شاعر مشرق کو انجماد، بے عملی اور بے حسی سے نفرت ہے وہ زندگی جس میں انقلابات نہ ہوں حادثات سے دو چار نہ ہو ان کے نزدیک موت ہے

مصنف: جمیل اطہر قاضی
قسط:45
یہی نہیں بلکہ اگر ان کے مختلف عقائد و نظریات کا بھی ایک ایک کرکے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کی شاعری کے ہر نظرئیے میں شدت ِآرزو، ہنگامہ آرائی اور خارا شگافی پائی جاتی ہے۔ کشودِ حیات اور تسخیر کائنات کے خیالات ہی کو لیجئے۔ ان افکار میں فرسودگی و کہنگی کی شکست و ریخت، ٹکڑانے اور درہم برہم کرنے کی آرزو چھا جانے کی ایک شدید امنگ ہر جگہ نمایاں ہے۔ اسیلائے شوق حیات اس قدر ہے کہ ان کے لہجہ میں قاہرانہ اندازِ بیان پیدا ہو جاتا ہے۔ ان کی ہمت مردانہ حیات و کائنات تو کیا خود خالق ہستی کو اپنی کمندیں لانا چاہتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ امتیاز بھی باقی نہ رہتا کہ وہ اپنے خالق سے مخاطب ہیں جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کے ہاں خدا تعالیٰ کا تصور جابرانہ و قاہرانہ اورآقا و غلام کا نہیں بلکہ دوستانہ و رفیقانہ ہے۔ اس لئے وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں۔
شام و سحرِ عالم از گردشِ ما خیزد
دانی کہ نمے سازد ایں شام و سحرِ ما را
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طرح نو افگن کہ ماجدت پسند افتادہ ایم
ایں چہ حیرت خانہ امروز و فردا ساختی
چنانچہ ان کے عزم تسخیر کی قوت، پیش قدمی اور اقدام کو ان اشعار میں ملاحظہ فرمائیے۔
در دشتِ جنونِ من جبریلؑ زبوں صیدے
یزداں بکمند آور اے ہمتِ مردانہ
حدیثِ بے خبراں ہے ”تو بازمانہ بساز“
زمانہ با تو نسازو تو با زمانہ ستیز
بانشہ درویشی درساز و دمادم زن
چوں پختہ شوی خود را برسلطنتِ جم زن
گُفتند جہانِ ما آیا بتو سازد
گُفتم کہ نمی سازد گُفتند کہ برہم زن
مندرجہ بالا اشعار کے قوانی اور ردیف سے جو جوش و خروش اور صوتی لب و لہجہ پیدا ہوتا ہے۔ وہ قابلِ غور ہے۔ اس سے اقبال کے لہجے کا قاہرانہ پہلو واضح انداز میں سامنے آجاتا ہے۔
شاعرمشرق کی شاعری میں انقلاب و تغیر کی شدید خواہش نے بھی ان کی لے کو پُر زور بنا دیا ہے۔ وہ ہر وقت نئے طور پر اور نئی برق تجلی کے شوق میں سرگرداں رہتے ہیں۔ انجماد، بے عملی اور بے حسی سے انہیں نفرت ہے وہ زندگی جس میں انقلابات نہ ہوں جو حادثات سے دو چار نہ ہو ان کے نزدیک موت ہے۔
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روحِ اُمم کی حیات کشمکشِ انقلاب
ان کے نزدیک مسلسل جہد حیات ہی زندگی کی دلیل ہے۔ وہ کسی مقام پررکتے نہیں بلکہ مسلسل بڑھے چلے جاتے ہیں۔ اسی ارتقاء اور انقلاب و تغیر کی وہ تعلیم دیتے ہیں۔ ان کے درس بیداری میں پیغام کا عُنصر بڑی بلند آہنگی سے ظاہر ہوتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک شخص جنگی نقارے کو پیٹ رہا ہے اور چِلّا چِلّا کر لوگوں کو ہوشیار کررہا ہے یا کسی کے گھر کو آگ لگ گئی ہے اور وہ زور و شور سے لوگوں کو شکار رہا ہے۔
اے غنچۂ خوابیدہ چہ نرگسِ نگران خیز
کاشانۂ ما رفت یہ تاراجِ خزان خیز
از نالۂ مرغِ چمن، از بانگِ اذان خیز
از گرمئی ہنگامۂ آتشِ نفساں خیز
از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز
از خوابِ گراں خیز
اے مسلمانان فغاں از فتنہ ہائے علم و فن
اہرمن اندر جہاں ارزاں و یزداں دیریاب
انقلاب، انقلاب، اے انقلاب!!
من درونِ شیشہ ہائے عصرِ حاضرہ دیدہ ام
آں چناں زہرے کہ از وے مارہا درپیچ و تاب
انقلاب، انقلاب، اے انقلاب!!
چوں نظر قرار گیرد بہ نگار خوب روئے
تپد آں زمان دل من پئے خوب تر نگارے
زشرر ستارہ جوئم زستارہ آفتابے
سر منزلے ندارم کہ بمیرم از قرارے
ان کے نظریۂ عشق کی قلندرانہ اور رندانہ بے نیازی کا پہلو بھی کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے کہ عشق ان کے ہاں خود شناسی اور توانائی کا سر چشمہ ہے جس کا اثر ان کے لہجے پر بھی ہوا ہے۔ فقرو قلندری نے ان کے اندر حقائق شناسی اور حق آگاہی کی شان پیدا کر دی ہے جس کا اظہار ان کے کلام میں بار بار ملتا ہے۔ اس زندانۂ بے نیازی میں مردِ مومن کے اوصاف بھی نظر آتے ہیں وہی جرأت ِرندانہ اور بڑی سے بڑی چیز کو بھی خاطر میں نہ لانا اپنے طرزِ عمل پر یقین و اثبات اور مکمل اعتماد جو ان کے لہجے میں بھی نمایاں ہے۔
لادینی ولاطینی کس پیچ میں الجھا تو
دارو ہے ضعیفوں کا لاغالب الا ھو
صیاد ہے کافر کا نخچیر ہے مومن کا
یہ دیر کہن یعنی بت خانۂ رنگ و بو
( جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)