پاکستان کے دو مشاہداتی سیارے خلاؤں میں!
گزشتہ دنوں میں نے ’’پاکستان کا مشاہداتی سیارہ‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا جس میں بتایا تھا کہ سپارکو نے اپنے سائنس دانوں، انجینئروں اور دوسرے متعلقہ فنی ماہرین کی زیر نگرانی 285کلو وزن کا ایک سیارہ تیار کیا ہے جسے کچھ دنوں بعد چین کے کسی راکٹ کے ذریعے مدار میں بھیجا جائے گا۔
پرسوں (سوموار) یہ خبر آئی کہ پاکستان کے لئے ایک نہیں بلکہ دو سیارے چین کے ایک خلائی مواصلاتی سنٹر سے چھوڑے گئے ہیں۔
اس خبر کی تفاصیل اور تصاویرپرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاپر آ چکی ہیں۔۔۔ یہ کالم اسی سلسلے میں رقم کیا جا رہا ہے۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ پاکستانی معاشرے کا سوادِ اعظم خلائی علوم کی بجائے سیاسی علوم پر فریفتہ ہے۔ سیاسیات کی گتھیاں جتنی بھی پیچیدہ ہوں ان کو ازبر کرنے میں ہمارا جواب نہیں۔
میں تو ایک طویل عرصے سے یہ دہائی دیتا آ رہا ہوں کہ من حیث القوم ہماری اختراعی اور ایجادی توانائیاں غلط ترجیحات پر لگائی جا رہی اور ضائع کی جا رہی ہیں۔ سیاست، مذہب اور شاعری کے سوا باقی موضوعات کو ہمارے ہاں بہت ہی کم پذیرائی ملتی ہے اور سائنسی علوم و فنون میں تو ’’خلائیات‘‘ جدید ترین علوم و فنون میں سے ایک ہے۔
ہمارے زیادہ تر تعلیمی اداروں میں بھی سائنسی علوم کو زیادہ ’’پسند‘‘ نہیں کیا جاتا۔ یورپی ممالک اور امریکہ کے تدریسی اداروں میں ابتدائی سطح پر ہی سائنسی علوم کو اول ترجیح پر رکھا جاتا ہے۔ میں نے خود جب سکول کی نویں کلاس میں قدم رکھا تو آرٹس اور سائنس سے متعلق درسی مضامین کے انتخاب میں میری پہلی ترجیح آرٹس کی طرف تھی۔
ان ایام میں طلباء کی اکثریت کا رجحان عربی،فارسی، ڈرائنگ وغیرہ کی طرف تھا جبکہ سائنس کی کلاسیں معدودے چند طلباء پر مشتمل ہوتی تھیں۔ آج یاد کرتا ہوں کہ کیا سبب تھا کہ مجھے آرٹس کے مضامین پسند اور سائنسی مضامین ناپسند تھے۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کی دو تین وجوہات تھیں۔ ایک تو فزکس، کیمسٹری اور بیالوجی وغیرہ کی بھاری بھرکم اصطلاحیں اجنبی معلوم ہوتی تھیں، دوسرے سائنس روم میں رکھی شیشے کی نالیاں، ترازو اور ٹیوبیں اور دوسرے آلات و اوزار اور اس کمرے میں پھیلی ہوئی ایک مخصوص بساند سے مجھے کراہت سی ہوتی تھی۔ اور تیسرے ہمارے سائنس کے استاد آنکھوں پر موٹے موٹے شیشوں کے چشمے چڑھائے اور چہرے پر ایک درشت متانت طاری کئے رکھتے تھے جس سے شفقت اور ملائمت کا اظہار نہیں ہوتا تھا۔۔۔ لیکن آج پچھتاتا ہوں کہ کاش اپنی اس طبیعت پر قابو پا کر آسان سے مشکل کی طرف سفر کرنے کی بجائے مشکل سے آسان کی طرف والی راہوں پر گامزن ہو جاتا!
