ایدھی کا درد اپنے دل میں محسوس کریں
انسانی زندگی پانی کی مانند ہے۔ اگر کسی مقصد کی خاطر درست سمت میں بسر ہو تو ہر بشر کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے اس کے بر عکس اگر زندگی میں ایک جگہ ٹھہراو آجائے ٹھہرے پانی کی طرح بد ذائقہ اور بد بو دار بن جاتی ہے۔ اسی لیے کسی خاص مقصد کے لیے جدوجہد کرنے والے اپنے زمانے کو تو سیراب کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ آنے والے لوگوں کے لیے ہیرو بھی بن جاتے ہیں۔ایک ہیرو کی زندگی درد اور مشکلات کی مکمل داستان ہوتی ہے۔ سر زمین پاک کے سینے میں ایسے بے شمار ہیرو دفن ہیں جن میں سے ایک عبد الستار ایدھی کا نام بھی شامل ہے۔ جہنوں نے بغیر وسائل کے اپنے خواب کی تکمیل کی بلکہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی فلاح کے لیے ایمبولنس نیٹ ورک قائم کیا۔جس کی ابتداء ایک ایمبولنس سے شروع کی۔
عبد الستار ایدھی جنوری 1928ء بھارت کے شہر گجرات کے ایک تاجر کے گھرپیدا ہوئے۔ پھر تقسیم ہند کے وقت1947ء بے سروسامان ہجرت کر کے کراچی آگئے۔ان کا خیال تھا پاکستان مسلمانوں کی فلاحی ریاست ہو گی جو دکھی انسانیت کے درد کا مداوا کرے گی لیکن جب پاکستان آئے تو حالات اس کے بر عکس منظر پیش کر رہے تھے۔ مالی اعتبار سے بہت تنگ دستی کا شکار تھے جب ایدھی صاحب نے دیکھا کہ ریاست ان کی مفلوج ماں کی دیکھ بھال کے لیے کوئی امداد نہیں کر رہی تو یہی وقت تھا کہ آپ نے اپنی جمع پونجی سے کراچی میں ایک دوکان خریدی اور ایک ڈاکٹر کی مدد سے کلینک کا آغاز کر دیا۔
ابتداء میں ایدھی صاحب کلینک میں ہی سوتے تاکہ کسی درد مند کی بر وقت امداد کر سکیں۔1957ء میں کراچی میں ایک وبا پھیل گئی تو ایدھی صاحب نے کمپ لگا کر عام عوام کو مفت ادویات فراہم کیں۔ ایدھی صاحب کی مخلصانہ خدمت کو دیکھ کر عوام نے دل کھول کر آپ کی مدد کی جس سے اتنی رقم جمع ہو گئی کہ جس بلڈنگ میں آپ نے دکان خریدی تھی اس بلڈنگ کو ہی خرید لیا جس سے ایدھی فائدیشن کا آغاز کیا ۔اسی دوران ایک مخیر شخص نے ایک خطیر رقم آپ کو عطیہ کی جس سے آپ نے پہلی ایمبولنس خریدی۔
ایدھی صاحب کی درد انسانیت سے مخلص جذبے کو دیکھتے ہوئے عوام نے اپنے خزانے کا منہ ایدھی فائدیشن کے لیے کھول دئیے جس سے ایدھی فائدیشن نے 375فلاحی مراکز قائم کیے اور اس وقت ملک کے تمام حصوں میں 1600 ایمبولنس عوام کی خدمت میں لگی ہیں۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی ایمبولنس سروس ہے۔ اس کے علاوہ بے سہارا یتیم بچوں کے لیے یتیم خانے ، پاگل خانے ،سکول اور رحاب سنٹر بھی موجود ہیں۔انسانیت کے درد آشنا جولائی 2016ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔آپ کی موت پاکستان کے لیے قائداعظم محمد علی جناح کے بعد سب سے بڑا سانحہ تھی۔
انسانیت کی بے لوث خدمات پر عبدالستار ایدھی کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بے شمار اعزازت سے نوازا گیا۔1980ء میں پاکستانی حکومت نے انہیں نشان امتیاز سے نوازا۔ افواج پاکستان نے انہیں۔ شیلڈ آف آنر کا اعزاز دیا اور 1992_میں سندھ حکومت نے انہیں سوشل ورکر آف سب کونٹی نینٹ کا اعزاز پیش کیا۔
انٹرنیشنل سطح پر 1986 ء میں ایدھی صاحب کو فلپائن نے رومن مگسیسی اعزاز سے نوازا۔1993 ء میں روٹری انٹر نیشنل فاونڈیشن کی جانب سے پاول ہکرس فیلس ایوارڈ سے نوازا۔
ایدھی صاحب نے دنیا کے سامنے یہ بات ثابت کی کے اگر اندر انسانیت کا درد ہو اور سچی لگن اور جذبے سے انسان بغیر وسائل کے دنیا میں نام پیدا کر سکتا ہے۔ مگر آج کے نو جوان کی سوچ روز مرہ کی بنیادی ضروریات تک ہی محدود ہے۔نوجوان ذرا سی تکلیف سے بھاگ جاتے ہیں کیوں کہ معاشرے کی وجہ سے ان کے اندر نا کامی کا خوف کامیابی کی لگن سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ درد انسان کو بنانے کے لیے آتے ہیں ۔اگر زند گی سے درد کو نکال دیں کو کوئی ہیرو ہیرو ہی نہ رہے۔ہم نے اس حقیقت کو پس پردہ ڈال دیا ہے کہ پھول کانٹوں کے درمیان ہوتا ہے اسی طرح کامیابی بھی مشکلات کے بعد ہی نصیب ہوتی ہے۔اس پر میرا نو جوانوں سے سوال ہے اگرعبدالستار ایدھی بغیر وسائل کے گنیز بک آف ورلڈ میں نام لکھوا سکتے ہیں اور فوج کی سلامی لے سکتے ہیں تو آج کے نوجوان اتنے وسائل کے ہوتے ہوئے دنیا میں نام کیوں نہیں کما سکتا؟ ؟؟آج کے نوجوان سستی کاہلی کا شکار ہیں اور اس کی بڑی وجہ نوجونوں کے آئیڈیل اور رہنما ہیں کیونکہ بچہ اپنے بڑوں سے سیکھتا ہے۔وقت کاتقاضا یہی ہے کہ اپنے کردار کو مضبوط بنائے تا کہ آنے والی نسلیں ایدھی صاحب جیسا درد انسانیت رکھنے والی ہوں کیونکہ یہ درد انسانیت ہی تھا جس نے طارق بن زیاد کو اندلس فتح کرنے پر مجبور کیا اور محمد بن قاسم کو عرب کی سر زمین سے مظلوموں کی مدد کے لیے سندھ لے آیا۔اگر درد انسانیت ختم ہو جائے تو 35 ممالک کی اتحادی فوج بھی ظلم کودیکھ کر خاموش ہی رہتی ہے اس وقت نوجوانوں کو اپنی زندگی کا مقصد تلاش کر کے با مقصد زندگی کی طرف پلٹنے کی ضرورت ہے تا کہ وہ دنیا میں اپنا اور ملک کا نام روشن کرسکے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