نکاح کیوں ضروری ہے؟؟؟ کتاب و سُنت کے آئینے میں۔۔
اسلام میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے۔ اسلام نے نکاح کے تعلق سے جو فکرِ اعتدال اور نظریہ توازن پیش کیا ہے وہ نہایت جامع اور بے نظیر ہے۔ اسلام کی نظر میں نکاح محض انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیں ہے۔انسان کی جس طرح بہت ساری فطری ضروریات ہیں، بس اسی طرح نکاح بھی انسان کی ایک اہم فطری ضرورت ہے، اس لیے اسلام میں انسان کو اپنی اس فطری ضرورت کو جائزاور مہذب طریقے کے ساتھ پوراکرنے کی اجازت ہے اور اسلام نے نکاح کو انسانی بقا وتحفظ کے لیے ضروری بتایا ہے۔۔۔
اسلام نے تو نکاح کو احساسِ بندگی اور شعورِ زندگی کے لیے عبادت سے تعبیر فرمایا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ! اے لوگو ، اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت پھیلا دیئے۔ (سورت نسآء)متعدد احادیث میں نکاح کرنے کا حکم مذکور ہے، ایک حدیث مبارکہ میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے جوانو کی جماعت! تم میں جو شخص خانہ داری (نان ونفقہ) کا بوجھ اٹھانے کی قدرت رکھتا ہو اس کو نکاح کرلینا چاہیے، کیونکہ نکاح کو نگاہ کے پست ہونے اور شرمگاہ کے محفوظ رہنے میں خاص دخل ہے اور جو شخص قدرت نہ رکھتا ہو اس کو روزہ رکھنا چاہیے،(مسلم شریف) دوسری حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جب بندہ نکاح کرلیتا ہے تو آدھا دین مکمل کر لیتا ہے، اب اس کو چاہیے کہ نصف دین میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے (ترغیب) اس طرح مختلف احادیث میں شادی نہ کرنے پر وعید آئی ہے، ایک حدیث میں مذکور ہے کہ جو شخص باوجود تقاضائے نفس وقدرت کے نکاح نہ کرے وہ ہمارے طریقہ سے خارج ہے (کیونکہ یہ طریقہ نصاری کا ہے کہ وہ نفس نکاح کو وصول الی اللہ سے مانع سمجھ کر اس کے ترک کو (نکاح نہ کرنے کو) عبادت سمجھتے ہیں۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا: جو شخص نکاح کرنے کی وسعت رکھتا ہو، پھر نکاح نہ کرے اسکا مجھ سے کوئی تعلق نہیں (ترغیب) ایک اور طویل حدیث میں روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت عکاف رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا: اے عکافؓ!کیا تیری بیوی ہے؟ انھوں نے عرض کیا نہیں، حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا اور تو مال والا وسعت والا ہے؟عرض کیا جی ہاں میں مال اور وسعت والا ہوں، حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا تو اس حالت میں تو شیطان کے بھائیوں میں سے ہے، اگر تو نصاریٰ میں سے ہوتا تو ان کا راہب ہوتا، بلاشبہ نکاح کرنا ہمارا طریقہ ہے، تم میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیں جو بے نکاح ہیں اور مرنے والوں میں سب سے بدتر وہ ہیں جو بے نکاح ہیں، کیا تم شیطان سے لگاؤ رکھتے ہو؟ شیطان کے پاس عورتوں سے زیادہ کوئی ہتھیار نہیں جو صالحین میں کارگر ہو (یعنی عورتوں کے ذریعہ فتنہ میں مبتلا کرتا ہے) مگر جو لوگ نکاح کیے ہوئے ہیں یہ لوگ پاکیزہ اور فحش سے بری ہیں اور فرمایا، اے عکافؓ! تیرا برا ہو نکاح کرلے ورنہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہوگا۔ (رواہ احمد جمع الفوائد)
