نابینا حضرات کا احتجاج اور سرکار کی بے حسی!
سرکاری مشینری کا اندازِ بیان اور کام کرنے کا طریق کام ٹلاؤ اور چلاؤ والا ہے، جس سے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں اور ان کا حل نہیں نکلتا، پنجاب اسمبلی کے باہر فیصل چوک میں دو تین روز سے بڑا دردناک منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ نابینا حضرات سڑک پر لیٹ کر بانہوں کی زنجیر بنا کر ٹریفک روکتے اور لوگ ان کو کھینچ کھینچ کر ہٹاتے اور راستہ بنا کر اپنی موٹر سائیکل یا رکشا گزارتے ہیں یہ درست کہ اس بار پولیس مداخلت نہیں کر رہی، وہ ٹریفک کو اردگرد کی سڑکوں سے گزارنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن ان آنکھوں کے نور سے محروم لوگوں کے ساتھ آنکھوں والوں کا سلوک بھی بُرا ہے۔ گزشتہ روز تو موٹر سائیکل سوار ایک کالے کوٹ والے وکیل صاحب بہت برہم تھے کہ ان کی موٹر سائیکل کو راستہ نہیں دیا جا رہا، محترم وکیل موصوف نے ان نابینا حضرات کے ساتھ بھی’’پولیس والوں کے ساتھ کئے جانے والے سلوک‘‘جیسا رویہ اختیار کیا اور پھر خود اپنے کوٹ کے بٹن تڑوا بیٹھے کہ موٹر سائیکل پر تھے، نابینا حضرات ان کو روکنے کے لئے ہاتھ چلا رہے تھے اور یہ ہاتھ محترم کے چہرے اور کوٹ پر بھی پڑ رہے تھے۔ان نابینا حضرات کے ساتھ ان کی خواتین بھی احتجاج میں شریک ہیں، جو اس لئے ہے کہ کلب چوک والے واقعہ کے بعد وزیراعلیٰ کی ہدایت پر ان کو ملازمتیں دینے کا جو وعدہ کیا گیا وہ پورا نہیں ہوا، انتظامیہ کا عذر ہے کہ جو ملازمتیں تھیں وہ اہل نابینا حضرات کو دی جا چکیں، لیکن مظاہرین اسے غلط قرار دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ کسی ایک کو بھی ملازمت نہیں دی گئی۔اس سلسلے میں خبر یہ ہے کہ شدید گرمی میں یہ سب کچھ پنجاب اسمبلی کے سامنے چوک میں وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے بالکل بالمقابل ہوتا رہا، لیکن کسی ذمہ دار نے آ کر بات نہیں کی اور متعلقہ ضلعی حکام بات کی کوشش کرتے رہے۔ یہ رویہ اپنی جگہ غلط ہے، وزیراعلیٰ ہدایت دے چکے ہوئے ہیں، کیا رانا ثناء اللہ وزیر قانون کا دوبارہ حلف لینے کے بعد نازک ہو گئے کہ چوک میں نہیں آ سکتے، ان کو باہر آ کر ان سب مظاہرین کو کسی سایہ دار جگہ لے جا کر ان کی پوری بات سُن کر تسلی دینا چاہئے تھی۔ اگر حکومت کے پاس یہ عذر ہے کہ اتنے لوگوں کے لئے ملازمتیں نہیں ہیں، تو بھی ان کو سمجھانے اور ان کے لئے گنجائش پیدا کرنے کی ضرورت ہے، تب تک ان کو ایڈہاک بنیادوں پر کھپایا جا سکتا ہے۔ اگر عام لوگوں کے لئے اربوں روپے سبسڈی دی جا سکتی ہے، میٹرو بس بھی رعائت پر چل رہی ہے، تو ان نابینا حضرات کے لئے بھی کچھ رقم مختص کی جا سکتی ہے۔ بہرحال ضرورت یہ ہے کہ ان کا احتجاج ختم ہو، ان کو ٹھوس وجوہ سے آگاہ کیا جائے اور ان کے لئے باعزت روزگار کا ذریعہ پیدا کیا جائے ، وہ یہی چاہتے ہیں کہ بھیک سے بچ جائیں۔ وزیراعلیٰ کو نوٹس لے کر یہ تحقیق کرانا چاہئے کہ ان کے احکام پر کما حقہ عمل کیوں نہیں ہوا؟