فوج بھی ذمہ دار تھی!

فوج بھی ذمہ دار تھی!
فوج بھی ذمہ دار تھی!
کیپشن: gulaam jilani

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پیپلزپارٹی کے گزشتہ پانچ سالہ دور (2008ءتا2013ئ) میں پانچ کا ہندسہ بڑا منحسوس ثابت ہوا۔دہشت گردوں کے پانچ بڑے گروپوں نے سیکیورٹی فورسز کے پانچ ہزار افسر اور جوان اور پچاس ہزار سویلین شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔پاکستانی عوام کو ارادتاً یہ کہہ کر کنفیوز رکھا گیا کہ افغانستان میں امریکی افواج کو ایک فوجی آمر نے آنے کی دعوت دی تھی۔اس آمر کے دور ہی میں اگرچہ اکا دکا ڈرون حملے شروع ہوگئے تھے لیکن جب ”عوامی جمہوری“ دور آیا تو امریکی ڈرونوں کی گویا برسات ہو گئی۔فاٹا کے کسی علاقے میں اگر کسی ڈرون حملے میں طالبان کے ساتھ ان کے چندگھر والے بھی مارے جاتے تھے تو خودکش بمبار ان کی آڑ میں ایک مرنے والے کے بدلے میں 20بے گناہ لوگوں کو تہہ تیغ کردیا کرتے تھے۔(اب بھی یہی حال ہے)۔
 الیکٹرانک میڈیا نے ان ایام میں جو رول ادا کیا وہ اور بھی ناقابلِ فہم بلکہ گھناﺅنا تھا۔پاکستانیوں کو انفارم اور ایجوکیٹ کرنے کی بجائے ڈِس انفارم اور ڈی ایجوکیٹ کیا گیا۔ پہلے پاکستان کی شمال مغربی سرحدی پٹی اس زدروخورد کی آماجگاہ رہی اور پھر سارا پاکستان اس کی لپیٹ میں آتا چلا گیا۔اس دور کی حزبِ اختلاف نون لیگ نے بھی فوجی قیادت کو بالالتزام نشانہ ءطعن و دشنام بنائے رکھا۔تاہم ان کی دشنام طرازی اور طعنہ زنی کا ایک جواز بھی تھا.... 12اکتوبر 1999ءکو بھاری مینڈیٹ رکھنے والی اس سیاسی پارٹی کا تختہ الٹ کر فوجی قیادت نے اپنے آپ کو اتنا ہدفِ تنقید نہیں بنایا تھا جتنا اس نے خود اپنے دور اقتدار کو طول دینے اور قومی مفادات کو پشِ پشت ڈال کر ذاتی اغراض کی پاسداری کرنے سے بنایا۔
پھر جب 2008ءمیںمجبوراً فوج کو انتخابات کروانے پڑے اور ان کے نتیجے میں جب زرداری صاحب کے ہاتھ میں زمامِ اقتدار آئی تو انہوں نے مارشل لائی دور سے بھی بدتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا....یعنی جن سے خستگی کی داد پانے کی توقع تھی وہ خود تیغ بدست ہو کر میدان عمل میں آ دھمکے۔
لیکن اگر آپ عقبی شست (Hind Sight) سے اس دور کا نظارا کریں گے تو آپ پر آشکار ہوگا کہ اس پانچ سالہ دور میں سب سے زیادہ قابلِ مواخذہ اور قابل اعتراض کارکردگی، پاک فوج کی ٹاپ لیڈرشپ نے دکھائی! دہشت گردی کے سبب سب سے زیادہ جانی نقصانات پی پی پی کے دور میں اس لئے ہوئے کہ شدت پسندوں اور دہشت گردوں کو معلوم ہو چکا تھا کہ فوج نے سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اگرچہ ضروری نہ تھا کہ فوج پانچویں بار، اقتدار پر قبضہ کرنے کا الزام اپنے سر لیتی۔لیکن وہ اتنا تو کر سکتی تھی کہ فساد کی اصل جڑ کاٹنے کے لئے شجرِ دہشت گردی کے تنے کے نیچے جا کر آرا چلاتی۔



جہاں اس دور (2008ءتا2013ئ) کی فوجی قیادت کو یہ کریڈٹ دیا جاتا ہے کہ اس نے بدترین سیاسی حالات اور امن و امان کی بدترین صورت حال میں بھی اپنے آپ کو جمہوری اقدار کے تابع رکھا، وہاں اس فوجی قیادت پر یہ الزام بھی آنا چاہیے کہ اس نے اگر ارادتاً نہ بھی کہا جائے تو سہواً، طالبانائزیشن کو پھلنے پھولنے اور فروغ پانے کی کھلی آزادی دی۔اس سے پہلے اپنے دور میں جنرل پرویز مشرف ان گنت بار وہ شعر پڑھتے رہے کہ ان کو پرائے شعلوں کا ڈر نہیں، بلکہ آتش گل کا خوف ہے۔لیکن صد حیف کہ وہ خوف کو دور کرنے کی اہلیت کے حامل ہوتے ہوئے بھی چمن کو بھسم ہوتا دیکھتے رہے اور ٹس سے مس نہ ہوئے ۔
اور جب انہوں نے استعفیٰ دے کر آرمی کی عنان، جنرل اشفاق پرویزکیانی کے سپرد کی تو انہوں نے بھی اپنے پیشرو کا چلن اپنائے رکھا۔آرمی، ایئر فورس اور نیوی کی تنصیبات پر حملے ہوتے رہے اور فوجی قیادت ”خاموش“ رہی۔کون ہوش مند یہ جواز تسلیم کرے گا کہ فوج کی اعلیٰ قیادت صرف مارشل لاءکی تہمت سے گریز کرنے کی خاطر بیرکوں میں بیٹھی رہی اور سوات وغیرہ میں بھی اس وقت آپریشن کیا جب پانی سر سے گزر چکا تھا۔آپ شائد میرے ساتھ اتفاق نہ کریں کہ سوات آپریشن میں بھی فوجی ایکشن کی وہ شدت نہ تھی جو طالبان کی کمر توڑ دیتی۔فضل اللہ جیسے انتہا پسند سرحد پار کرکے افغانستان چلے گئے اور ہم دیکھتے رہ گئے۔افغانستان میں اگر امریکہ دنددناتا ہوا آ سکتا تھا تو کیا جوہری پاکستان بھی ایسا نہیںکر سکتا تھا؟نجانے درانڈ لائن کی حرمت صرف پاکستان ہی کو کیوں عزیز تھی۔ان کے بے گھر اور بے در ہونے کے باوجود بھی طالبان کی تابِ مزاحمت نہ توڑی جا سکی۔فوج اپنے افسروں اور جوانوں کو شہید ہوتے دیکھتی رہی اور بڑی تاخیر کے بعد کچھ کیا بھی تو ویسا نہ کیا جیسا وہ کرسکتی تھی۔فوج کی اس نرم خوئی کا جو ناجائز فائدہ دہشت گرد اور شدت پسند اٹھاتے رہے ، اس نے کئی خاندانوں کے چراغ گل کر دیئے۔
شمالی وزیرستان میں جانے یا نہ جانے کا مخمصہ تو ایسا دراز ہوا کہ قوم کو شدید ترین کنفیوژن کا شکار کر دیا گیا۔فوج، جمہوری معاشروں میں سیاسی قیادت کے زیرکمانڈ تو ہوتی ہے لیکن قومی اہمیت کے وہ مسائل کہ جن پر ملک کی بقاءکا دارومدار ہو ان پر سیاسی قیادت کو صرف بریفنگ دینے ہی پر اکتفا نہیں کرتی۔پھر بریفنگ اگر دے بھی دی تھی تو اس کی ضرورت کتنی بار ہوتی ہے؟اگر ہر روز خودکش حملے ہوں تو ہر روز تو بریفنگ کی ضرورت نہیں ہوتی!
مرض اور اس کے علاج کے بارے میں ایک مقولہ مشہور ہے کہ ایک ڈاکٹر علاجِِ مرض، دو ڈاکٹر اختلافِ مرض اور تین ڈاکٹر موت!
.... بریفنگ دینے کی ضرورت اگر تھی تو صرف فوج کے سپریم کمانڈر کو تھی۔پوری پارلیمنٹ کو نہیں۔حال ہی میں انڈین نیوی کے چیف، ایک آبدوز کے حادثے پر مستعفی ہو چکے ہیں۔ان کا یہ استعفیٰ برصغیر کے ممالک کی ہائر عسکری کمانڈ میں ایک مثال بن رہا ہے۔انڈین آبدوز کے اس حادثے میں صرف دو آفیسر مارے گئے تھے اور چار پانچ ملاح (Ratings) لاپتہ ہوئے تھے۔لیکن پاکستان میں تو ہمارے فوجی ہر ہفتہ سینکڑوں کے حساب سے مر رہے تھے۔اگر کیانی صاحب پہلے یا دوسرے بڑے حادثے پر مستعفی ہو جاتے تو امر ہو جاتے۔اور جب GHQپر حملہ ہوا تھا اور دہشت گرد ان کے دفتر (ہیڈکوارٹر) سے چند گز دور رہ گئے تھے تو وہ موقع ایک ایسا سنہری موقع تھا جو ملک سے دہشت گردی کی لعنت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کا نقطہ ءآغاز ثابت ہو سکتا تھا۔لیکن نہ زمین ہلی نہ گل محمد!