فقہاء کرام نے بھی سوائے اس صورت کے کہ جب کہ عورت کے ساتھ ظلم کرنے کا اندیشہ یا یقین ہو تو اس صورت میں نکاح کو مکروہ یا حرام لکھا ہے، اس کے علاوہ کی صورتوں میں کم ازکم سنت مؤکدہ لکھا ہے اور بعض مرتبہ فرض اور واجب بھی بتلایا ہے، نیز اس کو اشتغال بالتعلم والتعلیم والتخلی للنوافل (نفل عبادت وغیرہ سے) افضل کہاہے۔ پتہ چلاکہ بغیرکسی وجہ کےشادی نہ کرکے اپنی زندگی اللہ کی عبادت میں گذارنے کی سوچ اسلامی سوچ نہیں ہے۔
مذکورہ بالا حدیث شریف میں صراحت کیساتھ آپﷺنے نکاح کرنے کو اپنی سنت اور نکاح نہ کرنے کو رہبانیت قرار دیا گیا ہے اور اسلام میں رہبانیت کا کوئی تصور نہیں۔۔۔نکاح کرنا انبیائےکرام علیھم السلام کی بھی سنت ہے ۔
ترمذی شریف میں روایت ہے کہ چار چیزیں سنت المرسلین یعنی انبیائے کرام علیھم السلام کی سنتیں ہیں (1) تمام انبیائےکرام علیھم السلام باحیا ہوا کرتے تھے ۔ (2)تمام انبیائے کرام علیھم السلام خوشبو کا استعمال کیا کرتے تھے۔(3)تمام انبیائے کرام علیھم السلام مسواک کیا کرتے تھے۔(4)تمام انبیائے کرام علیھم السلام ازواجی زندگی بسر کیا کرتے تھے۔چنانچہ سورت رعد میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا’’ اے میرے محبوبﷺ ! ہم نے آپ (ﷺ) سے پہلےکتنے ہی انبیائے( کرام علیھم السلام) کو بھیجا اور ہم نے انکے لئے بیویاں اور اولادیں بنائیں ۔
اسی طرح ایک مرتبہ جب بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عبادت و ریاضت میں یکسوئی و دلچسپی کے پیشِ نظر آنحضرت ﷺ سے اپنی قوت شہوت کو ختم کردینے کی خواہش ظاہر کی تو آنحضرت ﷺ نے ایسا کرنے سے منع فرمایا اور شادی نہ کرنے کو زندگی سے فرار اختیار کرنا قرار دیا۔ اس لیے کہ اسلام زندگی سے فرار کی راہ کو بالکل ناپسند کرتاہے۔ چنانچہ حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ’ بخدا میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ اس کی ناراضگی سے بچنے والا ہوں، میں کبھی نفل روزے رکھتا ہوں اور کبھی بغیر روزوں کے رہتا ہوں، کبھی راتوں میں نماز پڑھتا ہوں اور کبھی سوتا ہوں اور شادی بھی کرتا ہوں (یہ میرا طریقہ ہے) اور جو میرے طریقے سے منہ موڑے ،اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔
اللہ تعالی نےنکاح میں انسان کےلیےبہت سےدینی ودنیاوی فائدےرکھےہیں،مثلاً معاشرتی فائدے ، خاندانی فائدے،اخلاقی فائدے ،سماجی فائدے، نفسیاتی فائدے الغرض! فائدوں اور خوبیوں کا دوسرا نام نکاح ہے۔
انسان کو نکاح کے ذریعہ صرف جنسی سکون ہی حاصل نہیں ہوتا بلکہ قلبی سکون ذہنی اطمینان غرض کہ ہر طرح کا سکون میسر ہوتا ہے۔۔۔ شوہر اور بیوی کے مابین الفت و محبت کا رشتہ ہے اور ایک بیوی اپنے شوہر کے لئے راحت و آرام،سکون و اطمینان کا ذریعہ ہوتی ہے۔۔۔جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ’’ وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی بنائی تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے‘‘ (سورت اعراف )
اس آیت سے عورت کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ عورت مرد کے حق میں ایک انمول تحفہ ہے اورمرد کے لئے باعث سکون و اطمینان ہے لہٰذا جو مرد عورت کی قدر کرتا ہے وہ کامیاب اور پرسکون زندگی گزارتا ہے۔۔۔ اگر انسان نکاح سے جو انسانی فطری ضرورت ہے،منہ موڑنے کی کوشش کرتا ہے تو انسان کو خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
قارئین کرام! زمانہ جاہلیت کے لوگ کس قدر سخت دل ہونگے جو اپنی بیٹیوں کو اپنے ہی ہاتھوں زندہ درگور کر دیا کرتے تھے،دفن ہونے والی معصوم بچیوں کی چیخ وپکار انکے کانوں میں پڑتی ہوگی مگر ان کا ضمیر ان کو نہیں جھنجھوڑتا ہوگا ۔۔۔ان حالات میں حضور نبی کریمﷺنے اپنی دو انگلیوں کا ارشاد کر کے فرمایا ’جس آدمی کے گھر میں دو بیٹیاں ہوں اور وہ انکی اچھی پرورش کرے حتی کہ انکا نکاح کر دے تو وہ آدمی جنت میں میرے ساتھ ایسے ہو گا جیسے ہاتھ کی دو انگلیاں ایک دوسرے کے ساتھ ہوتی ہیں‘‘۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا دنیا ایک متاع ہے اور اس دنیا کی سب سے قیمتی متاع نیک بیوی ہے ( مسلم شریف)
حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ فرما کرتے تھے کہ مجھے میرے آقا حضور نبی کریم ﷺ نے پانچ کاموں میں جلدی کرنے کی وصیت فرمائی۔ 1- تم نماز کے فوت ہونے سے پہلے اسے ادا کر لو۔ 2-موت سے پہلے توبہ کرنے میں جلدی کرو۔ 3- جب کوئی آدمی فوت ہو جائے تو اسکے کفن دفن میں جلدی کرو۔ 4- تمہارے سر پر قرض ہو تو اسکی ادائیگی میں جلدی کرو۔ 5- جب بیٹی یا بیٹے کیلئے کوئی مناسب رشتہ مل جائے تو اس کے نکاح کرنے میں جلدی کرو۔۔۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی علیہ شادی کی اہمیت و فوائد کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ (1)اگر شادی کی اہمیت و فضیلت میں صرف حضور نبی ﷺکا روز قیامت اپنی امت کو دیکھ کر خوش ہونا ہی ہوتا تو کافی تھا۔
(2)موت کے بعد نیک عمل کا (بصورت صالح اولاد) جاری رہنا ہی ہوتا تو کافی تھا۔(3)ایسی نسل جو اللہ تعالی کی وحدانیت اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتی ہو، کا پیدا ہونا ہی ہوتا تو کافی تھا۔(4)محرمات سے آنکھوں کا جھک جانا اور شرمگاہ کا محفوظ ہو جانا ہی ہوتا تو کافی تھا۔(5)کسی خاتون کی عصمت کا محفوظ ہو جانا ہی ہوتا تو کافی تھا۔ میاں اور بیوی اپنی حاجت پوری کرتے ہیں، لذت اٹھاتے ہیں اور ان کی نیکیوں کے دفتر بڑھتے چلے جاتے ہیں۔(6)مرد کا بیوی کے پہننے اوڑھنے، رہنے سہنے اور کھانے پینے پر خرچ کرنے کا ثواب ہی ہوتا تو کافی تھا۔(7)اسلام اور اس کے ماننے والوں کا بڑھنا اور اسلام دشمنوں کا اس پر پیچ و تاب کھانا ہی ہوتا تو کافی تھا۔(8)دل کا شہوانی قوت پر قابو پا کر دین و دنیا کیلیے نفع مند کاموں میں مشغول ہو جانا ہی ہوتا تو کافی تھا کیونکہ دل کا شہوانی خیالات میں گِھر جانا، اور انسان کا اس سے چھٹکارے کی جد و جہد کرتے رہنا بہت سے مفید کام نہیں ہونے دیتا۔
(9)بیٹیوں کا،جن کی اس نے اچھی پرورش کی اور ان کی جدائی کا غم سہا، جہنم سے ڈھال بن جانا ہی ہوتا تو کافی تھا۔(10)دو بچوں کا کم عمری میں فوت ہونا جو اس کے جنت میں داخلے کا سبب بن جاتے، ہی ہوتا تو بہت کافی تھا۔( 11)اللہ تعالی کی خصوصی مدد کا حاصل ہو جانا ہی ہوتا تو بہت کافی تھا۔ کیونکہ جن تین لوگوں کی اعانت اللہ کے ذمے ہے، اس میں ایک پاکیزگی کی خاطر نکاح کرنے والا بھی ہے۔ ( بدائع الفوائد )