معاشی عدم استحکام کی فضاءمیں خوشی کی امید!

معاشی عدم استحکام کی فضاءمیں خوشی کی امید!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان میں معاشی عدمِ استحکام کی جو صورتِ حال گزشتہ کئی سال سے ابترچلی آ رہی ہے ، اس حوالے سے ایک طرف ملک کے دیوالیہ ہونے کی خبریں ہیں تو دوسری طرف آئی ایم ایف سے معاملات طے نہ ہونے کے سبب مہنگائی کا جن بے قابو ہو رہا ہے، ایسے میں چین اور ترکیہ کی جانب سے پاکستان میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری یقینا خوش آئند امر ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ملک میں گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ میں مہنگائی جو بڑھتی ہی جا رہی تھی، اس میں کسی حد تک استحکام دکھائی دے رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو ملک میں سیاسی استحکام کو قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے ملک میں سیاسی عدم استحکام عروج پر رہا،جس میں اب کچھ بہتری کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسے میں چین کے صدر شی جن پنگ کی جانب سے چین کی 100 کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی ہدایات دینا ، دوسری طرف پاکستان اور ترکیہ کی جانب سے تجارتی حجم 5 ارب ڈالر سالانہ تک بڑھانے کے عزم کو معاشی عدم استحکام کی فضا میں خوشی کی نویدقرار دیا جا رہا ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر جاری کئے گئے پیغام میں وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ترکیہ کی بزنس کمیونٹی کی جانب سے پاکستان میں جاری شراکت داری کو فروغ دینے اور نئے منصوبوں میں دلچسپی کا اظہار خوش آئند ہے۔ دورہ¿ ترکیہ کے دوران ترک بزنس گروپوں سے ملاقاتوں میں ا±نہوں نے پاکستان میں زراعت، توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور تعمیرات کے شعبوں میں سرمایہ کاری اور تجارت کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ قبل ازیں وزیراعظم نے نومنتخب صدر طیب اردوان کی تقریب ِحلف برداری میں شرکت کی جہاں ا±ن کی ملاقات دنیا کے کئی ممالک کے قائدین سے بھی ہوئی۔ ایرانی نائب صدر سے ملاقات میں دونوں رہنماو¿ں نے بلوچستان اور سیستان سرحد پر مارکیٹ کے قیام پر بھی گفتگو کی۔اِس موقع پر وزیراعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان بارٹر ٹریڈنگ خوش آئند قدم ہے جس سے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ ہوگا۔ ا±نہوں نے نومنتخب صدر طیب اردوان کو اپنے عہدے کا حلف اٹھانے پر مبارکباد دی اور پاکستانی عوام کی جانب سے نیک تمناو¿ں کا پیغام بھی پہنچایا۔
 ترکیہ اور پاکستان کے تعلقات روزِ اوّل سے مثالی رہے ہیں؛ تاہم دونوں ممالک کے درمیان موجودہ تجارتی حجم انتہائی کم ہے جو تعلقات سے میل نہیں کھاتا۔ برادر اسلامی ملک نے ہر مشکل وقت میں پاکستان سے اپنے بھرپور تعلق کا اظہار کیا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ پاکستان کے اصولی موقف کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں حال ہی میں ہونے والی جی 20ممالک کی کانفرنس میں شرکت نہ کرکے ترکیہ نے پاکستان سے اپنے قریبی تعلق کے ثبوت کے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی بتا دیاکہ وہ متنازعہ علاقے میں اجلاس نہ کئے جانے کے پاکستانی موقف کو درست تسلیم کرتا ہے۔ترکیہ کے تباہ کن زلزلے کے بعدپاکستان نے امدادی کاموں میں بھرپور حصہ لیا جس سے وہاں کے عوام اور پاکستان کی محبت کو مزید دوام ملا۔ ماضی میں دونوں ممالک کے تعلقات اِس حد تک قریبی رہے ہیں کہ ترکیہ کی مختلف کمپنیاں پاکستان میں مختلف معاہدوں کے تحت اپنے فرائض انجام دیتی رہیں۔ ترکی کے تعاون سے پاکستان نے میٹروبس سروس شروع کی جو کامیابی سے ملک کے کئی شہروں میں رواں دواں ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ تعاون پر مبنی ”ملجم منصوبہ“ پاک ترک سٹرٹیجک پارٹنرشپ ایک اہم سنگ ِمیل ہے،اِس کے تحت جنگی بحری جہاز تیار کئے جا رہے ہیں۔ یہی نہیں ترکی کے تعاون سے لاہور میں صفائی کا جدید نظام بھی متعارف کرایا گیا؛تاہم بدقسمتی سے گزشتہ حکومت کے دوران اِن کمپنیوں کو اپنا کام بند کرنا پڑا۔ میاں شہبازشریف کے ترک صدر طیب اردوان سے گہرے ذاتی مراسم رہے ہیں اور دونوں رہنما مختلف مواقع پر ایک دوسرے سے محبت اور دوستی کا برملا اظہار بھی کرتے رہے ہیں۔ اِن کا حالیہ دورہ اگرچہ صدر اردوان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لئے تھا؛تاہم ا±نہوں نے بزنس کمیونٹی سے بھی ملاقاتیں کیں جس کے ثمرات مستقبل قریب میں نظر آئیں گے۔ موجودہ حکومت کی آئینی مدت اگست میں ختم ہو رہی ہے۔ اِن معاہدوں کو شاید وہ خود عملی جامہ نہ پہنا سکے، تاہم آنے والی حکومت کو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی روڈ میپ ضرور مل جائے گا۔ دنیا کی کامیاب ریاستوں میں جہاں دیگر خوبیاں ہوتی ہیں وہاں ایک خوبی پالیسیوں میں تسلسل ہوتا ہے کیونکہ تسلسل کامیابی میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ ایران سے گیس پائپ لائن کا معاہدہ پیپلزپارٹی کے دور میں ہوا؛تاہم آنے والی حکومتوں کے ادوار میں مختلف وجوہ کی بناءپر معاہدے کو پایہ¿ تکمیل تک نہ پہنچایا جا سکاجس کے سبب دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات میں کھچاو¿ بھی آیا؛ تاہم ایران سے تازہ معاہدوں خصوصاً بارٹر ٹریڈ کے سبب خطے میں معاشی معاملات میں بہتری کے امکانات روشن ہو رہے ہیں۔ روس، ایران، افغانستان اور پاکستان کے درمیان اشیاءکے بدلے اشیاءکی تجارت سے ان ممالک پر ڈالر کا دباو¿ کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ 