پھر 2013ءکے انتخابات ہو گئے۔ ان کے بعد بھی یہ مسئلہ جوں کا توں رہنے لگا۔بلکہ اس میں ایک تدریجی پیشرفت بھی دیکھنے میں آنے لگی۔مَیں مسلم لیگ کے ان رہنماﺅں کو خراجِ تحسین پیش کروں گا ،جنہوں نے پی پی پی کے دور میں جنرل مشرف کے مارشل لاءکو بطورِ خاص نشانہ ءتنقید بنایا اور فوج کی ہائر کمانڈ کو بالعموم نشانے پر رکھتے رہے۔ لیکن جب آج وہ خود مسندِ اقتدار پر آ بیٹھے ہیں اور بریفنگ لی ہے تو انہوں نے اپنے ماضی کے استدلال اور نقطہ ءنظر کو تبدیل کرنے میں دیر نہیں لگائی۔
مَیں خواجہ آصف صاحب کا ذکر بالخصوص کرنا چاہوں گا۔پیپلزپارٹی کے دور میں پانچ برس تک ان خواجگان حضرات (خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق) کی زبان میڈیا پر آکر ناقابلِ بیان شعلہ افشانی کرتی رہی۔ فوجیوں کے خلاف ان کے بعض جملے ایسے بھی تھے جن کو اس کالم میں دہرانا گویا لیلیٰءتحریر کوپردئہ محمل سے نکال کر زخم زخم کرنا ہے لیکن آج جب خود خواجہ آصف کے پاس وزارت دفاع کا قلمدان آیا ہے، جب خود ان کو دفاعی امور کی شُد بُد ہوئی ہے، جب انہوں نے خود امریکی حکام سے گفت و شنید کی ہے اور جب خود زیر بحث مسئلے کا تجزیہ کیا ہے تو جس نتیجے پرپہنچے ہیں وہ وہی تھا، جس کی آرزو پوری پاکستانی قوم گزشتہ کئی برسوں سے کرتی چلی آئی تھی۔
جب نومبر 2013ءمیں آرمی کی کمانڈ تبدیل ہوئی تو دہشت گردوں نے فوجیوں کی پرانی روش کی امید پر اپنی پرانی روش جاری رکھنے کا ارتکاب کر ڈالا.... ان کو کیا معلوم تھا کہ فوج کی یہ نئی ٹاپ لیڈرشپ گزشتہ دورِ مارشل لاءاور دورِ جمہوریت کی کتنی ستائی ہوئی ہے۔قوم نے دیکھا کہ وہی آرمی تھی، وہی کور کمانڈر تھے، وہی پی ایس اوز تھے، وہی ائر فورس تھی لیکن ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کا دور گزر چکا تھا۔نئی عسکری لیڈرشپ نے پرانی پالیسی کا حشر دیکھ کر ایک نیا فیصلہ کرلیا تھا۔خدا کا شکر ہے کہ اس لیڈرشپ کو سیاسی قیادت کی اشیرباد بھی حاصل تھی ....تو آپ نے دیکھا کہ محض دو تین ائر سٹرائیک نے طالبان کے غبارے سے ساری ہوا نکال کے رکھ دی۔
ایک ماہ کی یہ یک طرفہ جنگ بندی جو کئی بار توڑی جا چکی ہے وہ ان لوگوں نے کی ہے جن کو کسی نے بھی جنگ بندی کرنے کی ”عرضی“ ارسال نہیں کی تھی۔مجھے لگتا ہے کہ یہ اعلانِ جنگ بندی ایک قسم کا عارضی Catalyst ہے جس کا تاثر اور جس کی تاثیر شائد چند روز تک باقی رہے اور پھر (خدانہ کرے) وہی شامِ غم ہو، وہی شبِ ماتم ہو اور وہی صبحِ گریہ وزاری ہو!
ہمارے وزیرداخلہ نجانے کیوں اب تک طالبان کے اس سحر میں گرفتار ہیں کہ مذاکرات ہی اس مسئلے کا واحد حل ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم کوئی سخت ایکشن لینا تو چاہتے ہیں لیکن اپنے بعض مصاحبینِ خاص کو ”کورا جواب“ نہیں دینا چاہتے۔

دو روز قبل ہمارے وزیرخزانہ جناب اسحاق ڈار GHQمیں گئے اور عسکری قیادت سے ملاقات کی۔بعض خبروں میں ان کی ملاقات کو آئندہ مالی سال کے بجٹ میں دفاعی بجٹ کے کیف و کم کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔میڈیا کا ایک حصہ وہ ہے جو ان کی وزٹ کو سال 2014-15ءکے بجٹ کے پیش منظر میں دیکھ رہا ہے حالانکہ اس کی کیا ضرورت تھی؟
دفاعی بجٹ کی SOP تو یہ ہے کہ ہر سروس چیف، اپنا بجٹ یا بجٹ تجاویز پہلے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کو بھیجتا ہے۔پھر وہ اسے وزیر دفاع کو بھیجتے ہیں اور پھر وزارت دفاع، ان کو وزارتِ خزانہ کو ارسال کر دیتی ہے۔ اور اگر ایسا ہے تو پھر ڈار صاحب کا وزٹ چہ معنی دارد؟
میڈیا کا ایک اور طبقہ اس وزٹ کو یہ معانی پہنا رہا ہے کہ وزیر خزانہ آرمی کی ان مالی ضروریات کا اندازہ لگانے GHQ گئے تھے کہ اس ماہ (مارچ 2014ء) میں جب شمالی وزیرستان میں آل آﺅٹ آپریشن ہوگا تو اس کا مالیاتی تخمینہ کیا ہوگا؟.... ٹروپس کی موومنٹ پر اور گولہ بارود کی کھپت پر کتنا پیسہ صرف ہوگا اور اس نقل و حرکت اور آپریشن کے دوران عسکری سازوسامان کی جو شکست و ریخت ہوگی اس کو پورا کرنے (Replenishment) پر کتنی لاگت آئے گی۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جو چار بار پاک بھارت جنگوں میں کود چکا ہے، اس نے جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں وسیع انفراسٹرکچر اور دیگر جوہری تنصیبات پر جو کچھ خرچ کیا ہے، اس کا حساب کتاب بھی کر چکا ہے اور وہ شمالی وزیرستان نہ سہی، جنوبی وزیرستان اور سوات میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشنوں میں جا چکا ہے تو کیا اب پاکستان کوئی پہلی بار کسی ایسے آپریشن میں جا رہا ہے جو انوکھا اور اپنی نوعیت میں کوئی نرالا آپریشن ہے جس کا مالیاتی تخمینہ لگانے کے لئے خود وزیرخزانہ کو GHQ جانا پڑا ہے؟
ایک بات یہ بھی عرض کرنی ہے کہ امریکہ ہمیں شروع دن ہی سے کہہ رہا ہے کہ شمالی وزیرستان سے غیر ملکی دہشت گردوں کو نکال باہر کرو۔ساتھ ہی ہماری فوجی قیادت پر ہمارا میڈیا یہ الزام بھی لگاتا رہا ہے کہ پاک فوج اپنی سٹرٹیجک گہرائی (Depth) کی عاقبت نااندیشانہ پالیسی کو ترک نہیں کرنا چاہتی۔لیکن اگر بقول ان بزرجمہروں کے پاکستان کو اب ہوش آ ہی گیا ہے اور اس نے تین عاجل فضائی حملے (سرجیکل سٹرائیک) کرکے دیکھ ہی لیا ہے کہ طالبان کا مزاحمتی قدوقامت کتنا ”بلند بام“ ہے تو اب جب عسکری اور سیاسی قیادت (سیاسی قیادت کے زیرِ احکام و ہدایات) شمالی وزیرستان میں طالبان کے خلاف جاتی ہے تو امریکی قیادت یہ کہنے میں تو حق بجانب ہوگی کہ آخر پاکستان نے وہی کچھ کیا ناں جس کا مشورہ ہمارے ہر چھوٹے بڑے جرنیل اور سیاستدان نے دیا تھا!مَیں سوچتا ہوں کہ ہمارے پاس اس فرنگی طعنے کا کیا جواب ہوگا؟

مزید :

کالم -