ہوا میں گولے کی رفتار آواز سے دگنی بھی ہو سکتی ہے!
تمام دن کافی رونق رہی۔ ہندوستانی آرہے تھے اور ٹروپس اَل قُبّہ (Qubba) سے گُزر رہے تھے۔ اگلی صبح مُنہ اندھیرے ہم لوگ چند ہندوستانی ٹروپس کے ساتھ ڈرنا کی سمت بڑھے اور ایک کٹے پھٹے علاقے میں ایک عمودی ڈھلان (Eecarpment) پر پوزیشن سنبھال لی۔ میں نے علاقے کی ریکی کی ،اپنی ایک ایک کمپنی کی اس کو ذمہ داری کا علاقہ الاٹ کیا اور کمپنی کمانڈروں کو گراﺅنڈ پر لے کران کی ذمہ داری کے علاقے دکھائے۔ اس کے بعد میں بٹالین ہیڈ کوارٹر کی بڑی سڑک کی طرف لوٹا۔ شوروغل اب ختم ہوچکا تھا۔ ماحول پر موت کی سی خاموشی طاری تھی۔ ہماری آخری چوکی پر اورتاحال نادیدہ دشمن کے درمیان جو علاقہ تھا اس پر ہوکا ساسماں چھایا ہوا تھا۔.... سارے پرندے خاموش ہوچکے تھے۔
دوپہر کے وقت میں نے کمپنی پوزیشنوں کا چکر لگایا۔ دیکھا کہ ایک کمپنی کمانڈر صاحب نے پہاڑی کے ایک ایسے کنٹورپرپوزیشن لے رکھی تھی اور اپنے تمام آدمیوں کو اس طرح متعین کیا ہوا تھا کہ ان کی زد میں صرف اور صرف ہماری اپنی ٹرانسپورٹ ہی آتی تھی اور بس !....میں نے اس سے سوال کیا کہ آپ کو کس سمت سے دشمن کے آنے کی توقع ہے؟ اسے اس کی کچھ خبر نہ تھی ۔ تمام قواعد وضوابط کو توڑتے ہوئے میں نے ایک عرب کو بلایا اور اس سے پوچھا “کہاں ہے دشمن ؟“اس نے خاموشی سے اپنے انگوٹھے سے اشارہ کیا۔ پھر اس طرف میری ایک گن پوزیشن پر نظر پڑی جس میں دشمن کی چھینی ہوئی ایک اطالوی ساخت کی مشین گن نصب تھی اور اس پر چار آدمی متعین تھے.... میں نے حیران ہوکر پوچھا کیا فائر کرتی ہے؟ جواب ملا ”نہیں“ ....کیا لوگوں کو اس بات کی خبر ہے ؟ “.... اس پر جواب ملا ”میرا خیال ہے لوگوں کو اس کا پتہ ہے کہ یہ فائر نہیں کرسکتی۔لیکن اس عمل سے اتنا تو ہوگا کہ لوگوں میں اعتماد بحال رہے گا کہ ان کے پاس ایک خود کا ہتھیار توہے۔ ان کا مورال اونچا رکھنے کیلئے مجھے آخر کار کچھ نہ کچھ تو کرنا چاہیے نا “ !
اس کمپنی کا حوصلہ بلند رکھنے کے لیے اب مجھے جو کچھ کرنا چاہئے تھا وہ یہ تھا کہ میں اس کمپنی کمانڈر کو اسی ڈھلان سے دھکادے کر نیچے لڑھکا دیتا۔ ....تاہم میں نے اپنے غصے کو کنٹرول کیا اور کمپنی کمانڈر کو حکم دیا کہ وہ یہ نقص دار ہتھیار اپنے کندھوں پر اٹھا کر نیچے ٹرک میں جا کر لوڈ کرے .... اس کی عمر 28سال تھی ، پرانے پبلک سکولوں کا تعلیم یافتہ تھا۔ مڈل ایسٹ ٹیکنیکل سکول سے سینئر کمانڈرز کورس میں امتیاز کے ساتھ پاس آﺅٹ ہوا تھا ۔ اس دن اس سے ایک اور گڑ بڑ بھی سرزد ہوئی۔ اور یوں اس کی فعال(Active) عسکری ملازمت ہمیشہ کے لئے ختم ہوکے رہ گئی۔
قدرت ہم پر مہربان تھی، اس روز دشمن نے حملہ نہ کیا۔ شام ہوئی تو ہم اس عمودی ڈھلان سے نیچے اترکر ڈرنا شہر کی طرف آگئے۔ کرنل صاحب آگے آگے تھے اور میں عقب میں آرہاتھا۔ ہماری ملن گاہ(RV)تمیمی (Tamimi)میں تھی۔ یہ بھی ایک کم اونچائی کی اسکارپ منٹ تھی جو طبروق سے ایک تہائی فاصلے پراور ڈرنا سے تیس میل مشرق میں واقع تھی ۔ اگلے دن ہم نے دشمن کو اسی تمیمی اسکارپ منٹ پر روکے رکھنا تھا۔
شام کے بعد جب ہم ڈرنا میں داخل ہوئے تو لاریاں آجارہی تھیں اور ٹریفک کافی تھا۔ ہماری لاریاں شہر میں داخل ہونے کی خاطر سہل ترین راستے کی تلاش میں چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹ گئیں۔ ڈرنا شہر سے جو گاڑیاں نکل رہی تھیں وہ تمام کی تمام ایک چھوٹی اور تنگ سڑک پر جمع ہورہی تھیں جو اس اسکارپ منٹ کی طرف بل کھاتی جاتی تھی۔راستے میں خاصے دشوار اور کٹھن موڑآتے تھے ۔سڑک پر گاڑیوں کا ہجوم تھا جو آہستہ آہستہ رینگ کر چند گزکے بعد لمبے لمبے وقفوں کے لیے ٹھہر جاتیں۔ ہماری ٹرانسپورٹ نہ صرف یہ کہ ہندوستانی ٹرکوں کے درمیان آگے پیچھے بٹ کر رہ گئی تھی بلکہ ان یونٹوں کے ٹرک بھی ہماری رکاوٹ بن رہے تھے جن کو ڈرناسے نکلتے ہوئے کچھ دیر ہوگئی تھی۔ بظاہراس بے ترتیب پسپائی میں کسی قسم کی افراتفری کا عالم نہیں تھا۔ ہر ڈرائیور کو یہ یقین تھا کہ وہ اپنی منزل مقصودپر ضرور پہنچے گا اور اعتماد کی یہی لہر تھی جو اس کانوائی میں اول سے آخر تک جاری وساری تھی۔ لوگوں کو معلوم تھا کہ جلد ہی یہ مسئلہ حل ہوجائیگا اور بالآخر ایسا ہی ہوا ۔
ہمارا ایڈجوٹینٹ ایک موٹر سائیکل پر سوار تھا اورہماری تقریباً بیس لاریوں کے آگے پیچھے بھاگ بھاگ کر رابطہ قائم کیے ہوئے تھا۔ یہ لاریاں دومیل کے اس راستے پرپھیلی ہوئی تھیں اور آہستہ آہستہ رینگ رہی تھیں۔ اس نے مجھے آکر بتایا کہ ہمارا آخری ٹرک جس میں گولہ بارود لدا تھا سڑک کے ایک موڑ پر پھنس گیا ہے جس کی وجہ سے تمام ٹریفک رک گئی ہے.... میں موقع پر پہنچا ۔ دیکھا تو ٹرک کا کلچ ٹوٹ چکا تھا۔ اسے ٹو(Tow) کرنے کی کوشش کی گئی ، لیکن ایک تو ٹرک خاصا وزنی تھا دوسرے چڑھائی بھی تھی۔ اب کیا کیا جائے ؟.... اس ایک ٹرک کی وجہ سے پیچھے آنے والے سینکڑوں ٹرک رکے کھڑے تھے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اسے لڑھکا کر نیچے کھائی میں پھینک دیا جائے۔ آگے پیچھے کے ٹرکوں سے کچھ آدمیوں اور ڈرائیوروں کی مدد سے ہم نے ٹرک کو دھکیل کر سڑک کی منڈیر سے نیچے لڑھکا دیا۔ ٹرک جب اس عمودی گھاٹی سے نیچے گراتو نوکیلی چٹانوں اور پتھریلے تودوں سے ٹکرا ٹکرا کر بارود میں آگ لگ گئی اور آتش بازی کا سماں بندھ گیا۔ جب یہ ٹرک نیچے زمین کی ہموار تہہ پر گر کر رکاتو دھماکوں اور شعلوں کا ایک ”دلکش “منظر پیدا ہوگیا۔ کسی نے بھی اس پر زیادہ توجہ نہ دی ، لیکن میرے ٹروپس نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور اس طرح ٹریفک پھر آگے بڑھنا شروع ہوگئی۔ مجھے بعد میں بتایا گیا کہ ڈرنا سے ایک بدنام جاسوس کو پکڑ کر اس دن اسی ٹرک میں سوار کیا گیا تھا۔ یہ شخص دشمن کے کیمپ میں جاتا دیکھا گیا تھا اور اسے رنگے ہاتھوں گرفتار کرکے اس ٹرک پر سوار کردیا گیا تھا۔ جب اس ٹرک کو نیچے لڑھکایا گیا تو وہ بھی اس میں ”محوخواب “تھا....
ہم اس اسکارپ منٹ کو عبور کرکے اوپر کی سطح مرتفع (پلیٹو)پر پہنچے جہاں سے ہم نے ایک نسبتاً کھلی سڑک کے ساتھ ساتھ چل کر تمیمی پہنچنا تھا ۔ میری نظر رہ رہ کر رفتار پیما (Speedo Meter) کی طرف اٹھ رہی تھی کہ مباداہم تیز جارہے ہوں۔ رات کافی اندھیری تھی اور تمیمی ایک چھوٹی سی جگہ تھی جو اس پتھریلے ریگستان میں خاص نمایاں نہیں تھی۔ سڑک کے کنارے ایک مدھم سی لائٹ نظر پڑی۔ میں نے گاڑی روکی تو خوش قسمتی سے ایک انجینئر دوست نظر پڑا۔ اس نے بتایا کہ ہماری ملن گاہ اس مقام سے ڈھائی میل دور اگلی چڑھائی پر ہے۔ وہاں پہنچے تو ہمارے کرنل صاحب وہاں کھڑے تھے اور ان کے ساتھ انڈین سپاہ کے چند اور افسر بھی تھے۔ یہ لوگ ہر آنے والی گاڑی کوٹارچیں دکھا دکھا کر ان کے لیگرز (Leaguers)کی نشان دہی کررہے تھے.... کرنل صاحب نے ہماری پارٹی کی بھی راہنمائی کی اور اس طرح ہماری ساری کمپنیاں بمعہ ہیڈ کوارٹر کمپنی، مقام اتصال (Marrying Up Point) پر پہنچ گئیں۔ لیکن ایک کمپنی باقی تھی۔.... وہی کمپنی جن کے کمپنی کمانڈر صاحب نقص دار ہتھیار لوگوں کو دے دے کر ان کا مورال اونچا کرنے کے عادی تھے اور جن کا ذکر قبل ازیں کر چکاہوں ۔ میں دوبارہ سڑک پرواپس آیا اور اس کمپنی کا انتظار کرنے لگا۔ صبح چار بجے انڈین افسروں نے اپنی یونٹ لسٹیں چیک کیں۔ تمام لوگ پہنچ چکے تھے۔ پھر صبح ہوگئی ، لیکن لیبین (Libyan) سپاہیوں کو نہیں آنا تھا ،نہ آئے۔ ظاہر ہے وہ دشمن کے نرغے میں پھنس گئے تھے یا پھر رات کی تاریکی میں مقام اتصال سے آگے نکل گئے تھے۔ امکان یہ تھا کہ ملن گاہ سے آگے نکل کر انہوں نے اپنی غلطی کا احساس کیا ہوگا تو رک گئے ہوں گے اور سڑک کے کنارے کسی جگہ خیمہ زن ہوگئے ہوں گے۔ خیال یہ تھا کہ جب دن چڑھے گا تو یہ لوگ واپس تمیمی پہنچ جائیں گے ، لیکن ایسانہ ہوا۔ ان کا کمانڈر دراصل کمپنی کو لے کر طبروق نکل گیا تھا ۔ ملاقات پر اس نے بتایا کہ تمیمی سے آگے نکل کر جب اسے اپنی کو تاہی کا احساس ہوا تو اس نے سوچا اب واپس کیا جانا ہے، کیوں نہ طبروق چلاجائے.... اب 30 میل کی جگہ 90 میل تک نکل جانا کہاں کی دانش مندی تھی!.... اس کا یہ استد لال بھی تھا کہ جب سب قافلے نے بالآخر طبروق پہنچنا ہے تو پھر کیوں نہ ایک ہی جست میں یہ فاصلہ طے کرلیا جائے! اب مجھے خیال آرہا ہے کہ اس نے شاید عمداً لڑائی سے اعراض نہیںکیا تھا بلکہ اپنے نیم پاگل پن میں اس امر کو بالکل فراموش کردیا تھا کہ اسے کوئی ملن گاہ بھی تفویض کی گئی تھی ۔ سو وہ بگٹٹ چلتا چلا گیا تاآنکہ طبروق نظر پڑا اور اس نے باگیں کھینچ لیں۔
