اینکر پرسن اقرار الحسن اثاثے ظاہرکرنے والے پہلے صحافی بن گئے، کیا کچھ کمایا ہے؟ تفصیلات سامنے آگئیں
کراچی (ڈیلی پاکستان آن لائن) اینکر پرسن اقرار الحسن نے اپنے اثاثے عوام کے سامنے پیش کردیے، وہ یہ کام کرنے والے پاکستان کے پہلے صحافی بن گئے ہیں۔
ایک ویڈیو پیغام میں اینکر پرسن اقرار الحسن نے کہا کہ وہ رضاکارانہ طور پر اپنے تمام اثاثوں کی تفصیلات بتا رہے ہیں کیونکہ جب بھی آپ ان لوگوں سے سوال کرتے ہیں جو آپ کے ٹیکس کے پیسوں پر اپنی ضروریات پوری کر رہے ہیں ، تو وہ آپ کے اوپر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ وہ ٹیم سرعام کے رضا کاروں کو جواب دینے کیلئے یہ ویڈیو تیار کر رہے ہیں۔
انہوں نے کراچی میں بنائے گئے ریسٹورنٹ سے علیحدگی کا بھی اعلان کردیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ فوری طور پر علیحدگی اختیار نہیں کریں گے کیونکہ اس سے 150 لوگوں کا روزگار وابستہ ہے، ان کی تنخواہیں ادا کرنی ہیں اس لیے جس دن ریسٹورنٹ کھل جائے گا اس دن اپنے شیئرز سے دستبردار ہوجاؤں گا اور حکومت کے پاس دستاویزات جمع کرادوں گا اور کہہ دوں گا کہ میرے حصے کو غریبوں پر خرچ کیا جائے۔لاک ڈاؤن کے دوران اس ریسٹورنٹ سے کسی بھی کارکن کو نوکری سے فارغ نہیں کیا گیا بلکہ کم تنخواہ والے ورکرز کو راشن بھی فراہم کیا گیا۔
اینکر پرسن کے مطابق دبئی میں 2005 میں ان کی پہلی تنخواہ ساڑھے 9 ہزار درہم تھی جو پاکستانی روپوں میں ساڑھے 4 لاکھ روپے بنتے ہیں۔ پچھلے تین سال میں انہوں نے ساڑھے 4 کروڑ روپے کا انکم ٹیکس ادا کیا لیکن آج بھی کرائے کے گھر میں رہتے ہیں۔ ان کے پورے خاندان کے پاس ایک پلاٹ اور دو گاڑیاں ہیں۔ ایک 2013 میں بینک سے لیز پر لی، دوسری 2012 ماڈل کی کار ہے ۔
اقرار الحسن کا کہنا تھا کہ انہوں نے پچھلے پانچ سال میں سات کروڑ روپے کے قریب ٹیکس ادا کیا۔ ایف بی آرکی ویب سائٹ پر ارکانِ قومی وصوبائی اسمبلی کے ٹیکس کی آخری لسٹ 2017 کی ہے۔ اس سال انہوں نے ایک کروڑ 44 لاکھ اِنکم ٹیکس دیا یہ ٹیکس موجودہ اور سابق وزرائے اعظم، وزرائے اعلٰی سمیت 99 فیصد ارکانِ اسمبلی سے زیادہ ہے۔ 90 فیصد ارکان کا سالانہ ٹیکس میرے ماہانہ ٹیکس سے کم ہے۔ لیکن مجھ میں آج بھی اپنا گھر خریدنےکی استعداد نہیں کیونکہ میں نے پہلے دن سےاپنی آمدنی کا نصف مخلوقِ خدا کے لئے وقف کر رکھا ہے۔
اینکر پرسن کے مطابق ہم سب چائے کی پتی، صابن کی ٹکیہ، پانی، بجلی ہر چیز پر اِنکم ٹیکس کے علاوہ بھی ٹیکس ادا کرتے ہیں جن سے حکومتیں چلتی ہیں۔ اب رسم چلی ہے کہ آپ ان حکومتوں یا پچھلی حکومتوں کے ذمے داروں سے سوال بھی نہیں کر سکتے۔ آپس میں الجھنے کی بجائے اپنے ٹیکس سے مستفید ہونے والوں سے سوال کیجئے ۔