لوئیس ایکس ماضی میں گلوکار تھا اس نے ہماری قوم کے لیے پہلا مقبول گیت لکھا جس کا مکھڑا تھا”سفید فام کی جنت سیاہ فام کے لیے جہنم ہے۔“

  لوئیس ایکس ماضی میں گلوکار تھا اس نے ہماری قوم کے لیے پہلا مقبول گیت لکھا جس ...
  لوئیس ایکس ماضی میں گلوکار تھا اس نے ہماری قوم کے لیے پہلا مقبول گیت لکھا جس کا مکھڑا تھا”سفید فام کی جنت سیاہ فام کے لیے جہنم ہے۔“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف: میلکم ایکس(آپ بیتی)
ترجمہ:عمران الحق چوہان 
قسط:111
 اسٹیج کے اوپر ایلیا محمد کی کرسی کے پیچھے پانچ چھ قطاروں میں ہم وزراء کی نشستیں ہوتیں تھیں کچھ وزراء سینکڑوں میل کا سفر کرکے یہاں پہنچتے تھے۔ ہم سب ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے اور ”السلام و علیکم“ کہتے۔ پرانے وزراء کے ساتھ ساتھ بہت سے نئے وزراء سے بھی ملاقات ہوتی۔ ولبرٹ اور فلبرٹ دونوں علی الترتیب ڈٹیرائٹ اور لانسنگ کے معبدوں کے وزیر تھے۔ ایلیامحمد کا صاحبزادہ والس محمد، فلاڈیلفیا کے معبد کا وزیر تھا۔ کچھ وزراء کا ماضی بہت غیر معمولی تھا مثلاً واشنگٹن ڈی سی کے معبد کا وزیر”نوسی اس“ اس سے قبل ”سیونتھ ڈے ایڈوینٹسٹ“ تھا اور بتیسویں درجے کا ”میسن“ تھا۔ کیم ڈن، نیوجرسی کا وزیر جارج ایکس پتھالوجسٹ تھا وزیر ڈیوڈ ایکس قبل ازیں رچمنڈ، ورجینیا کے عیسائی گرجا گھر کا وزیر تھا اس کے ساتھ اس کے حواریوں کی اتنی بڑی تعداد مسلمان ہوئی کہ اکثریت کی بنیاد پر گرجا کو معبد میں بدل دیا گیا۔ بوسٹن کے ایک معبد کا نمایاں وزیر لوئیس ایکس ماضی میں ”دی چارمر“ کے نام سے مقبول اور ابھرتا ہوا گلوکار تھا اور اس نے ہماری قوم کے لیے پہلا مقبول گیت لکھا جس کا مکھڑا تھا”سفید فام کی جنت سیاہ فام کے لیے جہنم ہے۔“ لوئیس ایکس ہی نے ہمارے لیے پہلا ڈرامہ لکھا جس کا عنوان تھا”اورگینا(Orgena)“ جو دراصل ”اے نیگرو“ کے الٹے ہجے تھے۔ یہ ایک مقدمے کی روداد تھی جس میں ایک علامتی سفید فام کے غیر سفید فاموں کے خلاف عالمی جرائم کو موضوع بنایا گیا تھا۔ سفید فام کو مجرم قرار دیا جا کر سزائے موت سنائی جاتی ہے، وہ سیاہ فاموں کے لیے کیے گئے کارنامے بیان کرتا ہے لیکن سیاہ فام اسے گھسیٹتے ہوئے لے جاتے ہیں۔
 چونکہ زیادہ تر معبد میرے قائم کردہ یا منظم کردہ تھے اس لیے ان بھائی وزراء کودیکھ کر مجھے ابتدائی مشکلات یاد آ جاتیں جن کا موازنہ میں موجودہ صورتحال سے کرتا تو اسے اللہ کی قوت قرار دیتا اور مجھے ایلیا محمد کا فرمان بالکل درست معلوم ہوتا کہ ابتدائی قربانیوں کے دور میں انہیں اللہ کی طرف سے بذریعہ کشف لوگوں کی بہت سی تعداد دکھائی جاتی جو ان کی تعلیمات سن رہے ہوتے تھے۔ ایلیا محمد کا کہنا تھا کہ سفید فام کی قید کے دنوں یہی کشف تھے جو انہیں حوصلہ بخشتے تھے۔
 جب قوم اسلام کے قومی سیکرٹری جان علی یا بوسٹن معبد کے وزیر لوئیس ایکس مائیکرو فون سنبھالتے تو سارے میں خاموشی چھا جاتی اور یہ برادران سیاہ فام سامعین کے سامنے ایک نئی دنیا پیش کرتے جس کا نام ”قوم اسلام“ تھا۔ ”بہن ٹائی نیٹا ڈائی نیئر“ مسلم خواتین کے مؤثر اور اہم کردار کو اجاگر کرتی اور ہماری قومی جدوجہد میں امریکی سیاہ فاموں کی جسمانی، ذہنی، اخلاقی سماجی اور سیاسی حالت سدھارنے میں مسلم عورتوں کی اہمیت بیان کرتی۔
 اس کے بعد میں مائیکرو فون پر آتا تاکہ سامعین کو ایلیا محمد کے خطاب کے لیے تیار کروں۔ میں ہاتھ اٹھ کر کہتا ”اسلام علیکم“ جواباً مسلم نشستوں سے ”وعلیکم السلام“ کی گونج سنائی دیتی اس کے بعد میں گفتگو شروع کرتا:
 ”میرے سیاہ فام بھائیو اور بہنوں! آپ کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں یا کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والے ہوں ہمارے بیچ ایک عظیم اور اٹوٹ رشتہ ہے۔۔۔ ہم سب سیاہ فام ہیں۔ میں جناب ایلیا محمد کی عظمت بیان کرنے میں زیادہ وقت صرف نہیں کروں گا۔ وہ پہلے اور واحد سیاہ فام رہنما ہیں جنہوں نے میرے اور آپ کے دشمن کو شناخت کیا ہے۔ عزت مآب ایلیا محمد وہ پہلے سیاہ فام راہ نما ہیں جنہوں نے ہمیں سرعام وہ سچائی بتانے کی جرأت کی ہے جسے ہم سیاہ فام زندگی بھر سنتے، دیکھتے اور سہتے چلے آئے ہیں یعنی۔۔۔
ہمارا دشمن سفید آدمی ہے!۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -