گلوبلائزیشن، عالمگیریت اور علیٰ تعلیمی، تدریسی ونصابی ضروریات

گلوبلائزیشن، عالمگیریت اور علیٰ تعلیمی، تدریسی ونصابی ضروریات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


عالمگیریت نے جہاں صارفیت، سائنس، ذرائع ابلاغ اور ٹیکنالوجی کو متاثر کیا ہے وہاں اس نے اردو ادب میں نئے رویوں، نظریوں اور مباحث کومتعارف کرانے کے ساتھ ساتھ مختلف ادبی تحریکات اور نظریات کے حوالے سے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔اُردوزبان و ادب میں بہت تیزی کے ساتھ عالمگیر سطح پر سامنے آنے والی ادبی تھیوریوں میں پیش کیے جانے والے نظریات کی بازگشت سنائی دینے لگی۔ عالمگیریت کی وجہ سے نظریا ت،آئیڈیالوجی، ادب وثقافت، تجارت اور ایجادات یا مصنوعات کسی شخص یا کسی ادارے یا ملک تک محدود نہیں رہیں نہ جغرافیائی حوالے سے نہ نسل وقومیت کے حوالے سے انھیں دوسرے کے لیے ممنوعہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ گلوبلائزیشن نے چیزوں اور نظریوں میں ایک ایسا اشتراک پیدا کیا ہے جو کہ کسی فردِ واحد یا کسی ایک قوم سے مخصوص نہیں سمجھا جاتا بلکہ ہر شے پر عالمی ضرورت کے مطابق سب کے لیے عام سمجھا جاتا ہے۔
گلوبلائزیشن یا عالمگیریت کی اسی اہمیت کے پیش نظر پاکستانی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیمی سطح پر اُردو میں گلوبلائزیشن اور اس کے مختلف سماجی، تہذیبی وثقافتی اور ادبی وتنقیدی رویوں پر اثرات کو نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر گلوبلائزیشن کی مختلف جہتوں کے حوالے سے تدریس کی وجہ سے اردو میں نئے نئے در وا ہوئے ہیں۔اردو میں عالمگیریت کے براہ راست اثرات نو آبادیاتی دور میں سرسید تحریک کے زیر اثر شائع ہونے والے ادب سے سامنے آنے شروع ہوئے۔برصغیر میں انیسویں صدی میں سرسید تحریک کے زیر اثر مغربی اور سائنسی خیالات وتصورات کو اپنانے کا رواج ہوا۔عالمگیریت نے برصغیر میں جہاں سماجی ا ور ثقافتی حوالے سے اپنے اثرات مرتب کیے وہاں عالمگیریت نے زبان وادب کے سانچوں کو بھی متاثر کیا۔
سرسید نے مغربی تعلیم کے حصول کو ضروری گردانا۔وہ قوم کو مغربیت اور جدیدیت کے راستے پہ چلانا چاہتے تھے تاکہ وہ سائنسی، علمی ا ور ادبی واخلاقی حوالے سے ترقی کرسکیں۔اس میں ہم کہاں تک کامیاب رہے یہ سوال ابھی تک جواب طلب ہے۔سرسید کے دور میں نیچرل ازم کی تحریک نے اردو ادب کو متاثر کیا۔ جس کے آثار سرسید،حالی، آزاد، شبلی، ڈپٹی نذیر احمد کے یہاں نظر آتے ہیں۔ انھوں نے ایسے کردار تخلیق کیے جو ہمارے اپنے ماحول اور معاشرت میں جیتے جاگتے مو جود تھے۔