 اسلام آباد میں گزشتہ دنوں منعقدہ لیڈرز اِن اسلام آباد بزنس سمٹ 2023ءکے چھٹے ایڈیشن کے افتتاحی روز وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وزیر توانائی خرم دستگیر، سابق مشیر قومی سلامتی معید یوسف، سابق گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین اور دیگر اداروں کے سربراہان نے خطاب کیا ۔دو روزہ کانفرنس میں 55 سے زائد ملکی اور غیرملکی مندوبین نے شرکت کی۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا اس موقع پر کہنا تھا کہ پاک،چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں پاکستان کے لیے بہت سے مواقع ہیں، تاہم مہنگے قرضوں اور رشوت کے الزامات لگا کر سی پیک کو سکینڈلائزڈ کردیا گیا۔ اس کے بعد چینی کمپنیاں پاکستان سے جانا شروع ہوگئیں۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ چین کے صدر شی جن پنگ نے 100 چینی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہدایت کی ہے۔اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے 1960ءکی دہائی میں پہلا موقع گنوایا جب ہم آئندہ کا جاپان کہلاتے تھے مگر 1965ءکی جنگ کے بعد آگے نہ بڑھ سکے۔ دوسرا موقع 1991ءمیں آیا، جب سب سے پہلے ہم نے جنوبی ایشیا میں معاشی اصلاحات متعارف کرائیں اور پاکستانی معیشت کو لبرالائز اور ڈی ریگولیٹڈ کیا اور نج کاری کو اپنایا۔1990ءکی دہائی میں اقتدار کی میوزیکل چیئر کی وجہ سے ہم اصلاحات میں پیچھے رہ گئے لیکن سی پیک نے پاکستان کو تیسرا موقع فراہم کیا ہے۔ اس وقت پاکستان جہاں کھڑا ہے، کوئی ایک لیڈر، کوئی ایک پارٹی یا کوئی ایک ادارہ اگر یہ کہے کہ پاکستان کو اس دلدل سے نکال سکتا ہے تو اس کو سٹی سکین کرانا چاہیے، کیونکہ پاکستان کو اتحاد اور مشترکہ حل سے ہی ان مشکل حالات سے نکالا جاسکتا ہے، ہمیں آئندہ 25 سال کا سوچنا ہوگا۔ پاکستان کو فائیو ایز پر کام کرنا ہوگا، اگلی حکومت جو بھی آئے،اگر ا±س نے فائیو ایز پر کام کیا تو پاکستان ترقی کرے گا۔
 یہ بات بہرحال خو ش آئند ہے کہ ترکیہ کے سرمایہ دار پاکستان میں کاروبار اور سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری کے لئے ملک میں سیاسی نظام میں استحکام اوّلین شرط ہے۔ پاکستان عام انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ا±مید ہے انتخابات سے ملک میں نہ صرف سیاسی استحکام آئے گا بلکہ تازہ عوامی مینڈیٹ لے کر آنے والی حکومت کو اپنے فیصلے اعتماد کے ساتھ کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ شہبازشریف حکومت کی مدت مختصر ہونے کے باوجود ایران اور ترکیہ کے ساتھ نہ صرف پرانے تجارتی روابط اور معاہدوں کی تجدید ہوئی ہے بلکہ نئے معاہدوں اور امکانات کے در بھی کھلے ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم اپنے اقتصادی اور معاشی اہداف کو سامنے رکھتے ہوئے پالیسی میں تسلسل پیدا کریں۔ ماضی میں بھی اِس نظریے پر خاصا کام ہو چکا ہے؛ تاہم اب اِس پر یکسوئی کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہمسایہ ممالک پر نظرڈالی جا ئے تو چین، بھارت اور ایران تیزی سے اپنی معیشت کی مضبوطی اور تجارت بڑھاتے نظر آ رہے ہیں۔ چین اور بھارت کا شمار تو اب دنیا کی بہت بڑی معیشتوں میں ہوتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ پاکستانی قیادت بھی اپنے اختلافات سے باہر نکل کر پاکستان کو درپیش چیلنجوں خصوصاً معاشی مسائل سے نبٹنے کے لئے سینہ سپر ہو جائے۔ ہمیں اپنے ہمسایوں کی ترقی سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ارضِ پاکستان میں معدنی وسائل وافر مقدار میںدستیاب ہیں۔ ہمارا شمار دنیا کی بڑی اقوام میں ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنی ہر وقت جاری رہنے والی سیاسی جنگ کو پسِ پشت رکھ کر پاکستان کو سیاسی استحکام دے سکیں تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا بھر کے سرمایہ کار پاکستان کا رُخ نہ کریں۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کی جانب راغب کرکے ہی ہم ملک کو نہ صرف معاشی بحران سے نکال سکتے ہیں بلکہ کروڑوں پاکستانیوں کی زندگی میں خوشحالی اور آسودگی بھی لا سکتے ہیں۔
٭٭٭

final

مزید :

ایڈیشن 1 -