عدلیہ توہین سے ’آزاد ‘ ہوگئی ،سینیٹ نے ’پرخچے‘ اڑانے کے بعد ترمیم بل منظور کرلیا

عدلیہ توہین سے ’آزاد ‘ ہوگئی ،سینیٹ نے ’پرخچے‘ اڑانے کے بعد ترمیم بل منظور ...
عدلیہ توہین سے ’آزاد ‘ ہوگئی ،سینیٹ نے ’پرخچے‘ اڑانے کے بعد ترمیم بل منظور کرلیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد ( مانیٹرنگ ڈیسک )قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی اپوزیشن کے واک آﺅٹ اورشدید مخالفت کے باوجود توہین عدالت کے قانون میں ترمیم کا بل کثرتِ رائے سے منظور کرلیا ہے ۔ اس سے قبل جب حکومت نے سینیٹ میں بل پیش کیا تو اور اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومتی ارکان نے بھی نے اس کی شدید مخالفت کی ۔ اس مخالفت میں حکومت کے دو اہم ارکان رضا ربانی اور اعتزاز احسن پیش پیش رہے اور عملی طور پر اُنہوں نے اب بل کی بعض شقو ں کے ’پرخچے ‘ اڑادیے تاہم اُنہوں نے سارے کے سارے قانون کی مخالفت نہیں کی ۔منظور ہونے والے بل میں کہا گیا ہے کہ جج کے با رے میں سچا بیان توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آ ئے گا ،عدا لتی فیصلوں کے با رے میں مناسب الفاظ میںتبصرہ کر نا توہین عدالت نہیں ہو گا، یہ بیان عدالتی سرگرمیوں کے با رے میں نہیں ہو نا چا ہئے ۔متن کے مطابق اپیل اور نظر ثا نی کی درخواستوں پر فیصلہ حتمی تصور نہیں ہو گا اور کسی جج کے خلا ف معا ملے کی صورت میں متعلقہ جج خو د مقدمہ نہیں سن سکے گا ۔بل کے متن کے مطابق استشنار رکھنے والوں کے خلاف کا روائی نہیں کی جا ئے گی ،عدالت توہین عدالت کر نیوا لے شخص کو حراست میں لینے کا حکم دے سکتی ہے ، بعد میں مقد مہ چلتا ہے تو مزید سز دی جاسکتی ہے ۔ توہین عدالت فیصلے کے خلا ف اپیل کی مدت 30سے بڑ ھا کر 60روز کر دی گئی ہے ۔بل کی منظوری کے بعد وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ توہینِ عدالت کتے وانون میں جو کنفیوژن تھی وہ اب ختم ہو گئی ہے ۔ اس سے قبل جب رولز معطل کر کے یہ بل پیش کیا گیا تون لیگ کے اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ حکومت ایسے کام نہ کرے جس سے عدلیہ کی تکریم کم ہو،ہم اس بل کی شدید مخالفت کرتے ہیں اور اسے آئین کا حصہ نہیں بننے دینگے کیونکہ قوانین دو ایک دن کیلئے نہیں ہوتے بلکہ دہائیوں تک لاگو رہتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ معلوم نہیں حکومت کو اس طرح کی قانون سازی کے احمقانہ مشورے کون دے رہا ہے جبکہ توہین عدالت کا قانون منظوری کی صورت میں ہمارے منہ پر طمانچہ ہو گا ۔ مولانا عبدلغفور حیدری کا کہنا تھا کہ حکومت نے اس بل پر اتحادیوں کے تحفظات بھی دور نہیں کئے ۔بحث میں حصہ لیتے ہوئے حکمران پیپلز پارٹی کے سینیٹر بیرسٹراعتزاز احسن نے توہین عدالت بل کے مسودے پر نظر ثا نی کا مطا لبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اچھا قانون ہے لیکن اسی کی دو شقوںپر ازسر نو غو ر کیا جا ئے ۔ انکا کہنا تھا کہ عدا لتیں بھی تو ہین عدالت قانون سے متعلق تجا وز کر تی ہیں اور سا بق وزیر اعظم کے خلا ف فیصلہ اسکی مثا ل ہے ۔انکا کہناتھا کہ کئی ممالک میں توہین عدالت کا قانون غیر مو ثر ہے اورقانون اظہا ر رائے کی آ زادی سے متصا دم ہے۔اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ عجلت میں بنا یا گیا قانون ، حکومت کیلئے نقصا ن دہ ہو تا ہے ۔انکا کہنا تھا کہ مستقبل میں عدالتوں سے رجوع کیا جا ئے گا تو کہا جا ئے گا کہ آ پ ہی کا بنایا ہوا قانون ہے ۔ ایک سوال کے جوا ب میں انکا کہنا تھا کہ توہین عدالت الزام پر بحث نہیں ہو ئی جو کہ ہو نی چا ہئے تھی جبکہ جبکہ قانون نے صدر اور وزیر اعظم کو استشنیٰ دے رکھا ہے ۔سینیٹ میں قائد ایوان رضا ربانی نے بل پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ اس بل پر حکومت نے ان سے مشاورت نہیں کی لیکن وہ پارٹی سے اختلافات منظر عام پر نہیں لانا چاہتے۔ انہوں نے توہین عدالت کے بل پر نظر ثا نی کا مطا لبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حا لا ت میں یہ بل پا س کر وا نا عقل مندی نہیں ہو گی ۔ کا کہنا تھا کہ توہین عدالت کا بل منظو ر کیا گیا تو عدالتیں کالعدم قرار دے دیں گی جبکہ اپیل کا حق 30دن سے بڑھا کر 60دن کر نے کو عدا لتیں مسترد کر دیں گی ۔انکا کہنا تھا کہ سیاسی اورعدالتی ضبط وعمل دکھانے کی ضرورت ہے اور ہمیں یہ نہیں بھو لنا چا ہئے کہ کل کو ہم بھی اپو زیشن میں ہو سکتے ہیں ۔حکومتی اتحادی مشاہد حسین سید نے بھی بل کی مخالفت کی اور کہا کہ عدلیہ نظریہ ضرورت دفن کرچکی ہے اس لئے حکومت یہ نظریہ اختیار نہ کرے اور اسے پارلیمنٹ میں نہ لائے۔انہوں نے کہا کہ قانون سازی کے عمل میں پارٹی کے مفاد پر قانون کو ترجیح دی جانا چاہئے اور اس کے مستقبل پر اس کے اثرات کو سامنے رکھنا چاہئے ، محض کسی شخصیت کو بچانے کیلئے قانون سازی نہیں ہونا چایئے۔ حاصل بخش بزنجو نے بھی بل کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ بل قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا جائے جہاں اس پر بحث کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ رضا ربانی اور اعتزاز احسن کی مخالفت کے بعد اس بل کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے اس لئے بہتر ہے کہ حکومت کو یہ بل واپس لے لینا چاہئے۔بحث میں حصہ لیتے ہوئے اے این پی کے حاجی عدیل نے کہا کہ تمام ادارے آئین کے تابع ہیں خواہ ان کی واردی خاکی ہو یا ناری ہو۔ان کا کہنا تھا کہ ما رشل لا ءکے دور میں ججوں کی غلطی کو سزاکون دے گا جبکہ نئی فیڈرل کو رٹ بنانے کے فیصلے پر عمل ہو تا تو یہ بل لانے کی ضرورت نہ ہو تی ۔

مزید :

قومی -