ایبٹ آباد کمیشن کی چشم کشا رپورٹ
ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے لئے امریکی فورسز کی طرف سے 2مئی 2011ءکو کی گئی کاروائی سے متعلق سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر)جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم کئے گئے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ قومی خجالت کا باعث ایبٹ آباد جیسے واقعات دوبارہ وقوع پذیر نہ ہوں تو اس کے لئے ہمیں سٹیٹ کے اداروں کے جمہوری کنٹرول اور سیکورٹی اور خفیہ ایجنسیوں پر سول نگرانی کو مضبوط کرنا ہو گا جو کہ ابھی تک اپنی کارکردگی کے لئے ان کو جوابدہ نہیں ہیں- کمیشن نے اپنی تین سو چھتیس صفحات پر مشتمل رپورٹ میں اپنی تحقیقات کے دوران سامنے آنے والے معاملات سے متعلق بتیس سفارشات پیش کی ہیں- اعلی سول حکام اور ملٹری افسروں کی گواہیوں کے بعد کمیشن نے ان اداروں پر ً ملٹری اجارہ داری ً کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے جمہوریت کو مستحکم کرنے پر زور دیا ہے- بعض مبصرین اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ کمیشن کی یہ رپورٹ اس وقت سامنے آئی ہے جب کہ نئی منتخب ہونے والی جمہوری حکومت اور عسکری قوتوں کے درمیان بلوچستان کی صورتحال کے متعلق اختلافات کی افواہیں گردش کررہی ہیں- کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 2مئی کو ایبٹ آباد میں پیش آنے والا واقعہ ہر سطح پر حکومت کی ناکامی، کمزور پالیسی اور مسلسل غفلت برتے جانے کا نتیجہ تھا- اس واقعہ کی ذمہ داری کا واضح طور پر تعین کرتے ہوئے کمیشن نے کہا ہے کہ یہ ناکامی بنیادی طور پر انٹیلی جنس -سیکورٹی کی ناکامی ہے-جس کی جڑیں سیاسی غیر ذمہ داری اور ملٹری کی طرف سے اتھارٹی کے استعمال اور پالیسی اور ان انتظامی معاملات پر اس کا اثر انداز ہونا ہے جن کے لئے اسے آئینی اور قانونی اختیار حاصل نہیں ہے، نہ ہی اس کے لئے اس کے پاس ضروری مہارت اور اہلیت ہے-
رپورٹ میں ایک دوسری جگہ ملک کی عسکری قوتوں اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ملک میں سسٹم کی ناکامی خاص افراد اور اداروں کی غلطیوں کا شاخسانہ ہے جو ان ذمہ داریوں کو غاصبانہ طور پر سنبھال لیتے ہیں جو کہ ان کی ذمہ داریاں نہیں ہیں- رپورٹ میں فوجی مداخلت کے نتیجے میں سامنے آنے والے بہت سے قومی المیوں کا حوالہ دیا گیا ہے- کمیشن نے خبردار کیا ہے کہ جزل اشفاق پرویز کیانی کی قیادت میں آرمی کی طرف سے سیاست سے الگ ہوجانے کے باوجود ملٹری کی طرف سے ً گرین بک آئیڈیالوجی ً کے احیاءکا خطرہ موجود ہے- اس نے مزید خبردار کیا ہے کہ سول کنٹرول اور جمہوری قانون کی حکمرانی کے بغیر ملک 2 مئی جیسے توہین آمیز واقعات کا بار بار سامنا کرتا رہے گااور بالآخر اس سے ہماری بقاءتک خطرے میں پڑ سکتی ہے- جب تک اس وسیع تر تناظر میں ملکی مسائل کے حل کی تدبیر نہیں کی جاتی اس وقت تک تجویز کئے گئے اقدامات اگر کئے بھی گئے تو ان کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا- کمیشن نے یہ حل پیش کیا ہے کہ نمائندہ سول کنٹرول ہی قومی پالیسی کے تمام پہلو بشمول ڈیفنس اور سیکورٹی تشکیل دے اور ان پر عمل کرائے - نامناسب سول گورننس کے مسئلہ سے متعلق کمیشن نے کہا ہے کہ سول قیادت کی طرف سے حکمرانی کے معیار اس لئے گر گئے ہیں کہ ماضی میں سول حکومتوں کو زبردستی ان کے مقام سے ہٹایا گیا-ان پر