میرے بچوں کے خواب چھینے گئے۔۔۔

Jan 11, 2025 | 09:43 PM

گھر کی دیواریں، باب چھینے گئے 
میرے بچوں کے خواب چھینے گئے

میرے دامن میں صرف کانٹے ہیں
میرے سارے گلاب چھینے گئے

پرس چھینا نہ فون چھینا گیا 
بچیوں سے حجاب چھینے گئے

مینہ نہ برسا ہماری بستی پر
آسماں سے سحاب چھینے گئے

یاد کرنے کو کچھ بچا ہی نہیں 
ہم سے سارے نصاب چھینے گئے

کیسے ملتی کوئی جزا یا سزا
سب گناہ و ثواب چھینے گئے

لوگ گانا بجانا بھول گئے
جب ہمارے رباب چھینے گئے

ہوگئے  بوڑھے وہ  جوانی میں 
ان سے ان کے شباب چھینے گئے

اپنی ڈگری کو کس جگہ بیچیں 
ان سے سارے جواب چھینے گئے

سارے جنگل میں ہو کا عالم ہے
اس کے اڑتے عقاب چھینے گئے

دیس کی خاک تجھ سے کہنا ہے 
تجھ سے خانہ خراب چھینے گئے

مجھ سے ہم جولیوں کا ساتھ چھٹا 
تجھ سے سب ہم رکاب چھینے گئے

کن گناہوں کی مل رہی ہے سزا
سب حساب و کتاب چھینے گئے

تیرے بیٹے بھی بہتے دریا تھے 
تجھ سے ستلج چناب چھینے گئے

ان کو یورپ نے اپنے ویزے دئیے
دھرتی ماں سے جناب چھینے گئے

سب کو  غداری پہ ملے تمغے 
ہم سے عزت مآب چھینے گئے

اپنے حصے کے سہہ کے آئی تھی 
 قبر کے  سب عذاب چھینے گئے

جیل میں بند کردیے لیڈر
رات دن کے خطاب چھینے گئے

اپنی مرضی سے صرف زخم لکھے
ہم سے سب انتساب چھینے گئے

دھرتی ماں کا یہی مقدر ہے 
جو ہوئے کامیاب چھینے گئے

وہ جو نکلے تھے روشنی لے کر 
ہم سے وہ آفتاب چھینے گئے

اب بغاوت کوئی کرے کیسے
تجھ سے سب انقلاب چھینے گئے

ہر طرف ایک بہتا دریا ہے 
زندگی سے سراب چھینے گئے

چھین کے جو کسی سے لائے تھے 
وہ بھی ہم سے جناب چھینے گئے

کلام :ثمینہ رحمت منال

مزیدخبریں