینڈیٹ کا انصاف ہو چاہے وہ عدالتوں سے جن بے گناہ لوگوں کو قید میں رکھا گیا ہے۔ کوٹ لکھپت میں پانچ سیاسی قیدی جو ہماری جماعت کے لیڈران ہیں اور لاتعداد ورکرز جو پاکستان کے مختلف جیلوں میں پچھلے ڈیڑھ سال سے بند ہے ان کی ضمانت کیسز پر شنوائی نہیں ہورہی۔ان کی ٹرائل جیل کے اندر بند کمروں میں ہو رہے ہیں اگر وہ ٹرائلز کھلی عدالتوں میں آجائیں اور اگر میرٹ پہ فیصلے ہو جائیں تو پاکستان تحریک انصاف کا ایک ایک کارکن اور ایک ایک لیڈر بشمول عمران خان کے وہ ایک دن میں باہر ہوں گے۔ القادر ٹرسٹ کیس میں کس طرح تاخیری حربے اپنائے گئے ، توشہ خانہ ٹو کیس میں کس طرح نیب نے اس بات کا اعتراف کیا کہ جو نیب قوانین میں بدلی کی گئی تھی وہ سابقہ واقعات پر اپلائی نہیں ہوتی وہ بدلی  ہی اس لیے تھی کہ عمران خان کو کسی طرح اس قانون کے نیچے لایا جائے اور کسی طرح ان کے خلاف کیس بنایا جائے وہ کیس بھی جھوٹا باقی کیسز بھی جھوٹے القادر ٹرسٹ کیس بھی جھوٹا عدت کیس صرف جھوٹا نہیں بلکہ گھٹیا لفظ استعمال کیا جاسکتا ہے وہ ایک شرمناک کیس تھا۔ یہ سارے کیسز صرف اور صرف سیاسی انتقام تھے اور کچھ بھی نہیں ہمیں امید ہے کہ اس ملک میں بیٹر سینس پریویل اور انصاف ہوتے نظر آئے گا۔ دو دن پہلے بلوچستان میں ضمنی الیکشنز ہوئے پی بی 45 میں وہاں پر پھر وہی فراڈ موبائل سروسز بند ہوئی، این ایک سو اکیاون کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دونوں ایم پی ایز کے ریجیکٹڈ ووٹس ملائیں تو وہ بھی چار ہزار سے زیادہ نہیں ہوتے تو کیسے ہوا کہ ایم این اے کی سیٹ کے اوپر اتنی زیادہ ووٹ ریجیکشن ہوئی کچھ پولنگ سٹیشنز ایسے ہیں کہ جہاں پر ٹوٹل ووٹ کاسٹ اس کا 60 فیصد ریجیکٹ ہوا ہے تو اس سے تو یہی لگتا ہے کہ ان سٹیشنز کا جو رزلٹ ہے وہ رد ہونا چاہیے۔مجھے امید ہے کہ اگلی نشست پر میرٹ پر بات ہوگی کوئی اور بہانے بازی نہیں ہوگی میرے جو اپوزنگ کینڈیڈیٹ ہیں وہ نہ صرف جنرل الیکشن میں ہارے تھے بلکہ این اے 151 میں ضمنی الیکشن  میں بھی وہ یہ الیکشن ہارے تھے تب بھی ان کو شکست نظر آرہی تھی اور سیلاب کا بہانہ بنا کر اس الیکشن کو ایک مہینے ملتوی کیا گیا،اس کے بعد وہی ووٹوں کا گھوٹالہ تھا وہی جادو تھا جو ہوا اور اس جادو کے بغیر نہ یہ منتخب ہو سکتے ہیں نہ انہیں کوئی ووٹ دینے کو تیار ہے تو مجھے امید ہے کہ نہ صرف انصاف ہوگا لوگوں کو اپنی سیاسی حیثیت کا بھی اندازہ ہوگا اور لوگ اسے تسلیم کریں گے اور اپنے گریبان میں جھانکیں گے کہ کیوں وہ لوگوں میں مقبول نہیں کیوں انہیں لوگوں کی مدد کی ضرورت ہے کیوں انہیں فراڈ اور فریب کی ضرورت ہے حکومت بنانے کے لیے یا اقتدار میں آنے کیلئے، انہوں نے مزید کہا کہ  ہم پاکستان میں انصاف کا نظام قائم کریں گے لوگوں کو ان کا ووٹ اس کا تقدس  اس کو دوبارہ ہم مینٹین کر سکیں گے لوگوں کو یہ اعتبار دے سکیں گے کیونکہ جو استحکام ہم چاہتے ہیں تو وہ سیاسی استحکام کے بعد ہی آئے گا وہ انصاف کے بعد ہی ائے گا اور اسی سے اپ کا معاشی بحران بھی ختم ہوجائے گا۔