پابندیاں لگائی گئیں اورانہیں ان کے کام سے بے تعلق کیا گیا-رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جن لوگوں پر پالیسی سازی، انتظامیہ اور نگرانی کی آئینی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیںوہ درحقیقت سول کنٹرول کی عدم موجودگی اور سول حکومت کی طویل عرصہ تک قومی پالیسی سازی میںعدم شمولیت کی وجہ سے ملٹری سے بھی کم اہمیت کے مالک رہے ہیں-رپورٹ میں انتباہ کیا گیا ہے کہ ایک جعلی جمہوریت ، مجرمانہ اورگمراہ حکمرانی کی طرف جاسکتی ہے- اس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت کو سسٹم کی ناکامی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کمیشن نے توقع ظاہر کی ہے کہ پاکستان کے عوام انتخابات میں اس سلسلے میں اجتماعی فیصلہ دیں گے-
کمیشن نے کہا ہے کہ ضرورت سے زیادہ اختیارات اورجوابدہی کی عدم موجودگی میں انٹیلی جنس ادارے ملک کی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ بن چکے ہیں-کمیشن نے کہا کہ جوائنٹ سٹاف ہیڈ کوارٹرز صرف ایک پوسٹ آفس کی صورت اختیار کرچکا ہے جس وجہ سے یہ مطلوبہ نتائج پیدا نہیں کررہا- اس کی وجہ یہ ہے کہ فوجی حکومت کے دوران آرمی چیف ملک کے صدر رہے ہیں- کمیشن نے تجویز دی ہے کہ ایک سہ محکمہ جاتی کمیٹی اس ادارے کے کردار کے تعین کے لئے قائم کی جائے جو حکومت کو اس کے ابتدائی کردار کی بحالی کے لئے تجاویز پیش کرے- کمیشن نے تجویز پیش کی ہے کہ غیر ملکی حکومتوں سے کسی بھی طرح کے زبانی معاہدے ختم کئے جائیں-غیر ملکی حکام کے ساتھ ہونے والی بات چیت کا ریکارڈ نہ رکھنا ایک افسوسناک امر اور بیمار حکومت کاری کی علامت ہے-مستقبل میں یہ سلسلہ ختم ہونا چاہئیے-
کمیشن نے موجودہ ڈیفنس پالیسی کو ملٹری کی اجارہ داری کا شاخسانہ قرار دیا، جو ایک غیر تحریر شدہ سول حکومت کے بغیر تیار کردہ سیکورٹی پالیسی ہے- کسی ملک کو دوست یا دشمن قرار دینا ملٹری کا کام نہیںبلکہ ایک منتخب قیادت کا اختیار ہے- کمیشن کی تحقیقات کے دوران انہیں ملٹری کمانڈرز کی طرف سے بتایا گیا کہ ہماری مغربی سرحدوں پر امریکی افواج متعین ہیں ، ہمیں ان کی طرف سے کسی حملے کا خطرہ نہیں تھا،اس لئے ہم نے اپنی افواج زیادہ تر انڈین بارڈر کی طرف رکھیں ،- کمیشن نے نیشنل سیکورٹی کونسل تشکیل کرنے کی سفارش کی ہے جو کہ وزیر اعظم کے دفتر کا حصہ ہو، اور یہ قومی سلامتی کے سلسلے میں متعلقہ اداروں کے ساتھ رابطے کاکام کرے اور ملک کے چیف ایگزیکٹو کو رپورٹ کرے- اس کے سیکرٹریٹ کا سربراہ نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ہوجو قومی سلامتی پالیسی تشکیل دینے کا بھی ذمہ دارہو- کمیشن نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت نے بیرونی دہشت گردوں سے نمٹنے کا کام امریکہ پر چھوڑ دیا جبکہ اندرونی طور پر اس کے لئے آئی ایس آئی پر بھروسہ کیا گیا جو کہ ملک میں مذہبی دہشت گرد گروہوں کے ساتھ طویل تعلقات کی افسوسناک تاریخ رکھتی ہے- کمیشن نے اینٹی دہشت گردی ایکٹ اور شہادت کے قانون اور پاکستاان پینل کوڈ میں ترمیم کرنے کی سفارش کی ہے-اس نے 2009ءمیں بنائی گئی ً نیشنل کا ﺅنٹر ٹیررازم اتھارٹی ً کو فنکشنل کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے، اور کہا ہے کہ آئی ایس آئی دہشت گردی کے خلاف اس کے مرکزی کردار ادا کرنے کی راہ میں رکاوٹ رہی ہے- دہشت گردو ں کے نیٹ ورکس کے خلاف کاروائی کرنے