’’دبستانِ ‘‘سید عبّاس زیدی کا ایک منظر۔۔۔ سخنِ عبّاس

’’دبستانِ ‘‘سید عبّاس زیدی کا ایک منظر۔۔۔ سخنِ عبّاس

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سید عبّاس زیدی ہمہ جہت شخصیت کے حامل ہیں۔ اپنی عمر سے کہیں زیادہ میچور۔ مبدۂِ فیض نے انہیں بہت سارے علوم و فنون سے نوازا ہے۔ وہ بیک وقت شاعر، ادیب، مذہبی سکالر ، خطیب ، نعت خواں اور نوحہ و منقبت خواں بھی ہیں۔ وہ آواز کے رچاؤ، سُر کے لگاؤ اور تال میل کے لگاؤ سے بخوبی آشنا ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ سامنے کس مزاج کے حاضرین بیٹھے ہیں۔ وہ ان کے مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے موضوع ، کلام یا سُر چھیڑتے ہیں۔ وہ مجمع جمانے اور لوٹنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ دلکش سراپے اور دل موہ لینے والی گفتگو سے وہ کسی اجنبی کو بھی اپنا اسیر بنا لینے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ لفظوں کو کیسے برتا جاتا ہے۔ وہ لفظ کی اہمیت اس کی افادیت اور اس کے اثرات سے نہ صرف بخوبی واقف ہیں، بلکہ اُن کے بر محل استعمال اور اس سے مرتب ہونے والے اثرات کا بھی پوری طرح ادراک رکھتے ہیں۔ اُن کے چاہنے اور ماننے والوں کا دائرہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ اُن کی شخصیت اور کمالات کی معراج کی واضح دلیل ہے۔ خود مَیں بھی اُن کے ’’متاثرین‘‘ میں شامل ہوں۔


یوں تو اُن کی شخصیت پر میں بہت لمبی چوڑی گفتگو کر سکتا ہوں، اور وہ اس کے اہل بھی ہیں، مگر تنگیِ قرطاس کے سبب یہاں اُن کے فن کے صرف ایک پہلو ’شاعری‘ میں سے ہی چند اشعار آپ کی نذر کر کے اُن کے فن کا ایک پرتاؤ آپ کے سامنے لانا چاہوں گا۔ مَیں اگر اُن کی شاعری پر ہی تبصرہ اور تنقید لکھنا شروع کر دوں تو ایک دفتر کھل جائے۔ میں اختصار سے کام لیتے ہوئے صرف اُن کے چند اشعار پر ہی اکتفا کروں گا۔ ان کی شخصیت اور فن کے باقی پہلو ؤں کا احاطہ پھر کسی وقت سہی۔ اُن کے ’ دبستانِ سخن ‘میں چند اشعارِ غزلیات سنیے اور سر دھنیے۔


ہر جگہ ہی سنتے ہیں ہے حیات پانی میں
ہم تو دیکھتے رہتے ہیں ممات پانی میں
بانجھ اب نہیں ہونگے ہوشیار ہو جاؤ
اب کے بار جو ڈوبی کائنات پانی میں
۔۔۔


تو نے اس طور سے آنکھوں میں اتاری آنکھیں
اب ہماری ہیں کبھی تھیں یہ تمہاری آنکھیں
اب وہ نظریں ہی کہاں جن سے عطا ہوتی تھی
اب تو ہر شخص کے چہرے پہ بھکاری آنکھیں
عیش سے پاک بھی اور شوق سے عاری آنکھیں
لاکھ ڈھونڈو گے نہ پاؤ گے کنواری آنکھیں
پردہِ خاک میں دو چاند چھپا لیتے ہیں
جب ذرا ہونے لگیں نیند سے بھاری آنکھیں
۔۔۔


جب کبھی جسم یار دیکھا ہے
غور سے بار بار دیکھا ہے
بے ہنر بے ادب، بخیلوں کو
برسرِ اقتدار دیکھا ہے
۔۔۔


روز ہی میں پاتا ہوں یہ پکار مٹی میں
اس جہانِ خاکی کا کاروبار مٹی میں
جب زمین ہلتی ہے ’’ہل‘‘ تو میں بھی جاتا ہوں
جانے کون کب سے ہے بے قرار مٹی میں
۔۔۔


روز سورج ہمیں بتاتا ہے
خود جلو گے تو روشنی ہو گی
۔۔۔


جز ترے سب پہ راج رکھتے ہیں
بس یہی احتیاج رکھتے ہیں
کھِل اُٹھیں دیکھ کر مناظر کو
شاعرانہ مزاج رکھتے ہیں
۔۔۔


ترے وجود میں یوں پائمال ہو جاؤں
ترے بدن سے لپٹ کر مَیں کھال ہو جاؤں
کہا جو تو نے کہ ’’ہو جا‘‘ تو ہو گیا تیرا
وگرنہ میری کہاں ہے مجال ہو جاؤں
سانحہ پشاور پر اُن کا لکھا ہوا ایک پُرنم اور پُر درد گیت بھی ملاحظہ کیجئے ،جو آپ ان کی مدھر آواز میں یقیناًسن چکے ہونگے۔
ابن آدم کجا قابیل سا ہوتے دیکھا
میں نے حوّا تجھے ہابیل پہ روتے دیکھا
جاگتی رہتی تھی جو یادِ پسر میں حوّا
پھر کسی ماں کو نہیں چین سے سوتے دیکھا
الغرض اُن کے لا تعداد اشعار ایسے ہیں جن کا ذکر یہاں کیا جا سکتا ہے، لیکن تنگئ قرطاس کی مجبوری ہے، لہٰذا اسی پر اکتفا کرتے ہوئے صرف یہ کہنا چاہونگا کہ میرا آج کا نقاد اور آنے والے دور کے ناقدینِ علم و فن سید عبّاس زیدی کی شاعری کا نوٹس لیے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ عبّاس زیدی کی شاعری میں وہ طاقت موجود ہے کہ وہ ہر دور کے قاری اور ناقد علم و فن سے بے ساختہ داد وصول کر سکے۔ *

مزید :

کالم -