بارشیں اور سیلابی صورتحال
بھارت نے دریائے راوی میں ایک لاکھ 85 ہزار کیوسک پانی چھوڑ دیا ہے جس کے باعث سیلاب کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔انڈس واٹر کمیشن کے مطابق بھارت نے پانی ”اُجھ“ بیراج کے مقام سے چھوڑا ہے۔ پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) پنجاب نے سیلابی صورتحال سے متعلق الرٹ جاری کر دیا ہے جس کے مطابق ”جسٹر“ کے مقام پر کم نوعیت کے سیلاب کی توقع کی جا رہی ہے۔ الرٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ انتظامیہ 20جولائی تک حساس علاقوں ”مرالہ ہیڈ ورکس“ اور ”جسٹر“ کی مانیٹرنگ جاری رکھے جبکہ متعلقہ ادارے کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نبٹنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق ڈی جی خان ڈویژن کے پہاڑی علاقوں سے منسلک ندی نالوں میں بھی طغیانی کا خدشہ ہے۔نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے بھی خبردار کیا ہے کہ لاہور، سیالکوٹ اور نارووال میں تیز بارش کی وجہ سے دریائے چناب،راوی،ستلج اور اِن سے منسلک نالوں میں طغیانی کا خدشہ ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق شکر گڑھ کے سرحدی گاؤں ”جلالہ“ میں سیلابی پانی داخل ہونے سے خواتین اور بچوں سمیت 86 افراد مختلف علاقوں میں پھنس گئے جنہیں ریسکیو کرکے بحفاظت محفوظ مقامات پر پہنچا دیا گیا جبکہ نارووال کے نالہ ”اوج“ میں طغیانی آنے سے پانی میں پھنس جانے والے 36افراد کو بھی ریسکیو کر لیا گیا ہے۔ فیڈرل فلڈ کمیشن آئندہ ہفتے دریاؤں میں سیلاب کی وارننگ جاری کر چکا ہے جبکہ دریاؤں کے کنارے آباد لوگوں کو فوری نقل مکانی کی ہدایت بھی جاری کی جا چکی ہے۔ بھارت نے گزشتہ سال بھی دریاؤں میں اچانک پانی چھوڑ دیا تھا جس کے باعث پنجاب میں سیلابی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی نے ممکنہ سیلاب کے پیشِ نظر دریائے راوی کا دورہ کیا اور پانی کی صورتحال کا جائزہ لیا۔ اُنہوں نے متعلقہ محکموں اور اداروں کو پانی کے بہاؤ کو 24گھنٹے مانیٹر کرنے اورانسانی جانوں کے تحفظ کے لئے دریا کے کنارے آبادیوں کے انخلاء کا حکم دے دیا ہے۔
بارشوں نے پنجاب میں پہلے ہی ہنگامی صورتِ حال پیدا کررکھی ہے۔ مختلف شہروں میں سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کر رہی ہیں جبکہ نشیبی علاقوں میں پانی گھروں میں داخل ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔ لاہور میں چند روز قبل 24گھنٹوں میں 291ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی جبکہ محکمہ موسمیات نے مزید موسلا دھار بارشوں کی پیش گوئی کر رکھی ہے۔ بھارت کی طرف سے پانی چھوڑنے اور مزید بارشوں کی پیش گوئی کے پیشِ نظر آنے والے دنوں میں دریاؤں کے کنارے آباد شہریوں کے لئے سخت امتحان شروع ہوتا نظر آ رہا ہے۔ متعلقہ محکمے اپنی تیاریوں میں مصروف ہیں اور نقصانات کو کم سے کم کرنے کے علاوہ شہریوں کو ریلیف پہنچانے کی پیش بندی بھی کی جا رہی ہے جبکہ انتظامیہ پوری طرح مستعد ہے تاہم اِس کے باوجود جانی اور مالی نقصانات کا اندیشہ پھر بھی موجود رہے گا۔
