سند ھ کے دیہاتی علاقوں میں تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی، دیہی سندھ بہت پیچھے رہ گیا تھا،وہاں غربت بہت گہری تھی، وڈیرے ظلم کی حد تک اپنا دباؤ قائم رکھتے

سند ھ کے دیہاتی علاقوں میں تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی، دیہی سندھ بہت پیچھے رہ ...
سند ھ کے دیہاتی علاقوں میں تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی، دیہی سندھ بہت پیچھے رہ گیا تھا،وہاں غربت بہت گہری تھی، وڈیرے ظلم کی حد تک اپنا دباؤ قائم رکھتے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:134
سندھی 
صوبہ سندھ کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہونے کے باوجود کراچی میں سندھی باشندوں کی تعدادحیرت انگیز طور پر بہت ہی کم تھی۔ اس کی کئی وجوہات تھیں، جن کا ذکر آگے چل کر آئے گا۔
اندرون سندھ سے نقل مکانی کرکے بھی بہت ہی کم تعداد میں سندھی باشندے روزگار کی تلاش میں کراچی آتے تھے۔ ان کی پہلی ترجیح سندھ کے بڑے شہر حیدرآباد اور سکھر وغیرہ ہی تھے۔فطرتاً سندھی باشندے اپنے آبائی علاقے سے بڑی محبت کرتے تھے اس لیے وہاں سے کہیں دوسری جگہ جانے پر کم ہی آمادہ ہوتے۔ اکثر وہ دیہاتی علاقے کے وڈیروں اور بڑے زمینداروں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے تھے اور ان کے چنگل میں اس بری طرح پھنس گئے تھے کہ ان کی مرضی کے خلاف گھر سے ہل بھی نہیں سکتے تھے۔یہ وڈیرے ان کے ذاتی معاملات میں بھی دخل اندازی کرکے ظلم کی حد تک ان پر اپنا دباؤ قائم رکھتے۔ نقل و حمل کے رابطوں کا بھی فقدان تھا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کو وہاں اپنے وڈیروں کی مرضی سے ہی چلنا پڑتا تھا۔جو نہیں چاہتے تھے کہ وہاں تعلیم عام ہو۔اسی لیے وہ اپنے علاقے میں اسکول بھی نہیں کھلنے دیتے تھے اور نہ ہی سڑک بننے دیتے تھے کہ کہیں یہ لوگ تعلیم یافتہ ہو کر یا دوسرے شہروں سے آنے والے باشندوں سے میل ملاپ کرکے اپنے سلب کیے گئے حقوق کے بارے میں نہ جان جائیں۔ یہی وجہ تھی کہ سندھ کے دیہاتی علاقوں میں تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی اور یوں دیہی سندھ اس میدان میں بہت پیچھے رہ گیا تھا۔وہاں غربت بہت گہری تھی۔ زیادہ تر لوگ وڈیروں کے کھیتوں میں مزدوریاں کرتے تھے جس سے ان کو سال بھر کا اناج اور کچھ نقد رقم مل جاتی تھی۔وڈیرے اس بات سے بھی خوف زدہ رہتے کہ اگریہاں پڑھائی لکھائی کا چلن عام ہو گیااور لوگ اعلیٰ تعلیم کی خاطر بڑے شہروں میں گئے تو وہاں کے لوگوں کے رہن سہن کو دیکھ کر اور ان کے ساتھ اپنا تقابلی جائزہ لینے میں کہیں ان کو اپنی پس ماندگی کا ادراک نہ ہو جائے اور وہ وڈیرہ شاہی کے خلاف نہ اٹھ کھڑے ہوں۔ خود ان زمین داروں کی ہزاروں لاکھوں ایکڑ زرعی زمینیں ہوتی تھیں، جہاں سے ان کو گھر بیٹھے ان ہی ہاریوں کی محنت اور مشقت کی بدولت کروڑوں روپے کی آمدنی آجاتی تھی۔ کراچی میں ان سندھی وڈیروں اور سیاست دانوں نے اپنے خوب صورت بنگلے بنوا رکھے تھے اور ان میں سے اکثر یہیں رہا کرتے تھے۔ ان کے اپنے بچے کراچی یا لاہور کے بہترین نجی تعلیمی اداروں میں داخلے حاصل کرتے اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے غیر ملکوں کا رخ کرتے تھے۔دوسری طرف کراچی کے سرکاری اور نجی سکولوں اور کالجوں میں سندھی طالب علموں کی ایک مختصر سی تعداد ہوتی تھی۔ ان میں سے بھی اکثر ان سرکاری ملازمین کے بچے ہوتے جن کی تعیناتی کراچی میں ہوتی تھی۔
 کراچی میں سرکاری اور غیرسرکاری ملازمتوں میں سندھی نہ ہونے کے برابر تھے۔ اس وقت کوٹا سسٹم نہیں ہوتا تھا۔ سب نوکریاں میرٹ یا سفارش پر ہی دی جاتی تھیں۔  زیادہ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے اچھی ملازمتیں اردو بولنے والے یا پنجاب سے آئے ہوئے لوگوں کو ہی مل جاتی تھیں کیونکہ دیہی سندھ تعلیم میں بہت پیچھے رہ گیا تھا جس کی وجہ سے نوجوانوں میں اعتماد کا فقدان بھی تھا۔
سندھی بھی بہت امن پسند لوگ تھے اور لڑائی جھگڑے سے کوسوں دور بھاگتے تھے۔ دوسری قومیتوں کی طرح وہ بھی اپنے لوگوں میں بہت خوش رہتے تھے۔ تعداد کم ہونے کی وجہ سے ان کی کوئی مخصوص رہائشی کالونی وغیرہ نہیں ہوتی تھی۔ اکا دکا گھر عام محلوں میں ہی ہوتے تھے اور سب کے ساتھ خلوص اور بھائی چارگی کے ساتھ رہتے تھے۔ 
 سندھی باشندوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی اپنے اپنے میدانِ عمل میں بڑا نام پیدا کیا اور انہیں ملک بھر میں عزت و احترام سے نوازا گیا، ان میں عظیم اساتذہ کرام، مصنف،نقاد، شاعر، فلسفی، سیاست دان، ماہرین اقتصادیات، سکالرز، ڈاکٹر، موسیقار، گلوکار،اداکار، کھلاڑی اور عدلیہ سے متعلق افراد شامل ہیں۔ان کی فہرست ہی اتنی طویل ہے کہ اس باب میں ان کا احاطہ کرنا بہت مشکل ہے۔ ویسے بھی سندھی دانشور طبقے کے افراد زیادہ تر اندرون سندھ میں ہی مقیم رہے اور ان کا کراچی آنا جانا ذرا کم کم ہی رہا۔ 
 (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -