وزیراعظم آم کی برآمدات کے متعلق حکومتی پالیسیوں کا نوٹس لیں
لاہور(کامر س رپورٹر) آم کے برآمد کنندگان نے وزیراعظم اور وفاقی وزیر خزانہ پر زور دیا ہے کہ وہ اُن غیر ضروری ریگولیشنزکے معاملے کا جائزہ لیں جن کی وجہ سے یورپین مارکیٹ کو آم کی برآمد متاثر اور اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ آم کے برآمد کنندگان کے ایک وفد نے اس سلسلے میں لاہور چیمبر کے صدر انجینئر سہیل لاشاری اور نائب صدر کاشف انور سے ملاقات کی اور انہیں اپنے مسائل سے تفصیلاً آگاہ کیا۔ وفد میں باﺅ محمد حنیف، محمد احمد، سید فرحان، ارشد علی ، وسیم احمد، باﺅ نوید اور حسنین بٹ شامل تھے۔ وفد کے اراکین نے کہا کہ غیرمنطقی فیصلوں سے نہ صرف آم کے برآمد کنندگان متاثر ہورہے ہیں بلکہ اس کاروبار سے وابستہ ہزاروں افراد کا روزگار بھی داﺅ پر لگا ہے۔ انہوں نے لاہور چیمبر کے عہدیداروں کو آگاہ کیا کہ پالیسی سازوں نے زمینی حقائق کو مدّنظررکھے بغیر ایکشن لیا ہے، پاکستانی آمد کے برآمد کنندگان کے لیے یورپین مارکیٹ سے فائدہ اٹھانے کا یہ بہترین موقع تھاکیونکہ فروٹ فلائی کی وجہ سے یورپین مارکیٹ میں بھارتی آم پر پہلے ہی پابندی عائد ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر کوئی تیسرا ملک اس معاملے میں کود گیا تو پاکستان 800ملین ڈالر کی مارکیٹ واپس نہیں لے پائے گا جس سے زرمبادلہ کی مد میں ملک کو نقصان ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ایئرلائنز، کارگو ایجنٹس، آم کے باغات کے مالکان، فارمرز، فروٹ ٹریڈرز، سپلائرز، ٹرانسپورٹرز، ایکسپورٹرز ، پیکنگ انڈسٹری، یورپین امپورٹرز اور ان شعبوں سے وابستہ لاکھوں افراد ایکسپورٹرز پر عائد ریگولیشنزکی وجہ سے بُری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ آم کے برآمد کنندگان نے تھرڈ پارٹی انسپکشن کی شرط کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ ذمہ داری اُن لوگوں کو سونپی گئی ہے جنہیں اس کاروبار سے بالکل آگاہی نہیں۔ تھرڈ پارٹی انسپکشن کے چارجز بھی بہت زیادہ ہیں جس کی وجہ سے کاروباری لاگت بڑھ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر تھرڈ پارٹی انسپکشن ضروری ہے تو پھر یہ بلامعاوضہ ہونی چاہیے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ ایکسپورٹرز کے لیے لاہور کی پھل و سبزی منڈیوں میں عالمی معیار کے پیک ہاﺅسز قائم کیے جائیں جس سے برآمدات کے فروغ میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایکسپورٹرز کو نقصانات سے بچانے کے لیے تازہ پھلوں اور سبزیوں کے برآمد کنندگان کے لیے ریبیٹ بحال کی جائے ۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے لاہور چیمبر کے صدر انجینئر سہیل لاشاری اور نائب صدر کاشف انور نے کہا کہ لاہور چیمبر آم کے برآمد کنندگان کو درپیش مسائل حل کرانے کے لیے ہرممکن اقدامات اٹھائے گا۔ لاہور چیمبر عرصہ دراز سے مطالبہ کررہا ہے کہ پالیسیاں سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے مرتب کی جائیں لیکن اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ لاہور چیمبر کے عہدیداروں نے کہا کہ پالیسی سازوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ ان کے فیصلوں کی وجہ سے معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان ہورہا ہے اور وہ بھی اس وقت جب یورپین مارکیٹ میں بھارتی آم پر پابندی عائد ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پلانٹ پروٹیکشن اور وزارت خوراک و زراعت نے یورپین یونین کو آم کی برآمد پر کچھ پابندیاں عائد کردی ہیں جن میں یہ بھی ہے کہ آم کی ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ کی جائے اور برآمد صرف حکومت پاکستان سے منظور شدہ سرٹیفائیڈ باغات سے ہی کی جاسکے گی۔ پنجاب حکومت نے ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ کے لیے دو ارب روپے کے فنڈز دئیے ہیں لیکن وزارت نے اس پراجیکٹ میں کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