میں سازشوں سے غافل نہیں رہ سکتا تھا جوشکاگو میں مجھے اگر اس دنیا سے نہیں تو کم ازکم قوم اسلام سے ختم کرنے کے لیے کی جا رہی تھیں
مصنف: میلکم ایکس(آپ بیتی)
ترجمہ:عمران الحق چوہان
قسط:141
ایلیا محمد کی تقریر سن کر دونوں بھائی سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ اس کے بعد کیسیئس کلے کے مختلف شہروں میں مسلم مساجد اور ریسٹورنٹس میں آنے کی خبریں مجھ تک پہنچتی رہیں اور اگر میرا خطاب کسی قریبی علاقے میں ہوتا تو کیسیئس ضرور سننے آتا۔ میں بھی اسے پسند کرتا تھا اس میں کوئی خوبی ایسی تھی کہ میں نے اسے اپنے گھر مدعو کیا۔ بیٹی نے بھی اسے پسند کیا اور بچے تو اس کے دیوانے تھے۔ وہ ایک پسندیدہ دوستانہ مزاج کا صاف ستھرا اور سادہ نوجوان تھا اور میں نے محسوس کیا کہ وہ چھوٹی چھوٹی تفصیلات کے متعلق بھی بہت چوکنا رہتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ عوام میں مسخروں جیسی حرکتیں کرنا اس کے منصوبے میں شامل تھا اس نے میرے شک کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اس کی ہر ممکن کوشش ہے کہ سونی لسٹن اکھاڑے میں آنے سے پہلے ضرورت سے زیادہ خود اعتماد، مشتعل اور نامکمل تربیت یافتہ ہو اور ذہنی طور پر اس لڑائی کو بھی اپنی مشہور ”ون راؤنڈ ناک آؤٹ“ سمجھے۔ کیسیئس کلے نہ صرف نصیحت سن لیتا تھا۔ بلکہ مشورہ بھی کر لیتا تھا ابتدائی طور پر میں نے اسے یہ سمجھایا کہ کسی بھی سماجی شخصیت کی کامیابی کا بہت حد تک دارومدار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کے مقاصد اور ان کی حقیقی فطرت کے بارے میں کتنا آگاہ اور ہوشیار ہے۔ میں نے اسے ”لومڑیوں“ سے ہوشیار کیا جو اس کے ارد گرد اکٹھی رہتی تھیں اور اسے بتایا کہ یہ خوبصورت لڑکیاں لومڑیاں نہیں بلکہ درحقیقت بھیڑیے ہیں۔
بیٹی اور میری بچیوں نے اس کی دعوت سے بہت لطف اٹھایا۔
مجھے اندازہ نہیں کہ اس نازک وقت میں اگر میں نیو یارک میں ہوتا تو کیا کرتا۔ سارے ذرائع ابلاغ نے میرا محاصرہ کر رکھا تھا میں جذباتی صدمے کی حالت میں تھا۔ جیسے شادی کے خوشگوار 12سال گزرنے کے بعد کوئی شریک حیات صبح ناشتے کی میز پر اچانک طلاق کے کاغذ آگے رکھ دے۔
مجھے یوں لگتا تھا جیسے قوانین فطرت میں تبدیلی آگئی ہو۔ یہ سب کچھ اتنا ناقابل یقین تھا کہ میرا ذہن اسے قبول کرنے سے انکاری تھا۔ میں اپنے آپ کو بالکل بری ذمہ قرار نہیں دے رہا۔ کیسیئس کلے کے فائیٹ کیمپ اور دوسری جگہوں پر جو کچھ میں نے اپنی بیوی سے اور دیگر لوگوں سے کہا اس کا مجھے مکمل شعور نہیں تھا۔ میرا ذہن 12 سالوں پر پھیلی ہزاروں یادوں اور منظروں سے بھرا ہوا تھا۔ مجھے مسلم مساجد۔۔۔ مسٹر(ایلیاء) محمد اور ان کے خاندان سے ملاقاتیں۔۔۔ سماجی مجالس میں مسلمانوں سے انفرادی اور اجتماعی ملاقاتیں۔۔۔ سفید فام سامعین اور صحافیوں سے گفتگو کی یادوں نے گھیر رکھا تھا۔
میں چلتا تھا باتیں کرتا تھا کام کرتا تھا اور کیسیئس کلے کے فائٹ کیمپ میں موجود بہت سے صحافیوں سے بار بار کہتا تھا کہ میں 90 دن میں بحال کر دیا جاؤں گا۔ بتدریج مجھے احساس ہونے لگا کہ یہ جھوٹ ہے۔ لیکن میں نفسیاتی طور پر اس حقیقت کا سامنہ نہیں کر سکتا تھا کہ میرے اور قوم اسلام کے درمیان واقعتاً علیحدگی ہو چکی ہے کیا آپ میری بات سمجھ رہے ہیں؟ یعنی ایک جج کے دستخطوں سے ایک جوڑے میں جسمانی طور پر طلاق ہو جاتی ہے لیکن اگر دونوں میں سے ایک یا دونوں ہی ازدواجی زندگی میں ایک دوسرے سے بہت وابستہ رہ چکے ہوں تو انہیں نفسیاتی طور پر علیٰحدگی اختیار کرنے میں سالہا سال بھی لگ سکتے ہیں۔ لیکن اس جسمانی علیٰحدگی کے باوجود میں ان سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے غافل نہیں رہ سکتا تھا جو شکاگو میں مجھے اگر اس دنیا سے نہیں تو کم ازکم قوم اسلام سے ختم کرنے کے لیے کی جا رہی تھیں۔ اور میرا خیال تھا کہ میں سازش کی ہیئت کو سمجھ رہا تھا اس سلسلے میں پہلا قدم میرے خلاف اٹھایا جا چکا تھا۔ تمام مسلمانوں کو یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ میں نے جناب (ایلیاء)محمد سے بغاوت کی ہے میں دوسرے قدم کا اندازہ لگا سکتا تھا یعنی مجھے مطعل رکھا جائے گا(اور بعد میں مجھے الگ کر دیا جائے گا) اس کے بعد تیسرے قدم کے طور پر یا تو کسی جاہل مسلمان کو اشتعال دلایا جائے گا کہ وہ مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے مجھے قتل کر دے یا مجھے مسلسل الگ رکھ کر بتدریج سماجی منظر سے غائب کر دیا جائے گا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