وزیراعظم اور ان کے خاندان پر الزمات ثابت کرنا اب جے آئی ٹی کی ذمہ داری ہوگی

وزیراعظم اور ان کے خاندان پر الزمات ثابت کرنا اب جے آئی ٹی کی ذمہ داری ہوگی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ -:سعیدچودھری
پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کی طرف سے تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی ہے ۔مسٹر جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں قائم 3رکنی بنچ کی ہدایت پر فریقین کو تحقیقاتی رپورٹ کی نقول فراہم کردی گئی ہیں ۔رپورٹ میں دیگر باتوں کے علاوہ شریف فیملی کے ارکان کو نیب آرڈیننس کے تحت ملزم بھی قرار دیا گیا ہے اور اس حوالے سے نیب آرڈیننس کے سیکشن 9کا حوالہ دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ان کے طرززندگی اور ذرائع آمدنی میں تضاد ہے ۔نیب آرڈیننس کے ذکر کا مطلب ہے کہ یہ معاملہ نیب کے دائرہ اختیار میں آتا ہے ۔اب یہ عدالت عظمیٰ کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ اس کیس کا خود فیصلہ کرتی ہے یا پھر اسے مزید کارروائی کے لئے نیب کو بھیجا جاتا ہے ۔قانون کے تحت تحقیقاتی رپورٹس کوثبوت کادرجہ حاصل نہیں ہے اور نہ ہی اسے عدالتیں شہادت کے طور پر قبول کرتی ہیں۔اس لئے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر فریقین سے اعتراضات طلب کئے گئے ہیں ۔احسن اقبال ،خواجہ آصف اور بیرسٹر ظفر اللہ سمیت وفاقی حکومت کے عہدے داروں نے اس رپورٹ کو طوطا مینا کی کہانی قرار دے کر مسترد کردیا ہے ۔سپریم کورٹ اس رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد مناسب حکم جاری کرے گی لیکن اس سے قبل آئین کے آرٹیکل 10(اے)کے تحت فریقین کو شنوائی کا پورا موقع دیا جانا ضروری ہے ۔یہ تاثر غلط ہے کہ جے آئی ٹی نے وزیراعظم اور ان کے بیٹوں کے خلاف احتساب ریفرنس دائر کرنے کی سفارش کردی ہے ۔جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں نیب آرڈیننس کے سیکشن 9کا حوالہ دیا ہے جو مذکور ہ تینوں افراد کے لئے مخصوص نہیں ہے اگر ریفرنس بھیجنے کی نوبت آتی ہے تو اس کی لپیٹ میں کئی دیگرلوگ بھی آئیں گے جن میں شریف فیملی کے ارکان بھی شامل ہوں گے ۔فریقین کا موقف سننے کے بعد سپریم کورٹ اگر جے آئی ٹی کی رپورٹ پر انحصار کرتی ہے تو اس رپورٹ کی بنیاد پر وزیراعظم کو نااہل قرار دینا بادی النظر میں قرین انصاف نہیں ہوگا،کیوں کہ اس رپورٹ میں جس جرم کے ارتکاب کا ذکر کیا گیا ہے ،اسے ادھورانہیں چھوڑا جاسکتا اور اسے منطقی انجام تک پہنچایا جانا ضروری ہے ۔ایسا کرنا انصاف کے اصولوں کے منافی ہوگا کہ پہلے وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیا جائے اور پھر ان کے خلاف کارروائی کے لئے معاملہ نیب کو بھیجا جائے ۔اگر سپریم کورٹ اپنی اوریجنل جیورسڈکشن کا استعمال کرتے ہوئے خود اس کیس کا فیصلہ کرتی ہے توان لوگوں کے پاس اپیل کا حق نہیں ہوگا اور سپریم کورٹ خود قرار دے چکی ہے کہ اپیل کا حق نہ دینا غیر آئینی اور غیر اسلامی ہے ۔ کسی ماتحت عدالت کے لئے ممکن نہیں ہوگا کہ جس شخص کو سپریم کورٹ نے گناہ گار قرار دیا ہو اسے بری کردیا جائے ۔جے آئی ٹی کی رپورٹ میں وزیراعظم کا ان کے بیٹوں اور خاندان کے کاروبار سے تعلق جوڑا گیا ہے ،دوسرے لفظوں میں حسین نواز اور حسن نواز کی آف شو رکمپنیوں میں وزیراعظم حصہ دار ہیں ۔محض بیٹوں کے اکاؤنٹس سے باپ کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل ہونے کو اس بات کی دلیل نہیں بنایا جاسکتا کہ باپ اپنے بچوں کے کاروبار میں حصہ دار ہے ۔جے آئی ٹی کو ایسے ثبوت ڈھونڈنے چاہئیں تھے جن سے پتہ چلتا کہ میاں نوازشریف عملی طور پر اپنے بچوں کے کاروبار میں دخیل ہیں ۔بظاہر ایسے ثبوت سامنے نہیں لائے جاسکے ہیں ،بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ جے آئی ٹی نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے ۔سپریم کورٹ کی طرف سے تحقیقات کا حکم ملنے کا مطلب یہ نہیں کہ جے آئی ٹی کو اس سلسلے میں کارروائی کے لئے مادر پدر آزادی حاصل تھی ۔جے آئی ٹی کا ہر اقدام کسی نہ کسی قانون کے تابع ہونا چاہیے تھا جیسا کہ سپریم کورٹ کا ہر ایک حکم کسی نہ کسی قانون اور آئین کے تابع ہوتا ہے ۔جے آئی ٹی کو بتانا پڑے گاکہ اس نے کس قانون کے تحت طارق شفیع اور ہارون پاشا کی باہمی ٹیلی فونک گفتگو کو اپنے ریکارڈ کا حصہ بنایا ہے ۔جے آئی ٹی کی کارروائیوں میں سے ایسے کئی ایک معاملات ڈھونڈے جاسکتے ہیں جن کی بنیاد پر اس کی بدنیتی کا سوال اٹھایا جاسکتا ہے ۔جے آئی ٹی کی رپورٹ میں بیان کئے گئے معاملات پر شہادتیں بھی طلب کی جائیں گی ،نیب آرڈیننس کے تحت اپنی صفائی پیش کرنا ملزم کی ذمہ داری ہے تاہم سپریم کورٹ میں وزیراعظم اوران کے بچوں کے خلاف نیب آرڈیننس کے تحت نہیں بلکہ آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت درخواستوں کی سماعت ہورہی ہے ،اس لئے سپریم کورٹ میں اب بارثبوت جے آئی ٹی پر ہوگا کہ وہ اپنی رپورٹ کو درست ثابت کرے۔عدالت ذرائع سے حاصل کی گئی معلومات کو شہادت تسلیم نہیں کرتی ہے اس کے لئے گواہیاں پیش کرنا پڑتی ہیں ۔عدالت کسی تحقیقاتی رپورٹ کو من و عن تسلیم کرکے کوئی فیصلہ جاری کرنے کی مجاز نہیں ہے جب تک کہ اس کے تائید میں قابل قبول شہادتیں پیش نہ کی جائیں۔تحقیقاتی رپورٹ کوئی فیصلہ ہے اور نہ ہی اس کی بنیاد پر وزیراعظم کوکوئی سزا دی جاسکتی ہے ۔
جے آ ئی ٹی۔ ذمہ داری

مزید :

تجزیہ -