افغانستان، طالبان اور پاکستان:بنیادی مسائل(3)
یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ افغانستان سے جب بیرونی افواج کا انخلا ہو جائے گا تو ترکی،کابل ایئرپورٹ کی سیکیورٹی کا ذمہ لینے کے لئے تیار ہے، مگر حالیہ دنوں میں طالبان نے ترکی کو یہ ذمہ داری سونپنے کا امکان مسترد کر دیا ہے کہ وہ ’نیٹو‘ کا رْکن ہے۔ آنے والے دنوں میں خاص طور پر کابل ایئرپورٹ اہم کردار ادا کرے گا۔ اگر طالبان جلد ہی کابل ایئرپورٹ پر قبضہ کرلیتے ہیں تو افغانستان میں رسد کی فراہمی اور دیگر چیزوں کی آمدورفت حکومت کے لئے سخت مشکلات کا باعث بن جائے گی۔ یوں سمجھئے کہ اگر کابل ایئرپورٹ چلا گیا تو سب کچھ چلا گیا۔
دوسری طرف یہ بات بھی زیربحث ہے کہ کیا افغانستان سے امریکہ کے نکلنے کے بعد چین کوئی بڑا کردار ادا کرنا چاہئے گا یا نہیں؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکہ بالکل نہیں چاہے گا کہ چین، افغانستان میں کوئی بڑا کردار ادا کرے۔اس خطے میں افغانستان معدنی وسائل سے مالا مال (Resource Rich) ملک ہے اور تزویراتی طور پر امریکہ کے لئے بھی بہت اہم ہے۔ اس لئے امریکہ، افغانستان کو بالکل چھوڑ کر جانے والا کیسے بنے گا؟ مگر مستقبل کے افغانستان سے اس کے ربط کی کیا صورت ہوگی؟ ابھی واضح نہیں ہے۔
پھر یہ بات بھی سننے میں آرہی ہے کہ پاکستان امریکہ کو فوجی اڈے دے رہا ہے یا نہیں دے رہا؟ ایک حوالے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید ہم نے کچھ شرائط رکھی ہیں کہ ”جو سہولیات دے رہے ہیں وہ طالبان کے خلاف استعمال نہیں ہوں گی، البتہ داعش اور القاعدہ کے خلاف استعمال ہوسکتی ہیں“۔ اس قسم کی شرائط کی فی الحقیقت کوئی حیثیت اور ان کا کوئی تقدس نہیں ہوا کرتا، کیونکہ جب آپریشن ہوتے ہیں تو کوئی بھی یہ فرق نہیں کرسکتا کہ یہ سہولتیں کس کے خلاف استعمال ہو رہی ہیں،لیکن وزیراعظم عمران خان واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان امریکہ کو اڈے نہیں دے گا، اِس لئے اس معاملے پر مزید بحث نہیں ہونی چاہئے۔
امن مذاکرات کا مستقبل
گذشتہ دِنوں اسلام آباد میں افغانستان پر ایک دو روزہ کانفرنس ’ریجنل پیس انسٹی ٹیوٹ‘ کے تحت منعقد ہوئی۔ اس ادارے کے بانی رؤف حسن ہیں، جو وزیراعظم کے معاون خصوصی بھی ہیں۔ اس کانفرنس میں پاکستانی وفود، افغان وفود اور وہ افغان نمائندے جو دوحہ میں مذاکرات کے لئے گئے تھے، وڈیو لنک کے ذریعے شریک تھے۔ اس کانفرنس کا موضوع تھا:
Stepping into the Future Peace Partnership Progress
یہ کانفرنس ’چیٹن ہاؤس رْول‘ کی بنیاد پر منعقد ہوئی تھی۔ چیٹن ہاؤس لندن میں ایک تھنک ٹینک ہے۔ اس کے طے کردہ اصول کے تحت ہونے والی کانفرنس میں کسی حساس موضوع پر کھل کر بات چیت ہوسکتی ہے، مگر اسے رپورٹ نہیں کیا جاسکتا کہ کس نے کیا کہا ہے؟ اس کانفرنس میں مَیں بھی شریک تھا اور ہمارے وزیرخارجہ نے اس کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب بھی فرمایا۔ کانفرنس کے چار ورکنگ سیشن تھے۔ تمام سیشن ہی اہم تھے، خاص طور پر پہلا سیشن بہت اہم تھا، جس میں افغان مسئلے کے امکانات کا جائزہ لیا گیا۔ سب کا یہی خیال تھا کہ ”مذاکرات کو کامیاب ہونا چاہئے۔ اگر دوحہ میں مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں تو اس بات کا امکان ہے کہ افغانستان دوبارہ خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے“۔
کچھ افغان وفود کا خیال تھا کہ ”ایک عبوری نظام بننا چاہئے۔ وہ غیرسیاسی ہونا چاہئے اور اس میں غیر جانب دار لوگ شامل ہونے چاہئیں۔یہ عبوری نظام دو، تین یا چار سال کے لئے ہو اور پھر انتخابات ہوں اور طے کیا جائے کہ آیندہ معاملات کیسے چلنے ہیں؟“
میں نے وہاں یہ موقف پیش کیا کہ ”طالبان کو کسی عبوری حکومت کا حصہ بننے میں کیا فائدہ ہے؟“ میرا آج تک یہی موقف ہے کہ جب تک اشرف غنی صاحب اقتدار نہیں چھوڑتے، طالبان کسی ایسی عبوری حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے،مگر اس ساری صورتِ حال کے باوجود مجھے محسوس ہوتا ہے کہ طالبان کی امریکہ کے ساتھ کچھ معاملہ فہمی (انڈراسٹینڈنگ) ہوگئی ہے۔طالبان کے انکار کے باوجود ترکی کا یہ کہنا کہ وہ کابل ایئرپورٹ کی حفاظت کا ذمہ لیتا ہے، معنی خیز ہے۔ ابھی امریکہ کو کابل ایئرپورٹ کی ضرورت ہے، تاکہ وہاں سے احسن طریقے سے انخلا مکمل ہوجائے۔
افغان وفود کا یہ کہنا کہ ”پاکستان کو اس مسئلے میں بھرپور دباؤ رکھنا چاہئے“۔ وہ اس پر بار بار زور دے رہے تھے کہ ”یہ پاکستان کی اہم ذمہ داری ہے“۔ یہ عجیب سی بات ہے کہ طالبان پر پاکستان کا کوئی دباؤ ہو سکتا ہے۔ طالبان کی اپنی ایک حکمت عملی ہے اور وہ اس پر کام کر رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ یہاں سے بیرونی فوجوں کا انخلا ہوجاتا ہے تو پھر طالبان کے لئے راستہ صاف ہے۔ کانفرنس کے شرکا میں سب کا یہی خیال تھا اور دبے دبے لفظوں میں سبھی کہہ رہے تھے کہ ”وقت بہت کم ہے۔ اگر کہیں محدود وقت میں مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو افغانستان کے لئے بہت سی مشکلات پیدا ہوجائیں گی“۔ ایک لحاظ سے یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے۔(جاری ہے)