آپ سچے ہیں،کوئی ٹیکس نہیں لگا؟ یہ سب خواہ مخواہ روتے ہیں؟
ایف بی آر کے چیئرمین کا یہ سوال بڑا ہی معصومانہ ہے کہ ان کو یہ بتایا جائے کہ کون سا نیا ٹیکس لگایا ہے، اس کے ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ مہنگائی تو ڈالر کی قدر بڑھنے کی وجہ سے ہوئی ہے،ان کی اس سادگی پر مر جانے کو جی چاہتا ہے۔یوں بھی اب اس مہنگائی کے باعث خود کشیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ابھی گزشتہ روز ہی چار بچوں کے باپ نے تنگدستی کے ہاتھوں خود ہی اپنی جان لے لی اور بیوی بچوں کو اس دُنیا میں خوار ہونے کے لئے چھوڑ گیا ہے۔
محترم چیئرمین کے اس سوال کے حوالے سے ایک اعلیٰ افسر نے جواباً کہا یہ جو گیس کے نرخ بڑھے اور بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے یہ تو موچی دروازہ کے بابا بَسّا پہلوان نے کیا ہے کہ ان کو سردائی کی ضرورت تھی اور پھر پٹرولیم کے نرخ بھی عوام ہی بڑھارہے ہیں تاکہ ان سے ہر شے کی قیمت مثاثر ہو جائے اور اب تو اور بھی حد ہو گئی، اب بجلی کے نرخ21روپے یونٹ تک ہیں، ان میں اگلے ماہ سے2.5روپے فی یونٹ اضافہ ہو رہا ہے اور اب تو آقا آئی ایم ایف نے ہدایت کر دی ہے کہ ان نرخوں پر ہر تین ماہ کے بعد نظرثانی کی جائے، مطلب یہ ہے کہ ان میں اضافہ کیا جائے۔ اس وقت جو صورت حال ہے اس کے مطابق گھر گھر رونا ہے،صارفین کو بیس ہزار روپے سے ستر ستر ہزار تک کے بل آ گئے ہیں کہ یہ سب وہ سفید پوش لوگ ہیں جو اپنی اور اپنے بچوں کی صحت کے لئے اس شدید گرمی اور حبس کے موسم میں اے سی چلانے پر مجبور ہیں،ان سے نچلے درجہ کے صارفین کولر چلا کر بھی رو رہے ہیں کہ ان کے بجلی والے میٹر جیٹ رفتار ہیں اور ان کو بھی ایسے ہی بل آ رہے ہیں۔
محترم چیئرمین آپ اس سیکٹر سے تشریف لائے ہیں،جس کو آپ خود ٹیکس بچانے کے مشورے دیتے تھے اور آپ کی امارت کا دارو مدار ہی اس ”چوری“ کی تجاویز پر تھا، اب آپ خود اس کو پکڑنے کی دہائی دے رہے ہیں۔یہ بھی کمال ہماری اس پاکستان کی سوسائٹی کا ہے،آپ بھی عام آدمی کے اس طرح ہمدرد ہیں،جیسے یہ حکومت اور اس کے مشیر، عوام کے غم میں دبلے ہو رہے ہیں، لیکن ان کو بازار جا کر سودا خریدنے کی عادت نہیں، اس لئے یہ کیا جانیں کہ بازار میں آلو کس بھاؤ اور پیاز کتنے روپے کلو ملتا ہے اور جہاں تک فروٹ، یعنی پھل کا تعلق ہے تو وہ اب نچلے درمیانہ طبقے کے لئے بھی دوا کی حیثیت اختیار کر گیا کہ ذرا بہتر درجہ کی خوبانی اور آڑو 200روپے فی کلو ہیں، اب یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ بھی عیاشی ہی کے زمرے میں آ رہا ہے اور ایسی عیاشی کے آپ ہی جیسے طبقے والے حضرات متحمل ہو سکتے ہیں، اور یہ سب ان عوام کی پہنچ سے بہت دور ہو چکا، جن کا نام لے لے کر ٹسوے بہاتے ہیں۔ محترم! اب تو ادویات کے بعد زرعی شعبہ کی حالت بھی خراب ہو گئی کہ زرعی ادویات مہنگی ہوئیں، اب کھاد بھی مہنگی کی جا رہی ہے۔ بجلی پانی تو پہلے ہی مہنگا تھا، آپ اپنے کاشتکار اور کسان سے کیا توقعات رکھیں گے۔
ابھی گزشتہ روز ہی ایک محفل میں یہ سب زیر بحث تھا اور پوچھا جا رہا تھا کہ اب کیا ہو گا۔ایک اور سوال تھا کہ حکومت نے حساب لگا کر جتنے قرضے بتائے اور جتنے خود لئے ہیں یہ کیسے واپس ہوں گے اور ایسا کون کرے گا؟ جواب ناممکن، اور پھر کیا ہو گا، کا جواب یہ تھا کہ قرضہ دینے والے اب بالواسطہ ہیں پھر بلاواسطہ قبضہ کر لیں گے۔ آپ اب معنوی غلام ہیں تو پھر حقیقی غلامی میں چلے جائیں گے۔جب بات چلتی ہے تو پھر چلتی چلی جاتی ہے، ایک صاحب کا سوال تھا بچاؤ کے لئے یہ قرضے کیسے اتارے جا سکتے ہیں تو ایک ساتھی نے سنجیدگی سے کہا صرف ایک ہی آسان طریقہ ہے، سب منہ تکنے لگے تو وہ بولے! یہ ملک غریب ہے، مقروض ہے، لیکن اس کے لوگ امیر ہیں، اور ان امیروں کا فرض ہے کہ وہ اس غریب ملک کو کم از کم اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنا دیں اور اس کے لئے ان سب کو تھوڑی قربانی دینا ہو گی، ان حضرات کے پاس کمی نہیں۔ یہ سب اپنی آدھی آدھی دولت ملکی خزانے کو دے دیں، آغاز وزیراعظم خود اپنے گھر اور اپنی حمایت کے لوگوں سے کریں،مجرموں کی جائیدادیں ضبط کر لی جائیں اور ان سب سے قرضہ اتار دیں پھر توجہ کریں اور اپنی چادر کے مطابق پاؤں پھیلائیں۔
اس کی دوسرے حضرات نے بھی تائید کی اور تجویز کیا کہ جن حضرات نے بددیانتی کی اور ملکی خزانے کو لوٹا ان کی تو جائیداد ضبط کر لینا چاہئیں۔ یہ بحث چلتی رہی،مقطع یہ تھا کہ لوگ مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت اور بیماریوں سے اتنے تنگ آ گئے کہ ان کو اب سیاست دانوں کی باہمی چپقلش اور نوک جھونک سے کوئی تعلق نہیں اور یہ لوگ ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز سے بھی بے زار ہو گئے ہیں اور سبھی تنقید کر رہے تھے کہ میڈیا کے پاس بھی عوامی مسائل کی اہمیت نہیں رہی، وہ بھی سیاسی چپقلش، لڑائی اور طنز سے بھرپور پروگراموں سے بے زار ہو چکے اور منتظر ہیں کہ یہ کب حقیقی مسائل پر مرتکز ہوں گے، ہمارے خیال میں اگر حقیقی سروے کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ عوام مجموعی طور پر سیاست دان حضرت سے بے زار ہو چکے اور موجودہ محاذ آرائی کی سیاست کو پسند نہیں کرتے،بلکہ اب تو وہ کسی ایسے لیڈر کی راہ دیکھ رہے ہیں جو حقیقی معنوں میں انقلابی ہو کہ اب تو راہیں مشکل نہیں آسان ہیں، نوجوان بھی تیار ہیں، منصوبہ سازوں کو اس کا بھی پتہ کرا لینا چاہئے۔