سورج چڑھا تو تمیمی پرگردوغبار کی دبیزتہہ چھاگئی۔ متحرک گاڑیوں پر غبار کی تہہ اور ان کے اوپر دھوئیں کے سیاہ بادل تھے،تمیمی کا وسیع لینڈنگ گراﺅنڈ تھا۔ اسے اور نیز مختلف سٹوروں اور گوداموں (Dumps)کی ایک معتدبہ تعداد کو انخلا، (Evacation)سے پہلے برباد کرنا تھا۔ سپاہیوں کی ایک بڑی تعداد چلنے کی تیاری کررہی تھی۔ رائل ایئرفورس کے بڑے بڑے ٹریلر بھی ہمراہ تھے۔ مخالف سمت سے انڈین ڈویژن کی مدد کے لیے فیلڈ گینں چلی آرہی تھیں۔ چونکہ اب میدانی علاقہ سامنے تھا اور سڑک کا سوال نہیں تھا، اس لیے گاڑیاں اور لوگ مختلف سمتوں سے نکلے چلے جارہے تھے ۔ اس گردوغبار میں دھندلے ہیولوں کے سوا اور کچھ نظر نہیں آرہا تھا جو کچھ لمحوں تک نظروں کے سامنے رہتے اورپھر غائب ہوجاتے۔ لیکن فجر کی اس ساعت میں ساکت ہواﺅں کے دوش پر دور چلنے والے ہیولوں کی آواز نہایت صاف سنائی دے رہی تھیں اور اس وسیع وعریض میدان پر ایک نوع کی خوشگوار مقصدیت کاراج تھا۔
دوپہر ہوئی تو ہراول صفوں کا متوقع سکون ایک بار پھر فضا پر مسلط ہوگیا۔ ہمارے دوست، دشمن کے حملے سے ہمیں بچانے کے لیے ہم سے الگ ہوگئے۔ سمندر سے شروع ہوکر دور پہاڑیوں تک ایک وسیع اسکارپ منٹ پھیلی ہوئی تھی۔ عمودی ڈھلانوں کا یہ سلسلہ ساحل سمندر اور سڑک پر عمودی انداز سے پھیلتا چلا گیا تھا۔ ڈھلان کے بالائی حصے پر انڈین گاڑیاں، ہماری ٹرانسپورٹ اور ڈویژنل آرٹلری رواں دواں تھی۔اور دوسری جانب زیریں حصے پر ٹروپس نے خندقیں کھود کر پوزیشنیں لے رکھی تھیں۔ ان کے بالکل سامنے خالی میدان تھا جواُفق تک پہاڑیوں کی صورت میں بتدریج بلند ہوتا چلا گیا تھا اور بل کھاتی سڑک کے ساتھ ساتھ حد نظر تک پھیلا ہوا تھا۔
ہم نے باقی ماندہ لیبین کمپنیوں میں سے ایک کمپنی کو ایک تنگ اور نرم ریت کے کم اونچے ٹیلے کے دفاع پر مامور کیا اور میں خود کیپٹن سٹیورٹ (Stewart)کے ساتھ جا ملا کہ جو 1/1 پنجاب رجمنٹ کی ایک کمپنی کی کمان کر رہاتھا۔ جب میں نے اس کے آزمودہ کارسپاہیوں کو ایکشن میں دیکھا تو میری روح تازہ ہو گئی۔ اب دوپہر ڈھل چکی تھی اور میدان کے زیریں حصے پر سے دھنداور گرد بھی صاف ہو گئی تھی۔ اسکارپ منٹ کے ایک سرے پر کھڑے ہو کر میں نے نیچے نظریں دوڑائیں تو قطار اندر قطار ہندوستانی سپاہی نظر پڑے۔ یہ لوگ سامنے اس مقام پر متعین کئے گئے تھے جس کا فاصلہ چار پانچ میل بنتا تھا اور جہاں دشمن کے آ نکلنے کا غالب امکان تھا۔
اس روز تمیمی میں نہ جرمنوں کے پاس اور نہ ہی ہمارے پاس کوئی جہاز تھا۔ لہٰذا دونوں اطراف سے میدانی علاقے میں ہی ریکی کی کوششیں ہوتی رہیں۔ میں اس سکارپ منٹ کی چوٹی پر اس دیوتا کی طرح بیٹھا تھا جو چپ چاپ سب کچھ دیکھ رہا ہو۔ اس مقام سے نہ صرف یہ کہ لڑائی کی تمام نقل و حرکت کا مشاہدہ کیا جا سکتا تھا بلکہ یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا تھا کہ دونوں جانب کے کمانڈروں کے دماغ میں کیا منصوبے بن رہے ہیں۔ اپنی عسکری زندگی میں صرف یہی ایک موقع ایسا تھا، جس میں فرنٹ لائن پر بیٹھ کر میں لڑائی کی تمام تفصیلات کو روبہ عمل آتے دیکھ رہا تھا۔ کوئی بھی سپاہی جو کسی لڑائی میں شریک ہو ماسوائے ایک چھوٹے سے سیکٹر کے باقی تمام کارروائیوں کو صرف نگاہ تصور سے مشاہدہ کر سکتا ہے۔ یا پھر دور ہیڈ کوارٹروں میں بیٹھ کر نقشوں اور پیغامات کی مدد سے عمومی صورت حال کا ایک نقش ذہن کی سکرین پر ابھار سکتا ہے۔ یہ نقش لڑائی کی داستان سنا تو سکتا ہے لیکن دکھا نہیں سکتا۔ اور وہ بھی بالواسطہ اور سکینڈ ہینڈ! لیکن نجانے کیوں، میں تمیمی میں اس تمام صورت حال کا براہ راست مشاہدہ کرنے کے باوجود بھی اس لڑائی میں ایک گہرے تصنع کا احساس کر رہا تھا۔
کوئی دو بجے کا وقت ہو گاجب ہماری طرف کے میدانی علاقے سے پانچ مشین گنوں کے برسٹ سنائی دیئے۔ دور پہاڑیوں کے سلسلے میں سے ہماری تین بکتر بند گاڑیاں نمودار ہوئیں اور آہستہ آہستہ ہماری طرف والی ڈھلان کی جانب آتی دکھائی دیں۔ ٹھیک اس جگہ سے کہ جہاں سے گاڑیاں نکلی تھیں ایک جرمن بکتر بند گاڑی پر لی طرف جاتی نظر پڑی۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ دونوں جانب کے رسالے کے گشتی دستوں کا ملاپ عمل میں آ چکا ہے۔ فائر کا تبادلہ ہو چکا ہے اور یہ دونوں گشتیں اپنے اپنے علاقوں میں جو کچھ ہوا تھا اس کی رپورٹ دینے جا رہی تھیں۔ اسکارپ منٹ کے دامن میں ہماری آخری گاڑی رک گئی۔ معلوم ہو رہا تھا کہ اس گاڑی کا عملہ باہر نکل کر سڑک پر بارودی سرنگیں لگا رہا ہے۔ اس کے بعد یہ گاڑی دوسری دونوں گاڑیوں سے جاملی اور میری دائیں جانب سے ہوتی ہوئی سڑک کے کنارے کے ساتھ ساتھ چل کر میرے عقب میں غائب ہو گئی۔ آدھ گھنٹے تک خاموشی رہی۔ اس کے بعد کچھ جرمن گاڑیاں دور رینگتی نظر آئیں اور علاقے کے خم و پیچ میں گم ہو گئیں، دس منٹ کے بعد مزید گاڑیاں اس سمت بڑھیں، اس کے بعد پھر آدھ گھنٹے تک خاموشی رہی، پھر ایک گولہ ہمارے سروں پر سے گزرا اور میرے عقب میں گردو و غبار اور دھوئیں کا بادل اٹھا گیا۔ کچھ لمحوں کی خاموشی ....پھر آہستہ سے ہماری فیلڈ گنوں کی تین گولوں کی گرج .... لڑائی جا ری تھی۔ لیکن وقفوں وقفوں کے شور کے سوا کوئی خاص کارروائی نہیں ہو رہی تھی۔ اپنی اپنی چٹانوں کے عقب میں ہندوستانی سپاہی اپنی پوزیشنوں میں بیٹھے اپنی نازک، باریک اور میٹھی میٹھی آوازوں میں خوش گپیاں کر رہے تھے۔ایسا کرتے ہوئے بعض اوقات ان کے سفید دانت جھلک جھلک جاتے۔