حالی نے اپنی شاعری اور نثر میں وقت کے تقاضوں کے مطابق اصلاح اور مقصدیت کی طرف قدم بڑھایا۔ان دنوں انگریزی تہذیب و تمدن ہندی معاشرت پر براہ راست اثرانداز ہورہی تھی۔انگریزی استبداد کی وجہ سے نہ صرف سیاسی، معاشی اور معاشرتی سطح پر تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں بلکہ تعلیمی نصاب اور آئیڈیالوجی کو بھی انگریزوں نے اپنے انداز میں مسلط کیا۔اردو تنقید، تعلیم اور تدریس وتحقیق میں عالمگیریت کے اثرات کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے یہاں گزشتہ صدیوں میں جو بھی نظریات سامنے آئے ان پر عالمی چھاپ لگی ہوئی ہے۔ ہماری مارکیٹوں میں بدیسی مال کی بھرمار کی طرح بدیسی تھیوریوں نے بھی اپنی چکاچوند سے لکھنے والوں کو متاثر کیا۔ حالی نے تنقید کے میدان میں ورڈز ورتھ اور ملٹن کے خیالات سے استفادے کا راستہ نکالا اور مقدمہ شعروشاعری جیسی تنقیدی دستاویز پیش کی۔
محمد حسین آزاد نے مغربی لالٹینوں سے اعتدال کی حد تک استفادہ کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انجمن پنجاب کے اردو نظم کے مشاعروں میں یورپ کے اثرات کے تحت جدید اردو نظم نگاری کا ڈول ڈالاگیا۔عالمگیریت ہی کی وجہ سے شاعری کے میدان میں آزاد نظم، نظمِ معریٰ اور نثری نظم جیسے تجربات کیے گئے۔ غیر مردف غزلوں کو رواج دیا گیا۔ سانیٹ ِ ہائیکواور نثر میں رپورتاژ کو متعارف کرایا گیا۔معاشروں اور ثقافتوں کو عالم گیریت نے اب اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔پوری دنیا کے ادب ایک دوسرے کیا ثرات سے متاثر ہو رہا ہے۔اسی طرح اردو ادب بھی مختلف اوقات میں دیگر زبانوں کے ادب سے متاثر ہوتا رہا۔
جہاں تک رومانوی اور جمالیاتی تحریک کا تعلق ہے تو اردو میں یہ مغربی اثرات کی وجہ سے سامنے آئی۔ ”بام گارٹن کی مشہور تصنیف استھیٹک میں وہ جمالیات کو حسیاتی علم سے تعبیر کرتا ہے۔ کانٹ پہلا جدید المانی مفکر ہے جس نے تیسری تنقید کے ذریعے جمالیات کو فلسفیانہ نظام میں باقاعدہ جگہ دی۔حسن وجمال سے متعلقہ فیصلے کو وہ کلیتاً ذاتی پسند پر محمول کرتا ہے۔بیسویں صدی میں جمالیات کا نظریہ مؤثر انداز میں کروچے نے پیش کیا تھا۔(۶)
کروچے کا جہاں تک تعلق ہے اس نے اظہاریت کی بات کی، کروچے کے نظریات سے اردو ادب کو محمد علی صدیقی نے روشناس کرایا۔
جمالیات،اظلہار اور لسانیات کا علم“میں وہ جمالیات کو تمثالی یا وجدانی ادراک اور استعداد کا علم رکھتا ہے۔(۷)
اردو میں جمالیاتی، رومانوی، نفسیاتی اور مارکسی اثرات بھی عالمگیریت ہی کا نتیجہ ہیں۔ عالمگیریت کے اثرات سے اردو ادب عالمی سطح پر عمل میں آنے ادبی نظریات سے ہمکنار ہوا۔ادبی سطح پر تحریک چاہے رومانوی ہویا جمالیاتی،فطرت کے حوالے سے ہویا حقیقت نگاری کی،، مارکسی ہوچاہے عمرانی، علامتی تحریک ہو یا رمزیت کی، ارضی ہو یاٖثقافتی، جدیدیت کی تحریک ہو یا جدید تر نظریات کی تحریک، وجودیت کے حوالے سے ہو یاتانیثی حوالے سے، ان سب تحریکوں کے حوالے سے عالمگیریت نے اردو ادب کو متاثر کیا ہے۔ عالمگیریت کے زیر اثر اُردو ادیب عالمی تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے ادب کی تشکیل وارتقا میں مصروف کار ہیں۔
فرانس کی رئیلزم، فطرت نگاری کی تحریک، حقیقت نگاری کی تحریک نے بیسویں صدی میں اردو ادب کو متاثر کیا۔سرسید اور ان کے رفقاء کے بعد علامہ اقبال نے حقیقت نگاری سے کام لیتے ہوئے ادب کو زندگی کی سچائی اور مسائل کو پیش کرنے کا ذریعہ بنایا۔