پاکستان میں اِس طرح کی صورت حال پہلی بار دیکھنے میں نہیں آ رہی، گزشتہ سال بھی سیلاب اور ندی نالوں میں طغیانی نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی تھی،ملک بھر کے انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا تھا۔ یہ سیلاب عمارتوں، شاہراہوں اور گھروں کا نقصان کرنے کے ساتھ لگ بھگ دو ہزار کے قریب زندگیاں بھی نِگل گیا تھا جبکہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو 32ارب ڈالر سے زائد کا نقصان بھی برداشت کرنا پڑا، کھڑی فصلیں تباہ ہونے کے سبب غذائی قلت اور مہنگی خوراک کا بھی سامنا رہا۔ پاکستان کی کوششوں کے بعد دنیا نے موسمیاتی تغیر کے شکار پاکستان کی مشکلات کو تسلیم کر لیا اور جنیوا میں انٹرنیشنل ڈونرز کانفرنس میں 40 سے زائد ممالک نے پاکستان کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے امداد کا اعلان بھی کیا۔
پاکستان گلوبل وارمنگ کے سبب موسمیاتی تغیر کا سب سے زیادہ شکار ہونے والے 10ممالک میں شامل ہے اور گزشتہ سیلاب کے نقصانات کا تاحال ازالہ نہیں کر سکا۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو رواں مالی سال کے بجٹ میں سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے رقم مختص نہ کئے جانے پر اپنے اتحادیوں سے ناراض بھی ہو گئے تھے تاہم اُن کے احتجاج پر حکومت نے کچھ رقم مختص تو کر دی لیکن جب تک بین الاقوامی ڈونرز سے یہ رقم پاکستان کو مل نہیں جاتی تب تک مالی طور پر سیلاب متاثرین کے لئے کچھ کرنا موجودہ ملکی معاشی حالات میں انتہائی مشکل نظر آتا ہے۔ ماہرین ایک عرصے سے شور مچا رہے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کے سبب گلیشیئر پگھلیں گے جس سے سیلاب کا خطرہ ہر سال ہی رہے گا جبکہ بارشوں کی شدت سے ندی نالوں میں طغیانی کے باعث انسانی زندگیوں، فصلوں اور شاہراہوں کی تباہی کا اندیشہ بھی ہے لیکن تمام تر وارننگز کے باوجود ابھی تک اِن سے نبٹنے کی طویل مدتی منصوبہ بندی کہیں نظر نہیں آتی۔ دریاؤں میں سیلاب کی ایک بڑی وجہ پانی کے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں تیزی سے کمی آنا بھی ہے، دریاؤں کے کنارے سکڑتے جا رہے ہیں کیونکہ یہاں بڑی تعداد میں غیر قانونی آباد کار اپنے گھر تعمیر کر چکے ہیں جبکہ آبی گزر گاہوں کا جو حصہ بچ گیا ہے اُس کی صفائی بھی نہیں کرائی جاتی۔ ہم اپنا سارا وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور سیاست میں زور آزمائی پر صرف کرتے ہیں۔ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت پانی کی اہمیت کے پیش نظرپانچ ہزار سے زائد ڈیمز بنا چکا ہے جن میں سے پانچ سو ڈیم دریاؤں پر تعمیر کئے گئے ہیں تاکہ پانی کا ذخیرہ کیا جا سکے۔ کشن گنگا پر بنائے جانے والے ڈیم پر ہمارے اعتراضات اپنی جگہ تاہم ہمیں بھارتی ڈیموں کا مقابلہ اپنے ڈیم تعمیر کرکے کرنا چاہیے۔ کالا باغ ڈیم آج تک صرف اِس لئے تعمیر نہیں کیا جا سکتا کہ اِس میں سیاسی مصلحتیں حائل ہیں۔ دنیا تو اب دریاؤں کے کنارے چھوٹے چھوٹے ڈیم تعمیر کر رہی ہے،اِس سے نہ صرف قریبی علاقے کو پانی اور بجلی کی فراہمی ممکن ہو جاتی ہے بلکہ پانی بھی ذخیرہ کر لیا جاتا ہے۔ بجلی کا بحران سر چڑھ کر بول رہا ہے، ہمیں بجلی کے حصول کے لئے مہنگے ذرائع پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے، دریاؤں پر چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا کر بجلی کی کمی،پانی ذخیرہ کرنے اور مہنگی بجلی کامسئلہ بیک وقت حل کیا جا سکتا ہے۔ اب بھی وقت ہے ہم حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر اِن مسائل کا مقابلہ کرنے کی تیاری کریں ورنہ بارشیں تو ہر سال ہوں گی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب سیلابوں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