پھر وقت آگے بڑھا۔ ہم نے پاک آرمی میں قدم رکھا تو وہاں لفٹین سے کپتان کے رینک میں پروموشن پانے کے لئے جو چار پرچے GHQ کی طرف سے بطور نصاب مقرر تھے، ان میں سے ایک ’’جنرل سائنس‘‘ کا پرچہ بھی ہوتا تھا۔ اس طرح ہمیں ’’بدوبدی‘‘ سائنس کی طرف رجوع کرنا پڑا۔ اس وقت معلوم ہوا کہ تمام جدید سلاحِ جنگ جدید ٹیکنالوجی کے مرہونِ منت ہیں۔۔۔اور ٹیکنالوجی کی اصل کیا ہے؟۔۔۔ یہ سائنس کے نظریاتی علوم کو عملی شکل دینے کا نام ہی تو ہے۔
چنانچہ معلوم ہوا کہ سائنس تمام جدید ہتھیاروں کی ’’ماں‘‘ ہے۔ لیکن یہ بھی معلوم ہوا کہ اس ماں کی اولادوں میں ’’جنرل سائنس‘‘ کے بیٹے بیٹیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
اور یہ جنرل سائنس کا مضمون اتنا دلچسپ اور معلومات افزاء ہے کہ اگر پڑھانے اور بتانے والا زبان و بیان کی شیرینی پر قادر ہو تو جنرل سائنس اور زندگی کا عمر بھر کا ساتھ بن جاتا ہے۔
ہماری ایک یونٹ کی طرف سے اس پروموشن امتحان کی تیاریوں کے لئے جو کلاسیں چلائی گئیں ان میں ایک انسٹرکٹر میجرحسرت بھی تھے۔ خدا ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے(چند برس پہلے ان کا انتقال ہو گیا) انہوں نے اپنے آفیسرز سٹوڈنٹس میں جنرل سائنس کا ایسا ذوق پیدا کر دیا کہ میرے جیسے نوآموز کو بھی گویا سائنس اور فلسفہ سے یک گو نہ عشق ہو گیا جس کا بھوت آج اس بڑھاپے میں بھی سر سے نہیں اترا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی نئی ایجاد کی خبر پاتا ہوں تو اس کی تہہ میں اترنے کو دل بے قرار ہو جاتا ہے۔
یہ دو مشاہداتی سیارے جو چین کے ایک لانچنگ سٹیشن سے خلا (Space) میں چھوڑے گئے ہیں، وہ پاکستان ہی میں اسمبل / تیار کئے گئے تھے۔ ان کی تیاری کے ابتدائی مراحل میں سپارکو کی ایک ٹیم چین گئی تھی جہاں اس کے اراکین کو فنی اور سائنسی ٹریننگ دی گئی اور مقامِ شکر ہے کہ اس ٹیم نے ایک ریکارڈ وقت میں پاکستان واپس آکر اس پراجیکٹ کو مکمل کر لیا۔
چین کی مدد سے پرسوں سوموار کے روز خلاء میں بھیجے جانے والے ان دو سیاروں کے نام بالترتیب PRSS-1اور PakTES-1A ہیں۔ اول الذکر سیارے کا تفصیلی نام: ’’پاکستان ریموٹ سیسنگ سیٹلائٹ۔ ون‘‘ ہے اور جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے، ایک تو یہ بہت دوری (Remote)پر سے اشیاء کو ’’سونگھ‘‘ لیتا ہے اور دوسرے اس میں اتنے پاور فل کیمرے نصب ہیں کہ خواہ زمین اور اس سیارے کے درمیان آسمان پر کالی گھٹائیں چھائی ہوئی ہوں تو بھی اس کے سنسرز(Sensors) ایسی تصاویر اتار کر زمین پر بھیج دیتے ہیں کہ جن کی ریزولیوشن ان تصاویر کو محدب عدسے کی طرح انلارج کرکے ایک ایک نقطے کو صاف اور واضح کر دیتی ہے۔
اس سیارے سے پاکستان کو جن شعبوں میں معلوماتی اعدادو شمار اور تفاصیل حاصل ہوں گی ان میں زمینی قطعات کی پیمائش، جنگلات اور زراعت کے شعبوں سے متعلق نئی اطلاعات، شہری اور دیہی علاقوں کی کلاسی فیکیشن اور مختلف تعمیراتی پراجیکٹوں کی منصوبہ بندی، ماحولیات کی مانیٹرنگ، سیلابوں کی آمد کی پیشگی وارننگ، دریاؤں کے پانی کی کمی بیشی کی مقداریں اور ان دریاؤں کے سرچشموں (Sources)کی لوکیشن وغیرہ شامل ہوں گی۔ یہ معلومات ہمیں پاکستان کی آئندہ سماجی اور اقتصادی ڈویلپ منٹ کے پلان بنانے میں مددگار ثابت ہوگی۔