بڑی احتیاط سے جرمن گاڑیوں نے ہماری طرف بڑھنا شروع کیا۔ بل کھاتے راستوں پر کبھی یہ نظروں سے اوجھل ہو جاتیں اور کبھی نظر آنے لگتیں۔ ان کے ارد گرد، گردو غبار کے مرغولے اٹھتے تھے۔ لیکن وہ ان سے بے نیاز آگے بڑھتی رہیں۔ تقریباً پونے چار بجے ایک مختلف قسم کی آواز سنائی دی۔ پہلے یہ آہستہ تھی لیکن بعد میں بتدریج تیز اور بلند ہوتی چلی گئی۔ وہ ڈھلانیں جہاں ہمارے سپاہی پوزیشنوں میں تھے ان پر گولے گرنے شروع ہوئے۔ ہر برسٹ سے ایک خشک اور تیز سی آواز نکلتی ، جرمن اب اپنے مارٹر ہماری پوزیشنوں کی رینج میں لے آئے تھے۔وہ زیریں ڈھلان پر تھے اس لئے بالائی حصے کو درست طرح نہیںدیکھ سکتے تھے اور لگا تار فائر کر رہے تھے۔ ہماری مارٹروں کی رینج دشمن سے کم تھی لہٰذا ہندوستانی انفنٹری کے پاس کرنے کو کچھ نہ تھا۔ سووہ بدستور گپ شپ کرتے رہے۔ ہماری فیلڈ گنوں نے فائر شدید کر دیا تھا اور دشمن کی تلاش میں تھیں۔
معاً میں نے مڑ کر دیکھا تو میری آثار قدیمہ والی ”پیشاب دانی“ سے دھوئیں کا بادل اٹھ رہا تھا۔ یہ مقام میرا بٹالین ہیڈ کوارٹر تھا اور جس جگہ میں کھڑا تھا اس سے پانچ سو گز دور تھا۔ میں مزید جاننے کے لئے پیچھے کی طرف چلا ۔گولہ باری اتنی شدید نہ تھی بلکہ میں تو اسے کیف آور پا رہا تھا۔ برسٹوں سے بچ بچا کر کر میں آگے بڑھ رہا تھا اور ایسا کرتے ہوئے مجھے ایک عجیب قسم کا سرور آ رہا تھا.... کیوں نہ آتا؟.... اس جنگ میں، میں پہلی بار گولہ باری کی زد میں آیا تھا!
میری کار کو گولے کے چند ٹکڑے لگے تھے۔ لیکن نہ تو اسے اور نہ ہمارے ان افسروں اور جوانوں کو کہ جو اس کے ارد گرد چھوٹی چھوٹی خندقوں میں مورچہ زن تھے، کوئی نقصان پہنچا۔ ہمارے کرنل صاحب بھی شاید زندگی میں پہلی بار فائر کی زد میں آئے تھے۔ انہوں نے مجھ سے سوال کیا” اس قسم کے فائر کو تم کیا نام دو گے؟“ ”ہلکا اور کبھی کبھی“ میں نے جواب دیا.... اس کے بعد وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے ارد گرد بڑے جوش و خروش سے نگاہ دوڑانے لگے۔ جب بھی کسی فائر کی آواز آتی، لوگ اپنی اپنی خندق میں دبک جاتے۔ میں ادھر ہی بیٹھ گیا اور خاصی تفصیل سے ان کو شعلے اور گرج کے درمیانی تعلق پر لیکچر دینا شروع کر دیا۔ میں نے بتایا کہ آواز بہت آہستہ حرکت کرتی ہے۔ ہوا میں گولے کی رفتار آواز سے دگنی بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن نظر آنے والی چیزیں بیک وقت دکھائی دیتی ہیں۔ ان مختلف رفتاروں کے سبب کسی بھی لڑائی کے اجزاءکی ترتیب کا سلسلہ الٹ پلٹ سکتا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی گن آپ پر فائر کرے اور اس کا گولہ آپ سے کچھ فاصلے پر ادھر آ گرے تو واقعات (وقوع پذیر ہونے والے اجزائ) کی ترتیب کچھ اس طرح ہو گی:
-1 گولہ نکلتے وقت توپ کی نالی پر شعلہ................ دکھائی دے گا۔
-2 جب زمین پر گولہ گرے گا تو پھٹنے کی چمک........ .... .... دکھائی دے گی۔
-3 گولہ پھٹنے کی چیخ ................ سنائی دے گی۔
-4 ہوا میں گولے کی چیخ ................سنائی دے گی۔
-5 گن سے گولہ نکلنے کی آواز ........سنائی دے گی۔
(جاری ہے)