رہنما مل گئے سیاسی کارکن ندارد

کہا یہ جا رہا ہے استحکام پاکستان پارٹی کو لیڈر تو مل گئے ہیں اب کارکنوں کی تلاش جاری ہے یہ کارکن یعنی سیاسی کارکن بھی کیا غضب کی مخلوق ہیں، مفت میں مل جاتے ہیں اور جانیں تک قربان کر دیتے ہیں اب دیکھئے کہ تحریک انصاف کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد اس وقت جیلوں میں ہے، یہ کوئی تنخواہ پر کام کرنے والے ملازمین نہیں تھے جو کسی وجہ سے پکڑے گئے بلکہ یہ تحریک انصاف میں بلا معاوضہ شامل تھے اور اپنے لیڈر کی گرفتاری پر مشتعل ہو کر وہ کر بیٹھے جو انہیں نہیں کرنا چاہئے تھا، ویسے تو سیاسی جماعتوں کو کارکنوں کی ضرورت ہمیشہ ہی رہتی ہے تاہم کسی تحریک کے موقع پر یا انتخابات کے موسم میں ان کی ضرورت بہت بڑھ جاتی ہے۔ سیاسی کارکنوں کو پاکستان میں ہمیشہ ایک مفت کی ملی ہوئی شے سمجھا گیا ہے، اب سے کچھ عرصہ پہلے تک کسی مشکل صورت حال سے نمٹنے کے لئے سیاسی کارکنوں کو زمان پارک پہنچنے کی کال ایسے دی جاتی تھی جیسے کسی ایمرجنسی میں ڈاکٹروں کو ہسپتالوں میں بلایا جاتا ہے۔ کارکن بھی لاہور کے مختلف کونوں سے جوق در جوق نکل کر زمان پارک پہنچ جاتے تھے، انہیں آنے پر کسی طرف سے مجبور تو نہیں کیا جاتا تھا مگر چونکہ یہ کارکن کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے اپنی لو لگا لیتے ہیں اس لئے بلا سوچے سمجھے اور بغیر کسی مفاد کے اس کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی کارکن راتوں رات نہیں بنتے۔ اس کے لئے وقت لگتا ہے، وہ کسی جماعت کو جب اپنے دل کے قریب محسوس کرتے ہیں تو پھر اس میں شامل ہو جاتے ہیں پیپلزپارٹی کا کارکن بھی بہت دیرینہ ہے، موقع آئے تو وہ اس کے لئے جان لڑا دیتا ہے۔ تاریخ میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی قربانیاں رقم ہیں۔ خاص طور پر ضیاءالحق کے مارشل لاءمیں پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے قید میں کوڑے اور اذیت کے دیگر مراحل برداشت کئے مگر اس سے جڑے رہے۔ کارکنوں کی ایک بڑی کھیپ مسلم لیگ (ن) کے پاس بھی ہے، جو زیادہ سخت جان تو نہیں البتہ مسلم لیگ (ن) کے جلسوں کو بھرنے اور میاں دے نعرے وجن گے، کے نظریئے پر یقین رکھتے ہیں لیکن جو کھیپ تحریک انصاف نے تیار کی، اس کی مثال نہیں ملتی خاص طور پر اس میں نوجوان شامل ہیں اور بہت جوشیلے ہیں۔ اسی جوشیلے پن کی وجہ سے وہ 9 مئی کو استعمال ہو گئے اور اب بھگت رہے ہیں خود اپنی جماعت کو بھی انہوں نے مشکل میں ڈال دیا ہے۔ احتجاج کو کیسے پر امن رکھنا ہے، یہ سیاسی کارکنوں کی تربیت میں شامل ہونا چاہئے لیکن جب لیڈر شپ ہی بے بہرہ ہو اور اسے معلوم نہ ہو کہ کہاں کیا کرنا ہے تو پھر سیاسی کارکن بھی جذبات کی لہر میں بہہ جاتے ہیں سیاسی کارکنوں کے بغیر سیاسی جماعتوں کا کوئی تصور نہیں۔ آپ لاکھ بڑے نام والے لیڈر اکٹھے کر لیں جب تک پارٹی میں کارکن موجود نہیں ہوں گے وہ جماعت آگے نہیں بڑھ سکے گی ہم دیکھ چکے ہیں ہماری تاریخ میں تانگے کی سواری والی سیاسی پارٹیاں بھی رہی ہیں انہیں تانگہ پارٹی اس لئے کہا جاتا تھا کہ ان کے پاس کارکن موجود نہیں تھے۔ ہر سیاسی شخصیت کے اردگرد چند حواری ضرور موجود رہتے ہیں جو کسی مفاد یا تعلق کی وجہ سے ساتھ ہوتے ہیں، مثلاً جو لوگ اب استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں ان کے ساتھ کچھ لوگ ضرور ہوں گے مگر انہیں سیاسی کارکن نہیں کہا جا سکتا۔ سیاسی کارکن وہ ہوتا ہے جو کسی جماعت کے نظریئے سے متاثر ہو کر اس کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ شخصیات کے حواریوں اور سیاسی کارکنوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک سیاسی لیڈر وفاداری تبدیل کر کے دوسری جماعت میں چلا جائے اور اس کے ساتھ پارٹی کے کارکن بھی اپنا قبلہ تبدیل کر لیں۔ اس کی مثال اس وقت سامنے ہے جو شخصیات تحریک انصاف کو چھوڑ کر نئی سیاسی جماعت میں گئی ہیں، انہیں اپنے ہی حلقوں میں کارکنوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی کارکن آنکھیں بند کر کے اِدھر سے اُدھر نہیں چلے جاتے بلکہ جب تک ان کے اندر ایک طلب اور تڑپ نہیں پیدا ہوتی وہ اپنی جماعت کو نہیں چھوڑتے جو در حقیقت ان کے لئے ایک جذباتی وابستگی کا مسئلہ بن چکی ہوتی ہے۔
اس وقت استحکام پاکستان پارٹی لیڈروں کو تو اپنے ساتھ لے گئی ہے سوال یہ ہے کارکنوں کو کہاں سے لائے گی؟ یہ نعرے لگا دینا کہ ہم ملک میں استحکام لائیں گے، انصاف کو عام کریں گے، مشکلات سے نکالیں گے، اس لئے پھسپھسے لگتے ہیں کہ جن لوگوں کے ذریعے یہ سب کچھ کرنے کی نوید سنائی جا رہی ہے وہ تو پٹے ہوئے مہرے ہیں۔ ان کی وجہ سے کوئی تبدیلی آ سکتی تو پہلے نہ آ جاتی۔ جہانگیر ترین کے بارے میں کہا جا رہا ہے وہ کمالات دکھانے میں مہارت رکھتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انہوں نے 2018ءمیں جو کمالات دکھائے وہ ایک پہلے سے موجود سیاسی جماعت جو اپنی جڑیں مضبوط کر چکی تھی کے لئے سیاسی چہروں کو جہاز میں بھر بھر کے لانا تھا۔ تحریک انصاف کے پاس اس وقت سیاسی کارکنوں کی کمی نہ تھی البتہ اسے الیکٹیبلز کی ضرورت تھی تاکہ انہیں میدان میں اتارا جا سکے۔ یوں بات بن گئی تھی کہ عمران خان جب بڑے بڑے جلسے کر رہے تھے تو ان کی جماعت میں لوگوں کی شمولیت اس تناظر میں دیکھی جا رہی تھی کہ وہ عمران خان کے تبدیلی والے نعرے سے متاثر ہو رہے ہیں اس وقت حالات بالکل مختلف ہیں ایک طرف تحریک انصاف ہے جس کی عوامی مقبولیت شک و شبے سے بالا تر ہے۔ گو اس کے کارکن سہمے ہوئے ہیں مگر موجود ضرور ہیں سیاسی کارکنوں کی ایک نفسیات یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ مشکل وقت میں اپنی جماعت کا ساتھ نہیں چھوڑتے، اس لئے وہ ان رہنماﺅں کے ساتھ بھی نہیں جاتے جو بوقت ضرورت ایسا کرتے ہیں۔ اس لئے یہ فی الوقت ناممکن نظر آتا ہے کہ جن بڑے ناموں کو استحکام پاکستان پارٹی میں شامل کیا جا رہا ہے، ان کے سیاسی کارکن بھی ان کے ساتھ آ جائیں بلکہ یہ امکان زیادہ موجود ہے کہ انہیں سیاسی کارکنوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے سیاسی کارکن ایک زمانے میں مٹی کے مادھو ضرور تھے، مگر اب سوشل میڈیا کی وجہ سے انہیں سیاسی شعور آ گیا ہے اب یہ ممکن نہیں کہ وہ آنکھیں بند کر کے کسی بات پر ایمان لے آئیں۔ اب سیاسی کارکنوں کی بھی ایک سوچ ہے جس کا اظہار گاہے بگاہے ہوتا رہتا ہے۔ یہ مخلوق جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مفت میں مل جاتی ہے یقیناً ملتی ہے لیکن ایسے نہیں کہ آپ انہیں ریوڑ کی طرح ایک جماعت سے دوسری میں دھکیل سکیں۔ پیپلزپارٹی کا کارکن آج بھی پیپلزپارٹی میں ہی ہے، مسلم لیگ (ن) کا مسلم لیگ (ن) میں کھڑا ہے، تحریک انصاف کے کارکنوں کو کیسے استحکام پاکستان پارٹی میں دھکیلا جا سکتا ہے۔ جبکہ ان کی اکثریت عمران خان سے متاثر ہے آپ کسی فائیو سٹار ہوٹل میں اجلاس بلا کر ایک نئی سیاسی جماعت کا اعلان تو کر سکتے ہیں مگر کوئی بڑا جلسہ نہیں کر سکتے کہ اس میں کارکنوں کی شرکت ضروری ہوتی ہے۔ جہانگیر ترین کوئی ایسی کرشماتی شخصیت بھی نہیں رکھتے کہ جو کارکنوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکے۔ جبکہ تحریک انصاف چھوڑ کر آنے والے تو ویسے ہی تہی دست نظر آتے ہیں ایسے میں اس نوزائیدہ جماعت کا مستقبل کچھ زیادہ روشن نظر نہیں آتا۔