کی انتہائی اہم ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے کمیشن نے بعض کو حکومتی سرپرستی حاصل ہونے کی نشاندہی بھی کی ہے، اور کہا ہے کہ ً غیر قانونی متشدد گروہوں کو اپنے انتہا پسندانہ عزائم کی دہشت گردی کے ذریعے تکمیل کے لئے ایک متوازی حکومت کی طرف سے مسلسل مدد اور مسئلہ کے حل سے مسلسل عدم دلچسپی اور اسے ترجیح نہ دینا ہمارے ملک کو ڈبو دے گا- 2 مئی کا واقعہ ہمیں خواب غفلت سے جگانے کے لئے کافی ہے- اسے نظر انداز کرنا ہمارے لئے انتہائی مہلک ثابت ہوسکتا ہے- کمیشن نے 2 مئی کے واقعہ کو پاکستان کے خلاف جنگ قرار دیا ، اور امریکی سی آئی اے کی طرف سے پاکستانی ایجنسیز کے ساتھ تعاون سے انکار کو مجرمانہ فعل قراردیا- رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اس وقت تک سی آئی اے سے تعاون نہ کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے جب تک کہ سی آئی اے اپنے رویے میں تبدیلی نہیں کرتی- اس نے کہا کہ دہشت گردی کے سلسلے میں پکڑے جانے والے تمام اہم افراد کو غیر ملکیوں کے سپرد کرنے سے پہلے ان پر ملک کے اندر مقدمات چلنے چاہئیں- کمیشن نے اس بات کا بھی نوٹس لیا ہے کہ امریکی سفارتخانہ نے اپنی سرگرمیوں کے ذریعے سفارتی قواعد اور روایات میں خود ہی تبدیلی کرلی ہے- اس نے اسلام آباد میں امریکن چانسری میں توسیع کا ذکر بھی کیا ہے اور اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اس سے امریکہ کے پاکستان میںمزید گہری مداخلت کے راستے ہموار ہوں گے- ان معاملات سے نمٹنے کے لئے کسی کو جوابدہ نہ ہونے والے اداروں، آئی ایس آئی یا ملٹری کے بجائے متعلقہ سرکاری ذرائع سے کام لیا جائے- رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں سی آئی اے نیٹ ورک اور دہشت گردوں کی تنظیموں کو ختم کرنا ہماری اولین قومی ترجیح ہونا چاہئیے-
سپریم کورٹ کے سابق جج کی سربراہی میں قائم کردہ کمیشن نے ایبٹ آباد میں امریکی فورسز کی کارروائی کے واقعہ کے محرکات،اور اس سلسلے میں اپنے اداروں کی غفلت اور ناکامی کی وجوہ کا سراغ لگانے کے دوران انتہائی اہم اور بنیادی ملکی مسائل اور حقائق کی نشاندہی کی ہے- کمیشن کی رپورٹ میں موجود حقائق میڈیا کے ذریعے سامنے آنے کے بعد اگلے روز ہی کور کمانڈرز کانفرنس تھی جس میں اس رپورٹ پر غور و خوض کیا گیا اور اسے اہمیت دی گئی-کمیشن کی طرف سے جن بڑے قومی مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے، آج تک قوم کے باخبر اہل نظر کے گہرے غورو خوض کے بعدکھلے اور اندر خانے خیالات کے اظہارمیں تقریبا یہی باتیں سامنے آتی رہتی ہیں ،اکثر ماہرین ملٹری تک پہنچنے والے معاملات کے بعد اپنی سوچ کے دروازے بند کرکے اور مایوس ہو کر بیٹھ رہتے ہیں- جن لوگوں کو قوم کی بہادر مسلح افواج سے فطری طور پر چڑ ہے وہ ایسی باتوں کو قوم میں بددلی پھیلانے کے لئے استعمال کرتے ہیں ، لیکن جو لوگ موجودہ گھمبیر حالات کی اصلاح اور بہتری چاہتے ہیں وہ فوج سمیت ملکی اداروں کے رویوں اور معاملات میں بڑی تبدیلیوں کی خواہش رکھتے ہیں- خفیہ اداروں کے لوگ ملکی سلامتی اور دفاع کا انتہائی اہم فریضہ ادا کرتے ہیں، انہیں قوم کے کان اور آنکھیں ہونے کی حیثیت حاصل ہے - وہ جاگتے ہیں تو قوم سکھ کی نیند سوتی ہے- دنیا کی اہم ترین خفیہ ایجنسیوں نے ہمارے خلاف دہشت گردی کی جو جنگ شروع کررکھی ہے اس سے نمٹنے کے لئے آئی ایس آئی ایک بے حد