نسل پر ستی اور ریڈ انڈینز

نسل پر ستی اور ریڈ انڈینز
نسل پر ستی اور ریڈ انڈینز

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مئی میں امریکی پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام شخص جارج فلائیڈکی ہلاکت کے بعد امریکہ اور یورپ میں نسل پرستی کے خلاف بھرپور احتجاج، جلسے، جلوس اور مظاہرے کیے گئے۔ امریکہ اور یورپ میں ہونے والے مظاہروں میں ایسی تاریخی شخصیات کے مجسموں کو بھی تباہ کیا جانے لگا کہ جن کے بارے میں تاریخ یہ بتا تی ہے کہ ایسی شخصیات نے ماضی میں نسل پر ستی اور غلامی کو بھی فروغ دیا۔جیسے امریکہ میں کرسٹو فرکولمبس کے مجسموں کو خاص طور پر نشانہ بنا یا جا رہاہے۔یہ کرسٹو فر کولمبس ہی تھا کہ جس نے1492میں امریکہ کو دریافت کیا اور وہاں پر صدیوں سے آباد مقا می قبائل پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ امریکہ کے ان مقامی با شندوں کو ”ریڈ انڈین“ کہا گیا۔تا ریخ کو اپنے سیا سی اور سا مراجی مقاصد کے لئے استعما ل کرنا حکمران طبقات اور سامراج کا صدیوں پرانا وطیرہ رہا ہے۔تا ریخی حقائق کو اپنی نا جائز حکمرانی اور دھونس کو برقرار رکھنے کیلئے ہمیشہ توڑ مروڑ کر پیش کیا جا تا رہا۔تاہم اس اعتبا ر سے خوش آئند با ت یہ رہی کہ ہر دور یا عہد میں معا شروں میں ایسے مورخین، ادیب، مفکر اور دانشور بھی موجود رہے کہ جنہوں نے تاریخ کے حوالے سے حکمران طبقات کے موقف کو چیلنج کیا اور تصویر کا اصل رخ دنیا کے سامنے لے کر آئے۔

سیا ہ فا م افریقیوں کی طرح ریڈ انڈینز کا مسئلہ بھی ایسا ہے کہ جس کو امریکی حکمران طبقات نے کبھی بھی حقائق کی روشنی میں دنیا کے سامنے نہیں آنے دیا۔اور ریڈ انڈینز جو دراصل امریکہ کے اصل یا حقیقی با شندے تھے ان کے بارے میں بہت کم حقائق سامنے آ ئے۔ مگر امریکی مورخ ریکسونا ڈنبر ارٹزبھی اپنی کتاب An Indigenous Peoples’History of the United States میں ریڈ انڈینز کے حوالے سے صحیح معنوں میں حقا ئق دنیا کے سامنے لے کر آئے ہیں۔اس کتا ب میں ریکسونا ڈنبر ارٹزنے امریکی اشرافیہ یا حکمران طبقات کی جانب سے ریڈ انڈینز کے حوالے سے بنا ئے گئے بیانیہ کو حقا ئق کی روشنی میں مکمل طور مسترد کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ 15ویں صدی کے بعد یورپ سے امریکہ آنے والے سفید فا م افراد نے امریکی وسائل، زمینوں اور زرعی علاقوں پر قابض ہو نے کیلئے ریڈ انڈینز کے خلا ف سامراجی پا لیسی کو اپنا یا۔لاکھوں کی تعداد میں ریڈ انڈینز کو شکار کر کے ہلاک کیا گیا یا ان کی خوارک اور پانی روک کر ان کو ہلا ک کیا جاتا رہا۔۔ ان کو اور امریکی جنگلی جا نوروں کو ہلاک کرنے کے لئے سفید فام افراد نے ایک سے ہی ظالمانہ اور جا برانہ طر یقے استعمال کئے۔ریکسونا ڈنبر ارٹز کاتعلق ا مریکی ریاست اوکلوہاماسے ہے جہا ں وہ ایک بے زمین سفید فام کاشتکار کے گھر پیدا ہوئیں۔ جبکہ ان کی والدہ کا تعلق ریڈ انڈین گھرانے سے ہی ہے۔ امریکی تا ریخ کے ما ہرین کے مطا بق An Indigenous Peoples’History of the United Statesپہلی ایسی کتا ب ہے کہ جس میں ریڈ انڈینز کے حوالے سے ایسے حقا ئق دنیا کے سامنے لا ئے گئے کہ جو اب تک پو شیدہ تھے اور سب سے بڑ ھ کر یہ کتاب ایک ایسی مورخ دنیا کے سامنے لا ئی کہ جس کی اپنی ماں ریڈ انڈین ہے۔ریکسونا نے اپنی کتا ب کے آغا ز میں امریکی مورخ جوڈی بائرڈکایہ اہم جملہ پیش کیا ہے کہ امریکہ کے ایک بڑی طاقت یا سامراجی ملک بننے میں ان معاشی، معدنی، اور زمینی وسائل کا بہت بڑ ا حصہ ہے کہ جو اس نے ریڈ انڈینز یا مقامی امریکی با شندوں کے استحصال سے حا صل کئے۔

