بھارت اپنی اداؤں پر غور کرے
وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے بھارت کی مودی سرکار کے چین پاکستان اکنامک کوریڈور کے منصوبے کے بارے میں واویلے اور اعتراض کو بلاجواز قرار دیا۔انہوں نے سوموار کو ایوان وزیراعلیٰ میں محکمہ توانائی پنجاب کے زیر اہتمام چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے حوالے سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور کا عظیم منصوبہ پاکستان کے 18کروڑ عوام کے لئے ہے۔ منصوبے سے سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا ، پنجاب،گلگت بلتستان اورآزاد کشمیرسمیت پورے ملک کے عوام مستفید ہوں گے۔چین پاکستان اقتصادی راہداری سے پاکستان ہی نہیں، بلکہ خطے کے دیگر ممالک بھی استفادہ کریں گے اور خطے میں معاشی و تجارتی سرگرمیاں فروغ پائیں گی۔ان کا کہنا تھا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری عظیم سفر کاآغاز ہے۔یہ بہت بڑا موقع ہے جسے کسی صورت ضائع نہیں کرنا چاہئے، بلکہ سب کو مل کر اس کی کامیابی کے لئے کام کرنا چاہئے۔چین کی بھارت کے ساتھ 75ارب ڈالر کی تجارت ہے ، چین نے بھارت میں توانائی کے منصوبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کررکھی ہے، لیکن پاکستان نے آج تک اس پر کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا کیونکہ پاکستان کو اس سے کوئی سرو کار نہیں ہے، اس لئے بھارت کو بھی اس راہدری کے منصوبے پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے اور اس پر سیخ پا بھی نہیں ہونا چاہیے۔
پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کے منصوبے سے اس خطے کامستقبل جڑا ہے، انرجی کے شعبے میں بھی چینی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کر رہے ہیں۔ چین نے انتہائی مشکل وقت میں پاکستان کا ہاتھ تھاما ، ایسے وقت میں سرمایہ کاری کرنے کی ذمہ داری اٹھائی جب موجودہ حالات کے پیش نظر کوئی بھی دوسرا ملک یہ رسک اٹھانے کو تیار نہیں تھا۔جب سے اس منصوبے کا افتتاح ہوا ہے، بھارت کو کسی کروٹ چین ہی نہیں آ رہا۔بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کھلے انداز میں چین اور پاکستان کے درمیان اس اقتصادی راہداری منصوبے کی مخالفت کر دی۔یہی نہیں بلکہ وزیراعظم نریندر مودی نے بھی اپنے چین کے حالیہ دورے کے دوران اس پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے چینی قیادت کو ’سمجھانے‘کی کوشش کی کہ وہ اس منصوبے کو روک دے، لیکن چین نے سنی اَن سنی کر دی۔مودی سرکار کو اعتراض تھا کہ یہ راہداری گلگت بلتستان میں سے گزرے گی جو کہ ایک متنازعہ علاقہ ہے۔یہ جواز انتہائی مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے، شاہراہِ قراقرم برسوں پہلے تعمیر کی جا چکی ہے۔ یہ علاقہ کہیں اُٹھا کر تو نہیں لے جایا جا رہا، یہ خطہ بھارت کی ملکیت نہیں ہے اوراگر متنازعہ ہے تو وہ بھی بھارت ہی کی ’مہربانی‘ ہے۔بھارت اگر آج مذاکرات کا راستہ اختیار کر لے تومعاملہ خوش اسلوبی سے طے ہو سکتا ہے،لیکن وہ تو اپنی ہی اکڑ میں ہے۔ 1972ء میں بھارت اور پاکستان نے شملہ معاہدے پر دستخط کئے تھے، جس کے مطابق دونو ں ممالک باہمی بات چیت سے اس تنازعے کو حل کریں گے، لیکن چار دہائیاں گزر جانے کے باوجود اس پر عمل نہیں ہو سکا، یعنی اس معاہدے کی حیثیت ایک کاغذ کے ٹکڑے کی سی رہ گئی ہے۔بھارت اسے صرف ایک ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے،جب بھی پاکستان کسی تیسرے فریق سے ثالثی کی درخواست کرتا ہے یا بین الاقوامی سطح پر یہ معاملہ اٹھاتا ہے تو بھارت کو یاد آجاتا ہے کہ معاہدہ شملہ کی رو سے یہ دونوں ممالک کا آپس کامعاملہ ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے ایک بار پھر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون سے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرنے پر مجبور کیا جائے، لیکن کوئی بھارت کی عقل میں یہ بات ڈالے ، اس پر زور دے تاکہ وہ مذاکرات کا آغاز کرے۔عالمی دباو پر نریندر مودی نے نواز شریف کو فون تو کر لیا تھا، اپنے سیکرٹری خارجہ کو بھی بھیج دیا تھا، لیکن پھر اپنا رویہ تبدیل کر لیا۔مودی صاحب کے اپنے بیانات عجیب و غریب ہیں، ایک طرف توانہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات ہونے چاہئیں اوراگلے ہی روزبنگلہ دیش میں انتہائی فخر کے ساتھ اعتراف کر لیاکہ پاکستان کی تقسیم اور بنگلہ دیش کے بنانے میں بھارت کا ہاتھ تھا۔ویسے تو یہ ’’انکشاف ‘‘کچھ ایسا نیا بھی نہیں، لیکن اب تو اسے ’’اقبالِ جرم‘‘ کہا جا سکتا ہے۔بھارت نے پاکستان کی تقسیم پر ہی اکتفا نہیں کیا وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں میں بھی مسلسل جتا ہوا ہے۔ بلوچستان کے معاملات میں اس کی دخل اندزی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے،حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکرکی ڈھٹائی کا بھی جواب نہیں ، وہ توکہتے ہیں کہ دہشت گردی کا جواب دہشت گردی ہی سے دیا جائے گا،الزامات تو وہ بہت لگاتے ہیں، لیکن اب تک ثابت کچھ نہیں کر پائے۔بھارت اب خود ہی طے کرے کہ یہ ’انداز بیاں ‘ کیا ہے۔بھارت کو معلوم ہے کہ پاکستان بھی ایک ایٹمی طاقت ہے اور وہ اس سے جنگ نہیں کر سکتا اسی لئے پراکسی وار کے ذریعے پاکستان کی سالمیت سے کھیلنے کی کوشش کر رہا ہے۔آخر ایسے کب تک چلے گا، کب تک بھارت پاکستان کی راہ میں کانٹے بچھانے کی کوشش کرتا رہے گا؟کیاہم اپنی آنے والی نسلوں کو وراثت میں دشمنی دینا چاہتے ہیں؟ایسے بہت سے ممالک جنہیں ماضی میں ایک دوسرے کا وجود بھی ناگوار تھا ،اب وہ ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں، آگے بڑھ رہے ہیں۔بھارت کو بھی آگے بڑھنا ہو گا، روایتی تعصب پسندی کا دامن چھوڑنا ہو گا، ماضی کی آگ میں حال اور مستقبل جلا دینا ہرگزعقلمندی نہیں ہے۔