سول سیکرٹریٹ، وسیب کو ایک دوسرے سے لڑایا جارہا ہے،ظہور دھریجہ

سول سیکرٹریٹ، وسیب کو ایک دوسرے سے لڑایا جارہا ہے،ظہور دھریجہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ملتان (سٹی رپورٹر)سول سیکرٹریٹ کے نام پر وسیب کو ایک دوسرے سے لڑایا جا رہا ہے، ملتان میں صوبائی سیکرٹریٹ کیلئے فنڈز مختص کئے جائیں۔ سیکرٹریٹ نہیں صوبہ چاہئے۔ ان خیالات کا اظہار سرائیکستان قومی کونسل کے صدر ظہور دھریجہ نے معروف ریسرچ اسکالر و سجادہ نشین دربار عالیہ شاہ آباد شریف سید فاروق القادری کی وفات پر ان کے صاحبزادوں سید علی رضااور سید فصیح الدین سہروردی سے تعزیت کے بعد وسیب کی صورتحال پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کیا۔ انہوں (بقیہ نمبر20صفحہ6پر)
نے کہا کہ پورے شہر بہاولپور میں سول سیکرٹریٹ مبارکبادی کے پینا فلیکس لگے ہوئے ہیں، ملتان میں کچھ پینا فلیکس مخدوم شاہ محمود سمیت وزراء اور اراکین اسمبلی کی مذمت میں ہیں اور کچھ پینا فلیکس میں مخدوم شاہ محمود قریشی کو مبارکباد دی گئی ہے کہ انہوں نے ملتان میں سول سیکرٹریٹ قائم کرا دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سول سیکرٹریٹ ملتان نہیں بہاولپور قائم ہوا ہے اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کے اہلکار بہاولپور کے آس پاس چکوک میں جگہ تلاش کر رہے ہیں، جہاں عمارتوں کے نام پر طارق بشیر چیمہ کی اجارہ داری قائم ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت طارق بشیر چیمہ غیر اعلانیہ طور پر سول سیکرٹریٹ کے نام پر وزیراعلیٰ بنا ہوا ہے اور چولستان کی مقامی آبادی پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں گزشتہ روز طارق بشیر چیمہ کے غنڈوں نے چک 24 بستی سمیجہ تحصیل یزمان میں گھروں میں داخل ہوکر مقامی آبادی پر بد ترین تشدد کیا اور خواتین کو مار مار کر لہو لہان کر دیا۔ پولیس کاروائی سے گریزاں ہے۔ ظہور دھریجہ نے کہا کہ کیا یہی انصاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ سول سیکرٹریٹ کے نام پر وسیب کے لوگوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کی سازش بند کی جائے، بلا تاخیر صوبہ سرائیکستان کا قیام عمل میں لایا جائے، طارق بشیر چیمہ جیسے لوگ وسیب میں لسانی تضادات کی فضا پیدا کر رہے ہیں، ہم ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ اس کے مہلک اثرات مرتب ہونگے، حکومت قومی و صوبائی اسمبلی کی چند سیٹوں کی خاطر چوہدری شجاعت و چوہدری پرویز الٰہی سے بلیک میل ہو رہی ہے۔ مگر سرائیکی وسیب سے دو سو سے زائد اراکین اسمبلی کو کوئی پوچھتا نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ گونگے اور بہرے بنے ہوئے ہیں، اسمبلی میں بات نہیں کرتے۔ ان کو اپنے وسیب کے لوگوں پر ہونے والے ظلم کا احساس نہیں، نہ ہی ان کو اپنے وسیب سے محبت ہے۔ اب وقت ہے کہ نوجوان ایسے لوگوں کو پہچانیں اور ان کو مسترد کر دیں اور اپنے صوبے کا پرچم سر بلند کریں۔
ظہور دھریجہ