اس کاوہ معاملہ ٹھیک نہیں ہے...(سعادت حسن منٹو کی یادگار تحریر )
قسط : 4
پھر اس نے ایک اور الجھن کا اظہار کیا لیکن وہ میرے کان میں، ”مسٹر منٹو۔۔۔ اس کاوہ معاملہ ٹھیک نہیں ہے، لیکن میں اسے کیسے کہوں۔“ اور یہ کہہ کر موٹے واشنگ نے اپنا پسینہ پھر پونچھا۔
میں اس کا مطلب سمجھ گیا لیکن واشنگ نے پھر بھی مجھے وضاحت سے سب کچھ بتا دیا اور مجھ سے درخواست کی کہ میں کے کے سے درخواست کروں وہ اس معاملے کو ٹھیک کرے کہ وہ بہت ضروری ہے، ناک کا وہ کوئی نہ کوئی زاویہ نکال لے گا مگر اس معاملے کے متعلق وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا کہ وہ یہ اس کا کام ہے۔ میں نے اس کی تشفی کی کہ میں سب ٹھیک کردوں گا کیونکہ اس نے مجھے اس معاملے کی درستی کا حل بتا دیا تھا کہ جو 35 روپے میں وائٹ وے اینڈ لیڈالا کی دکان سے دستیاب ہو سکتا تھا۔
اس روز ٹیسٹ کسی بہانے سے موقوف کردیا گیا۔ کلدیپ جب اسٹوڈیو سے باہر نکلی تو میں نے بے تکلفی سے ساری بات جو اس معاملے کے متعلق تھی، بتا دی۔اور اس سے کہا کہ وہ آج ہی فورٹ میں جا کر چیزیں خرید لے جس سے اس کے جسم کا نقص دور ہو جائے گا۔ اس نے بلا جھجک میری بات سنی اور کہا یہ کون سی بڑی بات ہے۔ چنانچہ وہ اسی وقت پران کے ساتھ گئی اور وہ چیز خرید لائی، جب دوسرے روز اسٹوڈیو میں اس سے ملاقات ہوئی تو زمین و آسمان کا فرق تھا۔ یہ چیزیں ایجاد کرنے والے بھی بلا کےآدمی ہیں جو یوں چٹکیوں میں ”معاملوں“ کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں۔
واشنگ نے جب اسے دیکھا تو وہ مطمئن تھا۔ گو کلدیپ کی ناک اسے تنگ کررہی تھی مگر اب دوسرا معاملہ بالکل ٹھیک تھا۔ چنانچہ اس نے ٹیسٹ لیا اور جب اس کا پرنٹ تیار ہوا اور ہم سب نے اسے اپنے ہال میں دیکھا تو اس کی شکل و صورت کو پسند کیا اور یہ رائے متفقہ طور پر قائم ہوئی کہ وہ خاص رولز کے لیے بہت اچھی رہے گی۔ خصوصاً ویمپ رول کے لیے۔ کلدیپ کور سے مجھے زیادہ ملنے جلنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ پران چونکہ دوست تھا اور اس کے ساتھ اکثر شامیں گزرتی تھیں اس لیے کلدیپ بھی کبھی کبھی ہمارے ساتھ شریک ہو جاتی تھی، وہ ایک ہوٹل میں رہتی تھی جو ساحل سمندر کے پاس تھا، پران بھی اس سے کچھ دور ایک سکویل میں مقیم تھا جہاں اس کی بیوی اور بچہ بھی تھا لیکن اس کا زیادہ وقت کلدیپ کور کے ساتھ گزرتا تھا۔ میں اب آپ کو ایک دلچسپ واقعہ سناتا ہوں۔
میں اور شیام تاجی ہوٹل میں بیئر پینے جارہے تھے کہ راستے میں مشہور نغمہ نویس مدھوک سے ملاقات ہوئی۔ وہ ہمیں”ایروس سینما“ کی بار میں لے گیے۔ وہاں ہم سب دیر تک بیئر نوشی میں مشغول ہے۔ مدھوک ٹیکسیوں کا بادشاہ مشہور ہے۔ باہر ایک گرانڈیل ٹیکسی کھڑی تھی۔ یہ مدھوک کے پاس تین دن سے تھی۔جب ہم فارغ ہوئے تو انہوں نے پوچھا کہ ہمیں کہاں جانا ہے۔ مدھوک صاحب کو اپنی محبوبہ نگار سلطانہ کے پاس جانا تھا ،جس سے کسی زمانے میں شیام کا بھی تعلق تھا اور کلدیپ کور بھی اس کے آس پاس ہی رہتی تھی۔ شیام نے مجھ سے کہا، ”چلو پران سے ملتے ہیں۔“
چنانچہ مدھوک صاحب کی ٹیکسی میں بیٹھ کر ہم وہاں پہنچے۔ وہ تو اپنی نگار سلطانہ کے پاس چلے گئے اور ہم دونوں کلدیپ کور کے ہاں۔ پران وہاں بیٹھا تھا۔ ایک مختصر سا کمرہ تھا۔ بیئر پی ہوئی تھی۔ غنودگی طاری ہوئی تھی۔ اس کوزائل کرنے کے لیے شیام نے سوچا کہ تاش کھیلنی چاہیے۔ کلدیپ فوراً تیار ہوگئی۔ پران نے کہا کہ فلش ہوگی۔ ہم مان گیے۔ فلش شروع ہوگئی۔ کلدیپ اور پران ایک ساتھ تھے۔ پران ہی پتے بانٹتا تھا، وہی اٹھاتا تھا اور کلدیپ اس کے کاندھے کےساتھ اپنی نوکیلی ٹھوڑی لگائے بیٹھی تھی۔ البتہ جتنے روپے پران جیتتا تھا، اٹھا کر اپنے پاس رکھ لیتی۔اس کھیل میں ہم صرف ہاراکیے۔میں نے فلش کئی مرتبہ کھیلی ہے لیکن وہ فلش کچھ عجیب و غریب قسم کی تھی۔ میرے 75روپے 15منٹ کے اندر اندر کلدیپ کور کے پاس تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آج پتوں کو کیا ہوگیا ہے کہ ٹھکانے کے آتے ہی نہیں۔ ( جاری ہے )
"لاؤڈ سپیکر " سے اقتباس