موٹے بچوں کو اس عادت سے بچالیں

موٹے بچوں کو اس عادت سے بچالیں
موٹے بچوں کو اس عادت سے بچالیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بچے ہمارا مستقبل ہیں۔ ہنستے کھیلتے کُودتے صحت مند و توانا بچے تمام والدین کی خواہش بھی ہیں اور صحت مند روشن مستقبل کی ضرورت بھی۔ بچوں کی آیندہ زندگی کا دارومدار ابتدائی ایّام اور بچپن کی صحت اور تربیت پر ہوتا ہے۔ صحت اور تعلیم و تربیت کی بنیاد اسی دور میں رکھی جاتی ہے۔ یقیناً بیمار اور سست بچے نہ صرف پریشانی کا باعث بنتے ہیں بلکہ آئندہ آنے والی زندگی میں بھی ان کے لیے خاصی مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں اور خاص طور پر اس تیز رفتار دور میں تو اس کا تصور بھی پریشان کن ہے۔
دورِ حاضر میں جہاں سائنس اور میڈیکل کے شعبوں میں بہت ترقی ہوئی ہے ، معیارِ صحت بہتر ہوا ہے وہاں اس تیز رفتار ی اور جدت کی وجہ سے کچھ نئی روایات اور عادات نے بھی جنم لیا ہے جن سے کچھ مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
مثال کے طور پر آج کل بچے کھیلنے کُودنے کی بجائے ویڈیو گیمز میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں جس کی وجہ سے انکی جسمانی حرکات بہت حد تک کم ہو گئی ہیں۔اس کے ساتھ غذائی معمولات میں بھی خاصی تبدیلیاں پیدا ہو گئی ہیں۔بچوں میں جنک فوڈ(پیزا، برگر، کولا مشروبات وغیرہ) اور بیکری کی مصنوعات، کینڈی، چاکلیٹ نیز ریفائنڈ غذاؤں کا استعمال بھی بہت بڑھ گیا ہے۔ ان عوامل کی وجہ سے بچوں کی صحت شدید متاثر ہو رہی ہے۔ چھوٹے بچوں میں مٹاپا کی بڑھتی ہوئی شرح ان میں سے ایک اہم مسئلہ بن کر سامنے آرہا ہے اور اس کی وجہ سے بچوں کی جسمانی نشوونما میں انحطاط ، خونی رگوں میں رکاوٹ اور دیگر کئی امراض کی شرح میں بھی خاصا اضافہ ہو رہا ہے۔ چونکہ بچوں میں مٹاپے کی ایک بہت بڑی وجہ غیر صحت بخش غذا ہے لہٰذا بچوں کے غذائی معمولات میں مثبت تبدیلی بے حد اہمیت کی حامل ہے۔
بچوں کو مٹاپے سے بچانے کے لیے والدین کو ان کی خوراک پر نظر رکھنی ہوگی اور بچوں کی غذا میں بعض ضروری تبدیلیاں کرنا پڑیں گی۔
ذیل میں بچوں کو مٹاپے سے بچانے کے لیے چند غذائی نکات تحریر کیے جا رہے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر بچے مٹاپے جیسے مرض سے محفوظ رہ سکتے ہیں:۔
* بچوں کو ناشتے میں بیکری کی اشیا، ریفائنڈغذاؤں کی بجائے چھان سے بھر پور غذا دینی چاہیے۔ چھان سمیت اناج(Whole grain Cereals) ریشہ دار اجزا سے بھر پور ہوتے ہیں جو کہ آنتوں کے افعال کو درست رکھتے ہیں اور بچوں میں قبض نہیں ہونے دیتے۔
* بچوں کو جنک فوڈ مثلاً پیزا اور برگر وغیرہ نہیں دینے چاہیے کیونکہ ان غذاؤں میں حرارے بہت زیادہ ہوتے ہیں جو کہ مٹاپے کا بہت بڑا سبب ہیں۔
* بچوں کو کولا مشروبات ہرگز نہ پلائیں۔ اس کے علاوہ مصنوعی فلیورز والے مشروبات اور میٹھی غذائیں بھی استعمال نہیں کرنی چاہییں۔ان کی بجائے بچوں کو تازہ جوس اور قدرتی مشروبات استعمال کروانے چاہییں۔
* پانی زیادہ پلاناچاہیے کیونکہ پانی چکنائی کو جلانے اور وزن کم کرنے میں معاون ہے۔
* پھلوں میں حرارے بہت کم ہوتے ہیں اور یہ معدنیات کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔یہ جسم کی طبعی نشوونما کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ اسی لیے موٹے بچوں کو پھلوں کا سنیکس کے طور پر استعمال کرانے کی بجائے روزانہ پھلوں پر مشتمل ایک مکمل غذا تجویزکی جاتی ہے۔
* سبز پتے والی سبزیوں میں بھی حرارے کم ہوتے ہیں اور یہ بھی وٹامنز اور منرلز سے بھرپور ہوتی ہیں لہٰذا خاص طور پر موٹے بچوں کی روزانہ غذا میں ایک بڑا حصہ سبزیوں پر مشتمل ہونا چاہیے۔
* ایسے بچوں کو روزانہ روایتی تین کھانوں کی بجائے تھوڑے تھوڑے وقفوں سے تھوڑا تھوڑا کھانا کھلانا چاہیے۔
* ناشتہ خاص طور پر بچوں کو بالکل نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ کئی تحقیقاتی مطالعوں سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ ناشتہ نہ کرنے سے بچوں کی صحت پر بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
* گوشت چونکہ چکنائی اور کولیسٹرول سے بھر پور ہوتا ہے اس لیے موٹے بچوں کو گوشت نہیں کھلانا چاہیے۔ تاہم پروٹین کی ضرورت دودھ اور دالوں وغیرہ سے پوری کرنی چاہیے۔
* بچے چھنی ہوئی اور (مصنوعی ) پراسس (Processed) غذائیں استعمال نہ کریں۔
* ان غذائی معمولات کے ساتھ باقاعدہ ورزش سے زیادہ بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سست روی سے بچنے کے لیے کمپیوٹر گیمز کھیلنے اور ٹیلی ویژن دیکھنے کے اوقات بھی مقرر ہوں اور ان پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔ اس کے علاوہ بچوں میں آؤٹ ڈور کھیلوں کے لیے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اس سے صرف بچے صحت مند رہیں گے بلکہ یہ مضبوط اور توانا بھی ہونگے۔
اس سلسلے میں والدین کو خصوصی توجہ دینی ہو گی۔ انہیں بچوں میں اچھی عادات پیدا کرنے کے لیے خود اس کی مثال بننا پڑے گا۔ بچوں کو جنک فوڈ ،بازاری کھانوں ، بیکری کی اشیا اورکولا مشروبات وغیرہ سے دور رکھنے کے لیے والدین کو خود بھی ان کی قربانی دینا ہو گی اور والدین کم ازکم روزانہ ایک کھانا ضرور بچوں کے ساتھ کھائیں ۔اس سے نہ صرف بچوں کے کھانے کی عادات بہتر ہونگی بلکہ اس سے خاندانی تعلقات بھی مضبوط ہو ں گے۔ *

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -