الفاظ کی جادوگری؟

بجٹ الفاظ کی جادوگری کا بھی نام ہے۔ ہر سال مستقبل کے سال کا تخمینہ ایوانوں میں پیش کیا جاتا ہے، مقصد یہ کہ گزرے سال تو جو ہو گیا سو ہو گیا۔ اب اگلے مالی سال کے لئے تخمینے حاضر ہیں، اصولی طور پر تو چادر کے مطابق پیر پھیلانے کے مطابق ہی تخمینہ ہونا اور اخراجات کئے جانا چاہئیں، لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ یہ آئینی ضرورت پوری کرنے کے بعد بھی گنجائش رکھ لی گئی اور فاضل اخراجات کرکے ضمنی بجٹ بنا لیا جاتا اور جب نئے سال کا بجٹ پیش کرکے ایوان کی منظوری حاصل کی جاتی ہے تو پھر ضمنی بجٹ بھی پیش کر دیا جاتا ہے یوں جو رقوم پیشگی منظوری کے بعد خرچ کی جاتی ہے اسے بھی باقاعدہ بنانے کے لئے ضمنی بجٹ پیش کرکے منظور کرا لیا جاتا ہے، اس میں حقیقت تو یہی ہے کہ منظوری قواعد و ضوابط پورا کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اخراجات تو ہو چکے ہوتے ہیں اور ان میں کٹوتی کوئی ہو نہیں سکتی میں نے طویل عرصہ پارلیمانی رپورٹنگ کی اور بجٹ بھی کور کرکے رپورٹ کیا تاہم یہ یاد نہیں کہ یہ ضمنی والی رسم کس دور میں شروع ہوئی۔ خیال تو یہی ہے کہ کسی آمرانہ دور ہی میں یہ رسم پڑی ہو گی تاہم استفادہ تو سول حکومتیں بھی خوب کرتی ہیں، ایسا ہی کچھ صوابدیدی فنڈ کا معاملہ ہے ایوانوں میں اعتراض اور بحث کے بعد یہ طے ہوا تھا کہ صوابدیدی اختیارات لامحدود نہیں ہونا چاہئیں، اس کی حد مقرر کرکے بجٹ کے ساتھ منظوری لینا لازم ٹھہرایا گیا تاہم بجٹ کی تو حد ہو سکتی ہے لیکن انسان کی حد متعین ہونا ناممکن سی بات ہے، چنانچہ صدر سے وزیراعظم اور وزراءاعلیٰ تک سب صوابدید کا استعمال کرکے مقررہ رقوم سے زیادہ خرچ کر دیتے ہیں اور یہ فاضل اخراجات بھی ضمنی بجٹ ہی کے ذریعے منظوری کرائے جاتے ہیں۔
بات شروع کی تھی اعداد و شمار کی جادوگری اور بجٹ کے فہم کی ایک دور ہمارے اس اخبار کا وہ تھا جب میں چیف رپورٹر اور دوسرے دوست مل کر کام کرتے تھے۔ معین اظہر اور ہمایوں خان بھی ٹیم ممبر تھے۔ معین اظہر سیکرٹریٹ کی بیٹ کے ماہر ہیں اس لئے ہماری کوشش ہوتی تھی کہ وہ فنانس بل اور سالانہ بجٹ کے خاص نکات پہلے لے کر آئیں اور ہم رپورٹ کر سکیں اور ایسا ہوتا تھا آج کل تو خود کار طریقے سے خود برسراقتدار جماعت ہی کی طرف سے بجٹ کے خاص خاص نکات جاری ہی کر دیئے جاتے ہیں اور زیادہ تکلف کی ضرورت نہیں ہوتی البتہ فنانس بل کو چھپا کر رکھا جاتا ہے۔اس کے ذریعے ٹیکسوں میں ردوبدل کیا یا نئے ٹیکس لگانا ہوتے ہیں، اس بار ایسا ہی ہوا کہ یار لوگ بہت سے ٹیکس لگانے کی خبریں دیتے رہے اور ڈار صاحب نے کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کر دیا لیکن جیسا میں نے عرض کیا کہ بجٹ الفاظ کی جادوگری ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ آمدنی بڑھانے کے لئے کچھ نہیں کیا، متعدد رعائتیں دینے کے ساتھ ہی کئی جاری ٹیکسوں میں ردوبدل کیا گیا ہے اور اس میں سپر ٹیکس بھی شامل ہے اور نان فائیلرز کے لئے بھی پریشانی ہے۔ اب بندہ پوچھے جب کوئی فرد انکم ٹیکس کی حد تک نہیں پہنچا اور اہل ہی نہیں تو وہ فائیلر کیسے بنے گا اور یہ بھی ایک جادو ہے کہ اگر یہ بے چارے بینک سے تنخواہ وصول کرتے ہوں تو رقم نکالتے وقت 0.6فیصد ٹیکس کے پابند ہوں گے۔ عموماً تنخواہ دار پوری رقم نکلواتے ہیں اور یہاں ان کو 0.6دینا ہوگا جب 50ہزار سے زیادہ نکلوائیں گے ،ہم لوگ بھی ”عقل مند“ ہیں، وہ ایک ہی بار رقم نکلوانے کی بجائے دو یا تین مرتبہ نکلواتے ہیں۔ یہ بھی بھولے بادشاہ ہیں کہ اس طرح بچت کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ چیک کی بھی قیمت ہوتی ہے اور ایک سے زیادہ چیک کے ذریعے تنخواہ نکالنے کا مطلب بھی اضافی خرچ ہوتا ہے۔
میں نے پہلے ذکر کیا اور الفاظ کی جادوگری کہا تو اس کی مثال بھی عرض کر دیتا ہوں، پنجاب کا ایک بجٹ بڑے طمطراق سے فاضل بجٹ قرار دیا گیا ، ہم اسمبلی سے دفتر آ گئے، ہمایوں خان رپورٹ تیار کرنے لگے اور میں نے بجٹ دستاویزات دیکھنا شروع کر دیں، ذرا غور سے دیکھا تو حیرت ہوئی کہ بجٹ تکنیکی طور پر فاضل بتایا گیا ورنہ دستاویزات کے مطابق خسارہ تھا جسے الفاظ کی جادوگری کے ذریعے فاضل بنا دیا گیا۔ اب ہم سب نے باقاعدہ اجلاس منعقد کرکے اس پر غور کیا تو حقیقتاً خسارہ تھا، چنانچہ ہماری خبر خسارے کے بجٹ والی اور واحد تھی، باقی سب نے سرکاری موقف پر صاد کیا تھا لیکن ہم نے دستاویزات کی چھان بین سے یہ سراغ لگا لیا۔
اب موجودہ وفاقی بجٹ کی دستاویزات تو میرے سامنے نہیں ہیں، میں نے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی بجٹ تقریر اور آج (ہفتہ)خبروں سے جو اخذ کیا وہ یہی ہے کہ اس بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان انتخابی نعرہ ہے، اگرچہ غلط نہیں کہا گیا کہ واقعی فنانس بل میں نیا ٹیکس نہیں ہے، لیکن کئی ڈیوٹیوں میں ردوبدل اور کئی ٹیکسوں کی شرح تبدیل کرکے اضافی آمدنی کا ذریعہ پیدا کیا گیا ہے اور ان سب کو احساس ہو گیا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا، آج کی خبروں میں یہ سب موجود ہے کہ کہاں رعایت دی گئی اور کہاں ”ضرب“ لگائی گئی ہے۔
بہرحال ایک بات کی داد دینا ہوگی کہ محترم ڈار صاحب کی زبان ہی سے ای او بی آئی کے پنشنر حضرات کو ڈیڑھ ہزار روپے ماہوار کا اضافہ دیا گیا ہے ورنہ یہ ڈار صاحب ہی ہیں کہ جب میاں محمد نوازشریف کے وزیر خزانہ تھے تو دو سال متواتر میں اسلام آباد گیا۔ بجٹ تقریر اور پھر بجٹ پریس کانفرنس میں شریک ہوا اور ہر بار ڈار صاحب سے ای او بی آئی کے حوالے سے سوال کئے انہوں نے سنی ان سنی کر دی تھی۔ اب بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے یہ قومی خزانے سے نہیں آجر اور اجیر کی کٹوتی سے دیئے گئے ہیں حالانکہ 2016ءکے نوٹیفکیشن کے مطابق قانون میں ترمیم کرکے یہ طے کر دیا گیا ہوا ہے کہ ای او بی آئی پنشن مزدور کی کم از کم مقررہ تنخواہ کے برابر ہو گی جو اب 30ہزار روپے کر دی گئی ہے۔
خیر یہ تو تکنیکی باتیں ہیں، مجھے اس حکومت کی تعریف بھی کرنا ہے کہ یہ بجٹ واقعی مشکل حالات میں بہتر ہے اور ترقیاتی بجٹ ہے، درست ترقیاتی منصوبوں کے لئے فنڈز مختص کئے گئے اور اسی طرح نئے منصوبے بھی شروع کئے جانا ہیں تاہم یہ غور طلب ہے کہ ٹارگٹ سبسڈی سے یوٹیلٹی سٹوروں کے ذریعے لوگ مستفید ہوں گے اشیاءضرورت کے نرخوں پر بازار میں فرق نہیں پڑے گا اور شاید روسی پٹرول آنے کے بعد بھی اب مزید سستا نہ ہو کر لیوی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ایک اچھا قدم یہ بھی ہے کہ سپرٹیکس کی شرح میں ردو بدل کرکے اجارہ داروں سے کچھ مزید وصول کرنے کی کوشش کا آغاز ہوا ہے۔ اشرافیہ کے یہ لوگ اس پر احتجاج کررہے ہیں، حالانکہ ان کے کروڑوں کے منافع میں سے معمولی حصہ زیادہ وصول کیا گیا ہے ۔توقع کرنا چاہیے کہ وفاق کے بعد صوبائی حکومتیں بھی پیروی کریں گی اور عوامی بہبود کا خیال کرتے ہوئے اشیاءضرورت کے نرخوں کو کنٹرول کرنے کے لئے منافع خور مافیا کا بھی تدار ک کریں گی۔