پریم چند اور عزیز احمد کے ناولوں میں حقیقت پسندی پائی جاتی ہے، میں رونما ہونے والی دادا اِزم کے تحریک جو کہ بعد میں سریلزم میں ضم ہوگئی۔ سریلزم کا اعلان آندرے بریتاں نے کیا۔ جو کہ فرائیڈ کی تحلیل نفسی سے متاثر تھا۔اس کے تحت پابند نظم کی بندشوں سے آزادی کی طرف قدم بڑھایا گیا۔مثالی پیکروں کی مدد سے ایک نئی شعری دنیا وجود میں لانے کی کوشش کی گئی۔ فرائیڈ اور ایذرا پاؤنڈکے بھی ادب پر اثرات گہرے ہیں۔ امیجسٹ تحریک کے حامل ٹی۔ای۔ہیوم کے اثرات اردو شاعری میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
حلقہ ارباب ذوق کا آغاز اپریل ۱۹۳۹ء میں شیرمحمد اخترا ور نصیر احمد جامعی کی کوششوں سے ہوا۔ اکتوبر ۱۹۳۹ء میں میرا جی بھی اس میں شامل ہوگئے جنھوں نے دوسری زبانوں سے تراجم کے ذریعے اردو ادب میں اضافے کیے۔انھوں نے اپنے شعری اسلوب میں علامت اور استعارے کو شاعری میں وسیع معنوں میں استعمال کیا۔یوں یہ تحریک ادبی حوالے سے بڑی فعال تحریک کے طور پر سامنے آئی۔ بودیلیئر کی رزمیت اور فرانس کی علامت نگاری نے بھی اردو ادب کو متاثر کیا۔ وجودیت کی تحریک کے حوالے سے کیئر کیگارڈ (Kierkegaard)، ہائیڈیگر (Heidarger)، ژاں پال سارتر (Jean Paul Sartre)،ڈیکاٹ رینے (Descart Rene)جیسے قلم کاروں کے خیالات سے اردو نے استفادہ کیا۔ امریکہ میں سامنے آنے والی نئی تنقید نے بھی اردو ادب اور ادیبوں پر اپنے اثرات مرتب کیے۔
عالمی ادب ہی سے اردو ادب میں جدیدیت کے اثرات نمودار ہونا شروع ہوئے۔جدیدیت متن کی نئی معنویت کو تلاش کرتی ہے۔جدیدیت کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ صنعتی شہروں اور ان میں رہنے والوں کے مسائل سے بحث کرتی ہے۔ زیادہ تر مغرب کے خیالات ونظریات اپنانے کا سبب عموماً کلچر اور ماحول کی تفہیم نہیں تھا بلکہ صرف اور صرف مغرب کی خوشہ چینی سے کام لیا گیا۔ اس صدی کی چھٹی دہائی کے بعداردو میں ساختیات، پس ساختیات،جدیدیت مابعد جدیدیت جیسے مباحث کو استعمال کیا۔ اسی دوران کئی اہم لکھنے والوں نے لسانی تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے کئی لسانی تجربات کیے۔پاکستان میں مارشل دور میں علامت نگاری کو برتا گیا۔ عالمگیریت ایک ایسے عالم گیر رویے کے طور پر سامنے آئی جو کہ اپنی عمل انگیزی میں کسی ایک تہذیب وثقافت، معاشرت اور مقامیت تک محدود نہیں بلکہ یہ حدوں کو پھلانگ کر آزادانہ نقل وحمل کی جانب مائل ہے۔ عالمگیریت نے جہاں زندگی اور شعبہئ حیات کے دوسرے متعدد پہلوؤں کو اپنا نشانہ بنایا ہے وہاں ادب اور فنونِ لطیفہ بھی اس کی زد سے باہر نہیں ہیں۔ عالمگیریت سے جہاں کئی نئی اور اچھی چیزیں سامنے آئیں وہاں عالمگیریت نے ہم سے ہمارے روایتی کھانے چھین لیے۔ سادگی اور پائیداری پہ کاری ضرب لگائی۔ انیسویں کے آخر میں صدی میں علامت نگاری کی تحریک نے مغرب کے ادیبوں کو متاثر کیا۔