اس سیارے کا وزن 1200کلوگرام ہے اور یہ زمین سے 640کلومیٹر کی بلندی پر مدار میں پرواز کرے گا۔ اس بلندی سے زمین کی پیمائش کے لئے جو تصاویر حاصل ہوں گی ان کوائر اور ڈرون ٹیکنالوجی میں بھی استعمال کرنے میں مدد ملے گی۔
دراصل یہ سیارہ چین نے پاکستان کے ہاتھ فروخت کیا ہے۔ اس کی قیمت 14کروڑ ڈالر بتائی جا رہی ہے جو پاکستان نے ادا کی ہے۔ ایسے ہی 16سیارے بنا کر چین دنیا کے دوسرے ممالک کو فروخت کر چکا ہے۔
دوسرے سیارے کا نام PakTES-1A ہے۔ اس کا وزن 285کلوگرام ہے(جس کا ذکر میں نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی کیا تھا)۔ یہ زمین سے 610کلومیٹر کی بلندی پر پرواز کرے گا۔
اس میں بڑے طاقتور کیمرے نصب ہیں اور پاکستان نے اس کو جنوبی افریقہ کی ایک فرم کے تعاون سے تیار کیا ہے۔ اس کے بعد اس کا اگلا ورشن جو PakTES-1Bکہلائے گا اس وقت تیاری کے مراحل سے گزر رہا ہے۔
مجھے پتہ تھا کہ یہ ’’آسمانی آنکھیں‘‘ ہمارے دشمن کے کرتوتوں پر بھی نظر رکھیں گی لیکن 9جولائی کو NDTV کے ایک پروگرام کو سن کر خوشی ہوئی جس میں یہ خبر ’’بریک‘‘ کی گئی تھی: ’’پاکستان نے یہ دونوں سیارے انڈیاکی جاسوسی کے لئے خلا میں چھوڑے ہیں اور اس میں پاکستان کے دیرینہ دوست چین کی مدد شامل ہے۔
یہ دونوں سیارے چین کے شمال مغربی حصے میں واقع ایک سنٹر سے چھوڑے گئے ہیں جس کا نام جی کوآن (Jiuquan) سیٹلائٹ لانچ سنٹر ہے۔
پاکستان نے اپنا پہلا مواصلاتی سیارہ PAKSAT-1R اگست 2011ء میں چھوڑا تھا۔اب پاکستان کا یہ PRSS-1 سیٹلائٹ نہ صرف یہ کہ چین کے سی پیک CPEC پراجیکٹ کی تدریجی کوریج فراہم کرے گا بلکہ انڈیا کی جاسوسی بھی کرے گا‘‘۔
ان خدا کے بندوں کو کوئی دیکھے کہ وہ خود خلائی ٹیکنالوجی میں پاکستان سے کتنا آگے جارہے ہیں ۔پاکستان نے تو ابھی ابتداکی ہے اوران کو تکلیف ہونے لگی ہے۔
اس وقت انڈیا کے 43 جاسوسی طیارے خلاء میں سرگرداں ہیں جو دن رات پاکستان کے ذرے ذرے کی تصاویر اور خبریں دے رہے ہیں۔ انڈیا نے سرجیکل سٹرائک کا جو ڈرامہ رچایا تھا اس کے بارے میں بھی یہ بتایا گیا تھا کہ یہ حملہ ہم نے اپنے خلائی سیاروں کی طرف سے فراہم کر دہ معلومات کے بل پر کیا تھا۔ انڈیا کا جنوبی ہند کے ساحل پر واقع سری ہاری کوٹانام کا لانچ سنٹر تو لانچنگ مہمات کی ایک تاریخ رکھتا ہے۔ اس لانچنگ سنٹر سے انڈیا نے کئی بیرونی ممالک کے سیٹلائٹ خلاء میں بھیجے ہیں جبکہ پاکستان کے پاس کوئی ایسا لانچنگ سنٹر نہیں،اس لئے چین کے پاس جانا پڑا ہے۔
مستقبل میں پاکستان کو بھی لامحالہ اپنا ایک لانچنگ سنٹر تعمیر کرنا پڑے گا جو شائد بلوچستان کے کسی جنوبی حصے میں قائم کیا جائے یا شائد بحیرۂ عرب کے ساحلوں پر اور مارا کے آس پاس واقع ہو۔
جب یہ سیارے پاکستان کے اوپر خلاء میں اڑتے اور گھومتے ہوئے پاکستان کا زمینی ڈاٹا پاکستان میں قائم کسی سٹیشن کو بھیجیں گے تو کیا انڈین سرزمین ان سے دور رہے گی؟۔۔۔ انڈیا نے اگر برسوں پہلے امریکہ اور اسرائیل کی مدد سے خلائی ٹیکنالوجی کے حصول میں دن رات ایک کر دیئے تھے تو شکر ہے کہ پاکستان کو بھی اب کافی دیر کے بعد جاکر ہوش آیا ہے ۔۔۔۔لیکن آیا تو سہمی!