شہباز شریف زندہ باد
پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف منفرد شخصیت اور مزاج کے مالک ہیں کئی زبانوں پر انہیں دسترس حاصل ہے ۔ تقریر کا ان کا اپنا انداز ہے جوش خطابت میں وہ جذباتی بھی ہوتے ہیں اور جذبات میں جب وہ ڈائس پر مکے برساتے ہیں تو مائیک بے چارہ اپنی جگہ چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے اپوزیشن والے اُن کے فن تقریر اور اندازبیان کو اپوزیشن کا انداز بیان کہتے ہیں، حالانکہ وہ پچھلے کئی سالوں سے پنجاب کے عوام کی خدمت کررہے ہیں اور وہ اس پس منظر میں خود کو وزیر اعلیٰ کی بجائے خادم اعلیٰ کہلانا زیادہ پسند کرتے ہیں وہ واحد سیاستدان ہیں جو خادم ہونے کو اپنا اعزاز سمجھتے ہیں۔
یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اُن کے خادم ا علیٰ کی ذمہ داری میں جتنے ترقیاتی کام ہوئے ہیں میٹرو بس ہو یا اورنج ٹرین لاہور کو پیرس بنانے کا یہی عزم ہے، جس میں وہ ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں ہمارے دوست کہتے ہیں کہ انہیں تو بس ترقیاتی کام کی بھنک پڑنی چاہئے، جب تک وہ شروع ہو کر ختم نہ ہو جائے ۔ وہ سکون نہیں لیتے اور پھر یہ تو اُن کے سیاسی دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اُن کی نگرانی میں شروع ہونے والے کام کرپشن اور بد عنوانی سے پاک ہوتے ہیں اور یہ کام جس تیزی سے پایہ تکمیل تک پہنچتے ہیں ، وہ قابل تحسین ہوتے ہیں۔ دیگر وزرائے اعلیٰ انہیں اس حوالے سے رشک کی نگاہ سے دیکھتے اور یہ تمنا کرتے ہیں کہ کاش وہ بھی سرکاری اداروں اور افسران کو انہی کی طرح متحرک کر سکیں، اُن سے عوام کی خدمت کا فریضہ تندہی سے انجام پورا کرواسکیں ۔۔۔ لیکن ظاہر ہے کہ ہر کوئی شہباز شریف تو نہیں ہو سکتا۔ شہباز شریف زندہ باد کا نعرہ نہیں لگ سکتا۔
بات تو ترقیاتی کاموں ، اُن کی نگرانی اور ذاتی دلچسپی کی تھی۔ سائیں سرکار ہویا خٹک راج ! جو سرپرستی اور ہدایات کا منتظر رہتا ہے اپنے عوام کی ترقی ، بہتری اور فلاح کے لئے آزادانہ فیصلے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو وہاں بھلا اِس طرح کا خیال کیسے آسکتا ہے۔یہ پنجاب حکومت ہی تو ہے جس نے منفرد منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اطلاعات ہیں کہ پنجاب کے چار بڑے شہروں میں جہاں آبادی اپنی حدود سے تجاوز کر چکی ہے شہروں کے پھیلاؤ نے قبرستان کے لئے بھی جگہ نہیں چھوڑی جو قبرستان موجود ہیں وہاں مزید مہمانوں کی گنجائش بھی نہیں رہی ایک پناہ گاہ میں کئی رہائشیں بن رہی ہیں۔ اُن شہروں میں ماڈل شہر خاموشاں بنانے کا خیال ہے جس کو عملی جامہ پہنانے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔اس شہر خاموشاں کا تمام بندوبست حکومت کے پاس ہو گا۔ لواحقین صرف ایک فون کر کے اطلاع کریں گے ۔ گاڑی آئے گی۔ وہ میت اُٹھا کر لے جائیگی۔ سرکاری سرپرستی میں غُسل ہوگا۔ کفن پہنایا جائے گا۔ مذہبی رسومات کے بعد اُس کی تدفین ہوگی۔ ویسے مرنے والااگر چاہے تو خود بھی شہر خاموشاں کے ڈائریکٹر جنرل کو فون کر کے مناسب بندوبست کرنے کی درخواست کر سکتا ہے۔ مرنے والے کو کچھ خرچ کرنا پڑے گا۔ اور نہ ہی لواحقین کو اخراجات پر پریشان ہونا پڑے گا۔ نہ کفن خریدنا پڑے گا۔ نہ موجود قبرستانوں میں گورکنوں سے جگہ کی نشاندہی کروانا پڑے گی۔ اور نہ اس زمین کے حصول کے لئے کوئی سیاسی اور غیر سیاسی سفارش کروانا پڑے گی۔گورکنوں کو محنت کے ساتھ انعامات دینا پڑیں گے۔
اس حوالے سے تو کہاجاتا ہے کہ ، عام آدمی تو بڑے قبرستانوں میں مستقل رہائش کی خواہش ہی نہیں کرتا کہ وہاں تو بس خاص لوگوں کی ہی آمد ہوتی ہے۔ عام آدمی کے لئے جینے سے مرنا زیادہ مشکل ہے۔ وہ مرتا بھی ہے اور لواحقین کے لئے کچھ اور پریشانیاں چھوڑ جاتا ہے رہی سہی کسر مہمانوں کی آمد سے پوری ہو جاتی ہے ۔ پنجاب حکومت کے اس فیصلے سے بعد از مرگ مصائب اور مشکلات ختم ہو جائیں گی مرنا بھی آسان ہوگا اور بہترین مستقل رہائش گاہیں بھی مفت میسر آجائیں گے ۔ شہباز شریف زندہ باد پنجاب حکومت پائندہ باد۔۔لوگ تو باتیں کرتے رہتے ہیں۔ ویسے لوگوں کا تو یہی کام ہے اپوزیشن والے تو ویسے بھی ایشوز بناتے اور اُس پر سیاست کرتے ہیں۔ وہ اگر یہ کہتے ہیں کہ زندہ لوگوں کے لئے تو رہائشیں نہیں ایک ہی گھر میں کئی کئی خاندان رہتے ہیں۔انہیں پرسکون ماحول میسر نہ بنیادی سہولتیں ۔۔۔۔ لیکن مرنے والوں کے لئے خصوصی بندوبست کئے جارہے ہیں کیونکہ وہی تو اصلی زندگی ہے جہاں ماحول بھی اچھا ہو تو یہ سونے پہ سہاگہ ہے لیکن یہ جو درمیان میں افسر شاہی اور اُس کی منظوری ہے یہ ٹھیک نہیں۔ یہ کرپشن سے باز نہیں آئے گی۔ اپنی علیحدہ بے نام جائداد بنانے کی کوشش ضرور کرے گی۔