معروف شاعر قتیل شفائی کو دنیا سےرخصت ہوئے 22برس بیت گئے
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)منفرد لب و لہجے کے عظیم شاعر قتیل شفائی کو مداحوں سے بچھڑے 22 برس بیت گئے لیکن ان کے دلوں کو چھو لینے والے کلام اور فلمی گیت آج بھی مداحوں کو مسحور کر دیتے ہیں۔
تفصیلا ت کے مطابق اسلوب سادہ مگر انداز ایسا کہ دلوں کو چھو جائے، قتیل شفائی کا کلام آج بھی موسیقی کے آسمان پر جگمگا رہا ہے۔ قتیل شفائی 24 دسمبر 1919 کو صوبہ خیبر پختوانخواہ کے ضلع ہری پور ہزارہ میں پیدا ہوئے، ان کا اصل نام محمد اورنگزیب تھا جبکہ انہوں نے 1938 میں اپنا قلمی نام قتیل شفائی رکھا۔ قتیل ان کا تخلص تھا جبکہ انہوں نے اپنے استاد حکیم محمد شفا ء کے احترام میں قتیل کے ساتھ شفائی کا اضافہ کیا تھا۔قتیل شفائی نہایت ہی مقبول اور ہردلعزیز شاعر تھے۔ ان کے لہجے کی سادگی و سچائی، عام فہم زبان کا استعمال اور عوام الناس کے جذبات و محسوسات کی خوبصورت ترجمانی ہی ان کی مقبولیت کا اصل راز ہے۔انہوں نے اپنے فنی سفر کا آغاز پاکستان کی پہلی فلم "تیری یاد" کی شاعری سے کیا۔
قتیل شفائی نے فلم نائلہ، نوکر، انتظار اور عشق لیلیٰ جیسی شہرہ آفاق فلموں کے گیت بھی لکھے جو پاکستان کے علاوہ بھارت میں آج بھی بت حد مقبول ہوئے، قتیل شفائی نے 201 فلموں میں 900 سے زائد گیت تحریر کیے ۔وہ پاکستان کے پہلے فلمی نغمہ نگار تھے جنہیں بھارتی فلموں کے لیے نغمہ نگاری کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ فنی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس اور نقوش ایوارڈ سمیت کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔ قتیل شفائی 11 جولائی 2001ء کو اس دار فانی سے رخصت ہو گئے اور علامہ اقبال ٹاؤن لاہور کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