اس کتاب کے مطابق امریکہ میں پانچ سو سے زائد ریڈ انڈین اقوام کی صورت میں تیس لاکھ سے زیادہ ر یڈ انڈینز مو جود ہیں۔ جن کا نسلی تعلق ان ڈیڑھ کروڑ ریڈ انڈینز سے ہے جو ایک زمانے میں امریکی سر زمین پر آبا د تھے۔کتاب کے مطا بق ریڈ انڈینز کو نسلی اعتبا ر سے ختم کرنے کی امریکی پا لیسی میں اس وقت تیزی آئی جب 1829میں اینڈریو جیکسن امریکہ کے صدر بنے۔اس وقت کے ایک امریکی جنرل تھامس ایس جیسپ نے امریکی حکومت کو ریڈ انڈینز سے نبٹنے کیلئے یہ مشورہ دیا کہ ریڈ انڈینز سے نجات حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ان کی نسلوں کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا جا ئے۔حتیٰ کہ 1873میں امریکی سپریم کورٹ نے بھی ریڈ انڈینز کی نسل کشی کو یہ کہہ کر جا ئز قرار دے دیا کہ ریڈ انڈینز کو ہلا ک کرنا غیر قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا۔1873کے اسی فیصلے کو بعد ازاں 2003میں بطور ایک نظیر کے پیش کر تے ہوئے گوا نتانا موبے میں قیدیوں کے ساتھ روا رکھے جا نے والے انتہا ئی نا روا سلوک کو بھی یہ کہہ کر جا ئز قرار دیا گیا کہ گوا نتانا موبے میں قید افراد پر جینوا کنونشن سمیت انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی قانون لا گو نہیں ہوتا۔ اس کتاب میں ریکسونا کا یہ دعویٰ بھی حقا ئق کے عین مطابق ہے کہ امر یکی سامراجی پا لیسی ریڈ انڈینز کے وسا ئل کی لوٹ مار اور نسل کشی کے بعد دنیا کے دیگر حصوں کے وسائل کی لوٹ ما ر کی جانب گا مزن ہو گئی۔

اس دعویٰ کے مطابق امریکی خارجہ پا لیسی میں جنگجو ازم پہلی یا دوسری جنگ عظیم کے بعد نہیں آیا بلکہ یہ اسی پالیسی کا ہی تسلسل تھا جو امریکہ نے ریڈ انڈینز کے خاتمے یا ان کو اپنا مطیع بنانے کیلئے اپنا ئی تھی۔ریکسونا کے دعویٰ کے مطابق دو سری جنگ عظیم کے بعد کوریا، کمبوڈیا، فلپا ئن، ویت نام اور حال ہی میں افغا نستان اور مشرق وسطیٰ کے علا قوں میں امریکی جنگوں کے پیچھے وہی ذہنیت کا ر فرما ہے کہ جیسی ذہنیت ریڈ انڈینز کے خلا ف کا ر فرما تھی یہ تا ثر بھی غلط ہے کہ امریکی خارجہ پا لیسی میں جنگجوازم،9/11 کے بعد آیا۔ حقیقت یہ ہے کہ 9/11سے بہت پہلے یعنی 1980کی دہا ئی میں بھی دنیا کے 170ممالک (اس کتاب کے مطا بق)میں امریکہ کے فوجی اڈے کسی نہ کسی صورت میں موجود تھے۔ریڈ انڈینز کے حوالے سے اس سے پہلے بھی بہت سی کتا بیں منظر عام پر آتی رہی ہیں مگر ریکسونا کی اس کتابAn Indigenous Peoples’History of the United Statesکو دنیا میں اسلئے زیا دہ پذ یرا ئی مل رہی ہے کہ اس کتا ب میں پہلی مر تبہ ریڈ انڈینز کے حوالے سے غیر جا نبدارانہ طور پر ایسی تا ریخ سامنے آئی ہے کہ جس میں صرف حقا ئق کا ہی سہارا لیا گیا ہے۔یقینا جس طرح ایلکس ہیلے نے 1976میں Roots نا ول لکھ کر ایک امریکی سیا ہ فام ہونے کا حق ادا کیا۔ اسی طرح An Indigenous Peoples’History of the United Statesلکھ کر ریکسونا نے ایک ریڈ انڈین ماں کی بیٹی ہونے کا حق ادا کیا کہ جس کی نسل سے صدیوں تک جنگی جا نوروں سے بھی بد تر سلوک کیا جا تا رہا اور ڈیڑھ کروڑ افراد پر مشتمل ریڈ انڈینز کو آج نسل کشی کے با عث صرف تیس لا کھ تک محدود کردیا گیا۔


حکمران طبقات کی جا نب سے تا ریخ کو اپنے سیا سی مقا صد کیلئے استعمال کرنے کی روایت مشرق و مغرب سمیت دنیا بھر میں ہر جگہ موجود ہے۔ہما رے ملک پا کستان میں بھی 1947سے لے کر اب تک تا ریخ کو حکمران طبقا ت نے اپنے مقا صد کیلئے انتہا ئی توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ اور بد قسمتی سے ہما رے ہا ں ایسے مورخین کی تعداد بہت کم ہے کہ جنہوں نے تا ریخ کے حوالے سے حکمران طبقات کے بیانیہ کو علمی حقائق کی روشنی کی بنا پر چیلنج کیا ہو۔

مزید :

رائے -کالم -