وسیع جدوجہد میں مصروف ہے - لیکن دہشت گردوں کے ہاتھوں مسلسل زخمی ہونے کے بعد قوم اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ جب تک انہیں اندرون ملک سے حاصل ہونے والی حمایت ختم نہیں ہو جا تی، دہشت گردوں سے نمٹنا آسان نہیں ہے- اس کے لئے مختلف گروہوں سے مذاکرات کی ضرورت ہے جس کے لئے تمام سیاسی اور دینی قوتوں کو مل بیٹھ کر ایک مشترکہ لائحہ عمل طے کرنا ہوگا- اب تک ہماری ایجنسیاں اگر دہشت گردی کے عذاب سے قوم کو محفوظ رکھنے میں ناکام رہی ہیں تو اس کا اعتراف بھی انہیں کرنا ہوگا - اگر ان کے طریق کار اور پالیسیوں اور سٹرکچر میں کسی طرح کی تبدیلی اور ان کے کام کے سلسلے میں جوابدہی کے کسی سسٹم کی ضرورت ہے تو اس کے لئے بھی انہیں تیار ہونا چاہئیے-
سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے بھی مختلف اداروں کے آئینی دائرہ کار کی بار بار وضاحت کی جاتی رہی ہے، ایجنسیوں کی بہت سی غلطیوں کی نشاندہی سپریم کورٹ مختلف کیسوں کی سماعت کے دوران بار بار کرچکی ہے- جمہوری حکومتوں کی قیادت اور پالیسی سازی کے حقوق پر بھی سپریم کورٹ کے علاوہ پوری قوم کا اور دنیا بھر کی مہذب اقوام کا اتفاق ہے- آئندہ کے لئے آمریت کے قطعی نامنظور ہونے کے سلسلے میں بھی قوم ایک ہے- محترم جسٹس جاوید اقبال مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے انتہائی عرق ریزی سے کام لیتے ہوئے قوم کے اصل مسائل کی نشاندہی کردی ہے- قومی امنگوں اور آرزوﺅں کے پیش نظر ادارے بھی کسی اناءپرستی کے بجائے حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے موجودہ حالات کی انتہائی سنگین نوعیت کے پیش نظر اپنے آپ کو بدلنے کے لئے تیار ہیں- جو بدلنے کے لئے تیار نہیں وہ اس قوم کا و فادار نہیں- ہزار مصیبتیں اور مسائل کا سامنا کرتی ہوئی یہ قوم اب اس بات کا حق رکھتی ہے کہ اسے سچ بتایا جائے ، قوم کا نمک کھانے والے تمام ملازمین کا یہ فرض ہے کہ وہ سچ کا سامنا کریں - سچ کو سچ نہ ماننے سے اصلاح اور تعمیر کا کوئی خواب بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا- ہمیں موجودہ مصائب اور سنگین حالات سے باہر نکلنے کے لئے خود کو بدلنے کی ضرورت ہے- طویل محنت اور عدل وانصاف اور قومی مفاد کے تقاضے پورے کرنے کے لئے جسٹس جاوید اقبال کمیشن کی رپورٹ کے ایک ایک لفظ پر غور کیا جانا چاہئیے- فوج ، ایجنسیوں اور سیاستدانوں اور بیوروکریسی ہر کسی کو اپنے رویوں پر غور کرنا ہوگا- خود کو بدلے بغیر ہم حالات کو بدل نہیں پائیں گے- کل جماعتی قومی کانفرنس کو بھی اس رپورٹ کی بے حد اہم نوعیت کی تجاویز پر پورا غورو خوض اور ان کے سلسلے میں اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا- اس طرح کے بے حد اہم تحقیقاتی کمیشن قوم کے مصائب کی وجوہ اور ان سے باہر نکلنے کے راستے تلاش کرنے کے لئے طویل وقت اور محنت صرف کرتے ہیں ، لیکن ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ یہ راستے تلاش کرلئے جانے کے بعد بعض نادیدہ طاقتوں کی طرف سے ہمیشہ انہیں بند کرنے کی کامیاب کوششیں کی جاتی ہیں- قوم کو اندھیرے میں رکھا جاتا ہے - لیکن اب قوم جو کچھ بھگت رہی ہے ، اس کے بعد اس کے راستے بند کرنے والوں کے لئے کسی اچھے انجام کی توقع نہیں کی جاسکتی- قوم روشنی دیکھ چکی ہے اور اپنی قیادت سے اس روشنی میں اچھا برا سب دیکھ کر درست سمت اختیار کرنے کی تمنا رکھتی ہے-