شفاف احتساب کا حق

شفاف احتساب کا حق

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پہلے ہم اپنے درمیان اچھے لوگوں کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس ملک کی تاریخ میں پہلی بار ہم احتساب کے کلچر میں داخل ہو رہے ہیں جس میں ایک طاقت ور اور امیر شخص پر قانون کا اطلاق ہونے والا ہے۔ ایک وزیر اعظم کو عدالت کے سامنے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرتے دیکھنے سے بڑا کیا اہم واقعہ ہو سکتا ہے ؟ ہم امید رکھتے ہیں کہ قانون کو ہر کسی کے لیے قابل اطلاق بنانے کا یہ عمل ہماری قومی زندگی کا مستقل ستون بن جائے گا۔ البتہ ضدی اور استقامت پسند حکومت کو اپنے موقف پر ڈٹے رہنے پر کریڈٹ لازمی دیا جانا چاہیے۔البتہ احتساب کا عمل قابل تعریف ہونے کے باوجود ایک ناقص نظام کے تحت پایہ تکمیل تک پہنچ رہا ہے اور یہ ایک بری خبر ہے۔ پہلی غلط چیز یہ ہے کہ یہ احتساب آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت ہو رہا ہے۔ اس شق کے تحت عدالت جو فیصلے صادر کرتی ہے ا ن کے خلاف کہیں اپیل نہیں کی جا سکتی۔ اس طرح غیر شفاف احتساب کے بعد اپیل کا حق نہ ملنا جو ہر شہری کو آرٹیکل 10 اے کے تحت حاصل ہے ایک بہت ہی افسوسناک بات ہے۔یہ بات تو صاف واضح ہے کہ ایک ایسے معاملے میں شفاف احتساب ممکن ہی نہیں ہے جہاں مدعی یا مدعا علیہ کو فیصلے کے خلاف اپیل کا حق نہ ہو۔ دنیا بھر کی عدالتوں میں ہر قسم کے فیصلہ کے خلاف اپیل کا حق دیا جاتا ہے۔ 1966ء کے اقوام متحدہ سول اور سیاسی حقوق معاہدہ کے مطابق کے تحت ہر ملک کے ہر شخص کو عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق آرٹیکل 14/5 کے تحت دیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دنیا بھر کے ہر ملک کے شہریوں کو دیا گیا انصاف اس وقت تک شفاف نہیں تصور کیا جاتا جب تک انہیں فیصلے کے خلاف یا فیصلہ پر نظرثانی کا حق نہ دے دیا جائے۔ آرٹیکل 10اے کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آرٹیکل 184/3 ایک واضح اور شفاف احتساب کا ذریعہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کئی سال قبل اس آرٹیکل کے تحت دیے گئے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دینے کی کوششیں ضرور کی گئی تھیں لیکن معاملہ سیاسی نوعیت اختیار کر گیا۔ اس طرح کا اپیل کا حق نظر ثانی کے حق کو سپریم کورٹ میں وسعت دے سکتا تھا جب کہ یہ حق سپریم کورٹ کے بہت سے کیسز میں پہلے سے ہی دیا گیا ہے۔پاکستان میں احتساب کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے وہ اس لیے بھی ناقص ہے کیونکہ اس کو جوڈیشل بنیادوں پر اور جوڈیشل ڈیکورم کے مطابق نہیں پرکھا جا رہا۔ جب یہ دونوں چیزیں ایک عدالتی نظام میں موجود نہ ہوں یا انہیں پرکھا نہ جا رہا ہو پھر کسی بھی احتساب کو شفاف نہیں کہا جا سکتا۔ انصاف ہوتا دکھائی دینا چاہیے۔ ٹرانسپیرنسی، پروپرائیٹی اور ڈیکورم ایسی چیزیں ہیں جو شفاف احتساب کی علامت قرار دی جاتی ہیں۔ پروپرائیٹی میں خلل اس وقت نظر آتا جب ججز اپنے آپ کو کسی ذاتی تعلق یا باہمی چپقلش کی وجہ سے بینچ سے علیحدہ نہیں کرتے۔ دنیا بھر کی عدالتوں میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں جب ججوں نے اپنے آپ کو الزامات یا ذاتی تعلقات کی بنا پر بینچ سے علیحدہ کرنے کا اعلان کیا ہو۔ اس پانامہ کیس کے دوران بہت سے ایسے مواقع آئے لیکن ججوں نے اپنے آپ کو بینچ سے علیحدہ نہیں کیا۔ اس نظریہ کو کیسز کی روشنی میں ثابت کیا جا سکتا ہے لیکن اہم معاملہ اخلاقیات کا ہے۔ میرے خیال میں انصاف زیادہ بہتر اور ذمہ دار افراد کی موجودگی کی صورت میں ہی دلوایا جا سکتا ہے۔ جوڈیشل ڈیکورم قانون کی عظمت میں اضافہ کرتا ہے لیکن جب 'مافیا'، 'انہیں باہر نکال پھینکو' ، 'انہیں کچرے کے ڈبے میں ڈال دینا چاہیے' ، 'اخبارات صرف پکوڑے بیچنے کے لیے رہ گئے ہیں'، جیسے الفاظ عدالت میں استعمال ہونے لگیں تو اس سے عدالت اور انصاف کی اہمیت کم ہو جاتی ہے اور احتساب شفاف نہیں رہ جاتا۔سب سے آخری بات یہ کہ جے آئی ٹی ممبران کی تعیناتی کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کے جوابات ابھی تک فراہم نہیں کیے گئے باوجود ا س کے کہ وٹس ایپ کے ذریعے جے آئی ٹی ممبران کے انتخاب کا معاملہ نیوز چینلز اور اخبارات میں بھی زیر بحث رہا۔ نہ ہی متعصب اور متنازعہ ممبران کے انتخاب کے معاملے پر تسلی بخش جوابات حاصل ہو پائے ہیں۔ جہاں تک احتساب کا تعلق ہے تو وہ ہو رہا ہے لیکن جہاں تک اس احتساب کے شفاف ہونے کا تعلق ہے، تو یہ امر متنازعہ ہے اور اسے کسی صورت شفاف قرار نہیں دیا جا سکتا۔
(ڈاکٹر پرویز حسن ممتاز آئینی اور قانونی ماہرین اور عالمی شہرت کے حامل ہیں۔)

مزید :

کالم -