بجٹ عوام دشمن اور آئی ایم ایف کی شرائط پر مبنی مالیاتی منصوبہ ہے : ناصرہ عبادت

    بجٹ عوام دشمن اور آئی ایم ایف کی شرائط پر مبنی مالیاتی منصوبہ ہے : ناصرہ ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

                                                                        پشاور(سٹی رپورٹر)حکومت پاکستان نے مالی سال 2025-26 کے لیے قومی بجٹ پیش کر دیا ہے، جسے مختلف طبقات کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ماہرین معاشیات، سول سوسائٹی اور عوامی نمائندگان نے بجٹ کو ''عوام دشمن'' اور ''آئی ایم ایف کی شرائط پر مبنی مالیاتی منصوبہ'' قرار دیا ہے۔ چیئرپرسن انٹرنیشنل ہیومن رائٹس موومنٹ، چیئرپرسن پختوخوا قومی جرگہ اور جماعت اسلامی میٹروپولیٹن ڈسٹرکٹ ممبر پشاور ناصرہ عبادت نے حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''یہ پاکستان کا بجٹ نہیں بلکہ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر تیار کردہ مالیاتی خاکہ ہے، جس کا مقصد عوام کی زندگی مزید مشکل بنانا ہے۔'' بجٹ میں 600 سے 700 ارب روپے کے نئے ٹیکسز عائد کیے گئے ہیں، جو بالواسطہ طور پر عام شہریوں پر پڑیں گے۔ بنیادی ضروریات کی اشیاءپر ٹیکسوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے، جبکہ صنعت کاروں اور بڑے سرمایہ داروں کو متعدد ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔ تنخواہ دار طبقے کے لیے صرف 7 سے 10 فیصد تک تنخواہوں میں اضافہ تجویز کیا گیا ہے، جو موجودہ مہنگائی کی شرح سے کہیں کم ہے۔ معیشت دانوں کے مطابق، مہنگائی اور سبسڈی میں کٹوتی کے باعث اس طبقے کی حقیقی آمدن میں 20 فیصد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔دوسری جانب، بجٹ میں دفاعی اخراجات میں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے،موجودہ معاشی حالات میں دفاعی بجٹ کو ترجیح دینا عوام کے جذبات کے ساتھ مذاق کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔ ملک میں سونے کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، جو مالی بے یقینی اور مہنگائی کی ایک واضح علامت ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران 32 لاکھ سے زائد پاکستانی بہتر روزگار کی تلاش میں بیرون ملک چلے گئے ہیں، جس سے ملک برین ڈرین اور سرمائے کی شدید کمی جیسے مسائل سے دوچار ہو چکا ہے۔زرعی شعبے میں بھی حکومت کی پالیسیوں پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ناصرہ عبادت کے مطابق، ''ملک میں پیدا کی گئی گندم ضائع ہو رہی ہے جبکہ حکومت کم معیار کی درآمدی گندم پر انحصار کر رہی ہے، جس سے مقامی کسان اور زرعی خودکفالت دونوں متاثر ہو رہے ہیں۔'' بجٹ میں چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی اور دیگر پارلیمنٹرینز کی تنخواہوں میں 60 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے، جس کے بعد ان کی ماہانہ تنخواہیں دو لاکھ سے بڑھ کر 12 سے 14 لاکھ روپے ہو گئی ہیں۔ عوامی حلقوں نے اس اقدام کو ظلم قرار دیا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک کے کروڑوں شہری بنیادی سہولیات کے لیے ترس رہے ہیں۔