رانا طارق سرور سے33سالہ رفاقت کا اختتام
8جون ڈاکٹر نذیر شہید کی یوم شہادت ہے، مجھے اندازہ نہیں تھا ڈاکٹر نذیر شہید کی یاد میں ترانے پڑھنے والا ہمارا پیارا رانا طارق سرور بھی8جون کو ہی ہمارا ساتھ چھوڑ جائے گا۔1988ء میں ڈاکٹر نذیر شہید کی یاد میں ان کا پڑھا ہوا ترانہ مجھے آج بھی یاد ہے،سچی لگن،اخلاق کا خوگہ اظہارِ جرأت کا نشان طارق سرور کو گزشتہ دو سال سے ہر کام نمٹانے میں بڑی جلدی تھی، ہمارا طارق سرور سے تعلق اُس وقت سے تھا جب ہم کچھ بھی نہیں تھے،طالب علم تھے اور پورے کا پورا انحصار گھر والوں پر تھا۔ مجھے یاد ہے کہ طارق بھائی 96 گ ب جڑانوالہ سے ہجرت کر کے تعلیم کے سلسلے میں ہی فیملی کے ساتھ ریحان شیخ جو پہلے ہی ڈی ٹائپ کالونی میں رہائش پذیر تھے ان سے کالج کے تعلق کی بنیاد پر ڈی ٹائپ کالونی کو ہی مسکن بنا لیا۔ان کا جذباتی اور دِل موہ لینے والا دبنگ انداز یاروں کا یار طارق طرور سے بیتے ہوئے33 سال پر کتاب لکھی جا سکتی ہے،ان کے ابتدائی دوستوں میں ریحان شیخ سرفہرست ہے، ریحان شیخ اور طارق سرور طویل رفاقت جب شادی ابھی دور تھی اس وقت بھی اکٹھے تھے اب ریحان یخان ٹیکسٹائل ملز کا مالک ہے تو ہمارا طارق سرور بھی کسی سے کم نہ تھا۔رفاقت سے رکنیت تک اور پھر جڑانوالہ حلقہ رفاقت سے ناظم تحصیل جڑانوالہ معتمد ضلع فیصل آباد اور پھر فیصل آباد مقام کی ذمہ داریوں سے ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی فیصل آباد تک کا طویل دور کا کسی نہ کسی انداز میں ہمسفر ہونے کا اعزاز مجھے حاصل ہے، ہمارے پیارے بھائی طارق سرور کا مجھے معتمد ہونے اور انہیں میرا معتمد بننے کا اعزاز بھی حاصل ہے، ہمارے ساتھی تو اب کی باتیں،ان کا دبنگ اظہارِ جرأت سوشل میڈیا پر وائرل کر رہے ہیں،ہم نے تو سب کچھ قریب سے دیکھا ہے۔
33سال پہلے جب سوشل میڈیا تو دور کی بات موبائل تک نہیں ہوتا تھا،اُس وقت بھی طارق سرور اتنا ہی بہادر اور دلیر تھا اس کی زندگی میں دوعملی نہیں تھی،دِل میں بات نہیں رکھتا تھا۔اگر آج تاریخ میں نظر دوڑائیں تو میرا اندازہ ہے وہ تحریکی زندگی کے آغاز سے آج تک اگر کسی کے سب سے زیادہ قریب تھا،تو وہ اظہر اقبال حسن ڈپٹی سکرٹری جماعت اسلامی پاکستان میں جو ان کے طالب علمی سے تحریکی زندگی اور شادی، بچے، فیملی مسائل کاروبار اور آخر میں اپنے پیارے کو منوں مٹی تلے لحد میں اتارنے تک ساتھ دیتے رہے۔ اللہ طارق سرور کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے اور ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں باغ بنائے۔ اظہر اقبال حسن مجھ سے میرے بھائی اور پیارے کے جانے کا غم بانٹ رہے تھے اور میں ان سے اظہارِ تعزیت کر رہا تھا، مجھے اظہر بھائی نے فون کر کے جب بتایا آپ کے دوست کو ہمیشہ رہ جانے والی زندگی کی گاڑی میں سوار کر آیا ہوں تو میں اپنی آنکھوں سے آنسو نہ روک سکا۔ مجھے اب یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ اتنی جلدی ہمارا ساتھ چھوڑ سکتا ہے۔ اظہر بھائی نے جب مجھے یقین تو کرنا پڑے گا، مَیں اپنے ہاتھوں سے اللہ کے سپرد کر کے آیا ہوں ہمیں وہ پیغام دے گیا ہے،مَیں تو زندگی میں کامیاب اور سرفراز ہو کر جا رہا ہوں اب آپ کی باری ہے یقین جانے طارق سرور ایک فرد نہیں تھے ایک ایسی تحریک تھا، جس کو کسی لمحے چین نہیں تھا۔حق اور سچ کے لئے ہر جگہ ڈٹ جاتا تھا،اس کے لئے کوئی فرد کسی سطح پر رکاوٹ بنا تو اس نے پروا نہیں کی۔ سید مودودیؒ کا سپاہی طارق سرور دبنگ مقرر نہیں تھا اسے علم سے بڑی محبت تھی، ایم ایس سی ایگری کلچر کی ڈگری زرعی یونیورسٹی سے لینے کے بعد اچھی سے اچھی ملازمت اس کے سامنے رہی۔ ایک دو جگہ وہ ذمہ داری دیتے بھی رہے۔
ایک دور آیا تو انہیں صحافی بننے کا جنون ہو گا مجھے یاد ہے روزنامہ ”انصاف“ کا انہیں فیصل آباد کا بیورو چیف بنایا تو دن رات ایک کر دیا۔ روزنامہ ”امن“ میں کالم لکھنا شروع کیا تو نئی تاریخ رقم کرنا شروع کر دی،کالموں کی کتاب تک لکھ ڈالی، انہی دِنوں میں مجھے کہنے لگے ہمارے ملک کے مستقبل کو سنوارنے کے لئے تعلیمی ادارے بڑے ضرور ہیں، میں بہترین ادارہ بناؤں گا اور پھر تھوڑے دِنوں بعد ہی پتہ چلا کہ سمندری روڈ دارِ ارقم بنا ڈالا۔ ہمارا پیارا طارق سرور کی ایک خوبی تھی وہ دوستوں سے رابطہ رکھتا تھا، اپنے بھائیوں سے ان کی88ء سے آج تک کی محبت سے آگاہ ہوں، زندگی میں سارے بہن بھائیوں کو ایک ساتھ نہر کنارے بسانے کے خواب کو تعبیر بھی دے ڈالی
، دو سال سے میڈیکل کالجز کی مانپلی اور ہر سال فیسوں میں اضافے کو روکنے کے لئے سرگرم تھے، اس کے لئے ہائی کورٹ میں کیس دائر کر رکھا تھا، درجنوں بچے بچیوں کو ریلیف دلانے کے بعد 80 طالب علموں کو ریلیف نہ ملنے پر دوبارہ ہائی کورٹ کے چکر لگاتے رہے اس کے لئے نافع کے نام سے تنظیم بنا لی تھی۔رمضان سے پہلے لاہور آئے تو امیر ضلع لاہور ذکر اللہ مجاہد میرے بھائی فیاض احمد، عبدالعزیز عابد کے ساتھ وحدت روڈ کے ایک ڈھابے میں تین گھنٹے بیٹھے رہے، اب ان کا مشن میڈیکل سٹور کی چین تھا جس میں وہ لاہور کے ساتھیوں کو شامل کرنا چاہتے تھے اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا،8جون کو میڈیکل طلبہ و طالبات کو ریلیف دلانے کے لئے لاہور ہائی کورٹ آئے ہوئے تھے تو یہ ان کا آخری سفر ثابت ہوا۔مجھے اکثر کہا کرتے تھے میرا بائی پاس ہو چکا ہے میرے پاس وقت کم ہے،اس حوالے سے بھی سچ کر رکھا۔ لاہور میں ہی دوبارہ اٹیک میں اللہ کے پاس چلے گئے ان کی اتنی یادیں ہیں۔گزشتہ چھ سال سے رمضان سے پہلے ہمیں اپنے دوست رانا محمود الحسن سے سوٹ دِلا رہے تھے۔ رانا محمود الحسن سے بڑا پیارا کرتے تھے، کیا کیا لکھوں سمجھ نہیں آ رہا اللہ ان کے بچوں او فیملی کو صبر دے اور ان کے کاموں کو صدقہ جاریہ بنائے۔گزشتہ ہفتے ہمارے ایک اور پیارے دوست حاجی مقبول احمد کے بڑے صاحبزادے فیاض الرحمن بھی ہمیں چھوڑ گئے، اللہ کے لئے بھی دُعا گو ہیں اللہ ان کو بھی جنت میں اعلیٰ مقام دے اور ان کی فیملی کو صبر جمیل دے۔آمین