فرانس میں اس کا رواج ہوا پھر یورپ میں بھی اس نے مقبولیت حاصل کی۔ارود میں شاعری میں پہلے ہی سے علامت نگاری کے اثرات موجود تھے۔ پاکساتن بننے کے بعد مارشل لا ء دور میں ادیبوں اپنا مؤقف اور دل کی بات علامتوں کے سہارے پیش کی۔ افسانے میں علامت نگاری کی تحریک کو فروغ دینے میں انتظار حسین کا نام اہمیت کاحامل ہے۔اس حوالے سے شخصی، مقامی اور آفاقی علامتوں سے کام لیا گیا۔ بودیلیر، ملارمے، ورلین، ویلری، رمبو، ژرارد نرال (Gcrard de Nerval) اور ایڈگر ایلن پو کے زیر اثر اردو میں علامت نگاری کا رواج ہوا۔ اقبال،فیض اور دیگر شعرا نے علامتوں سے کام لیا۔ تجریدیت کا آغاز یورپ سے ہوا۔مغرب میں علامت نگاری نے تجریدیت کو بھی جنم دیا۔ عالمگیریت کا مقصد ثقافتوں کا ادغام نہیں بلکہ یہ ثقافتوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار کی حامل ہے۔ عالمگیریت ذرائع ابلاغ، بین الاقوامی صنعت وتجارت، سیاست، ثقافت، اشتہار جیسے عناصر کی وجہ سے آگے بڑھی ہے۔ ادیب انھیں ذرائع ابلاغ کی وجہ سے عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات اور محرکات کی وجہ سے عالمی واقعات اور مسائل سے روشناس ہوا۔ عالمگیریت کی وجہ سے ادب کی اہمیت بھی بڑھ گئی ہے۔ پہلے ادب مقامی سطح تک رہتا تھا اب ادب مقامیت سے نکل کر عالمگیریت کی حدوں کو چھورہا ہے۔مگر عالمگیریت کا جو منفی پہلو ہے وہ یہ کہ عالمگیریت کی آڑ میں بعض طاقتیں تجارت، دولت اور طاقت کے زور پرایسی حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہیں جو کہ عام انسانوں اورخاص طور پر تیسری دنیا کے انسانوں کے لیے مہلک ہیں۔
بظاہر تو یہ امکان نظر میں رکھاجاتا ہے کہ عالمگیریت کی وجہ سے پسماندگی اور غربت میں کمی ہوسکتی ہے مگر یہ صرف امکان ہے، کیونکہ عالمگیریت چھوٹی صنعتوں، مقامی تاجروں اور خوانچہ فروشوں کے لیے زہر قاتل اک درجہ رکھتی ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ عالمگیریت ایک ایسی پراڈکٹ ہے جس کا لیبل اس کے برانڈ سے مطابقت نہیں رکھتا۔بلاشبہ نائن الیون کے بعد گلوبل وار اور دہشت گردی کے حوالے سے جنگ اور ملٹری آپریشن کی گلوبلائزیشن نے خصوصی توجہ حاصل کی۔ ہمارے ادب میں عدم تحفظ اور انسانی وجود کی بقا کے حوالے سے مختلف نظریے سامنے نظر آنے لگے۔ عالمگیریت کی وجہ سے سماجی رابطے کی ویب گاہیں منظر عام پر آگئیں۔ملٹی میڈیا سائنس کی ترقی،فیس بک، ٹویٹر، یو ٹیوب،صوتی ڈیجیٹل کتابوں کی فراہمی،آن لائن لائبریریوں کے استفادے کو رواج ملا۔جو لوگ پہلے نایاب کتب اور دوردراز واقع لابیریوں میں موجود تک رسائی نہیں رکھتے تھے، اب یہ کتابیں ان کے لیپ ٹاپ اور موبائل میں سما گئیں۔ پاکستانی رسائل وجرائد اور کتابوں میں ایک طویل عرصہ سے جدیدیت و مابعد جدیدیت، نئی تاریخیت، ساختیات وپس ساختیات، بین المتونیت، مارکسیت ونوو مارکسیت، رد تشکیل، لسانایت واسلوبیات، تانیثیت جیسے موضوعات پر اردو میں مسلسل لکھا جارہا ہے۔
٭٭٭

مزید :

ایڈیشن 1 -