لارڈ نذیر کا دورہ¿ لاہور

لارڈ نذیر کا دورہ¿ لاہور
لارڈ نذیر کا دورہ¿ لاہور
کیپشن: dr ahsan

  

برطانیہ کے ہاﺅس آف لارڈز کے لارڈ نذیر احمد پہلے مسلمان لارڈ ہیں۔ اس بات کا اظہار وہ بہت فخر و انکسار کے ساتھ کرتے ہیں۔ ہاﺅس آف لارڈز دنیا کی قدیم ترین جمہوریتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ہماری جو اسلامی تعلیمات اور اصول ہیں وہ غیر مسلموں نے اپنا کے دنیا بھر میں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ مثلا غیر مسلم معاشروں میں تجارت اور کاروبار کے جو اخلاقی اصول سکھائے جاتے ہیں وہ من وعن وہی ہیں جن کا حکم اسلام ہمیں دیتا ہے وہ کاروبار میں کسی کو دھوکہ نہیں دیتے لیکن افسوس ہم دھوکہ دہی اور فریب کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

اپنے بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ میر پور آزاد کشمیر کے نواحی گاﺅں کے سکول میں اس وقت طالب علموں کے بیٹھنے کے لئے ٹاٹ تک نہیں ہوتے تھے۔ ہم زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور تھے۔ ہمیں لکڑی کی تختیاں لکھوائی جاتی تھیں اور ان تختیوں کو ہم خود ہی صاف کرتے ہوئے دوبارہ تیار کرتے تھے۔ آج کل تختیاں لکھنے کا رواج نہیں رہا اسی لئے اکثر طالب علموں کی لکھائی اچھی نہیں رہی۔ انہوں نے کہاپاکستان کی ابتر معاشی صورت حال کی اصل وجہ تعلیم کی طرف توجہ نہ دینا ہے۔ اس بات سے متعلق نجی تعلیمی ادارے کے ایک طالب علم نے لارڈ نذیر سے سوال کیا کہ آپ کے گاﺅں کے اس سکول کی حالت زار ابھی تک ویسی ہی ہو گی۔ ابھی بھی وہاں کے سکول ٹیچر کی معاشی اور معاشرتی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہو گی۔ آپ نے اس مقام پر پہنچ کر اپنے گاﺅں میں تبدیلی اور ترقی لانے کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں۔ اس سوال کا جواب تو لارڈ نذیر نے بہت اطمینان بخش دیا لیکن اس بات پر دُکھ کا اظہار بھی کیا کہ اس کی مستقل معاشی کفالت کے لئے جو دوکانیں میں نے تعمیر کروائیں، ان کا نصف کرایہ خود ہیڈ ماسٹر ہی وصول کر لیا کرتا تھا، لہٰذا پہلے اس کی ہیڈ ماسٹر کی معاشی حالت بہتر بنانے اور اسے ایمان دار بنانے کی ضرورت ہے۔ سرکاری دفاتر کے بسکٹ وغیرہ اور سٹیشنری کا سامان گھر اٹھا کر لے جانے سے لے کر نہ جانے کہاں تک ہم اپنی معاشی حالت بہتر بنانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہمارا دل نہیں بھرتا۔ دوسری طرف حکومتی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ملک بھر میں اس وقت ایک اطلاع کے مطابق 85662 آسامیاں اساتذہ کی خالی ہیں اور حکومت بے روز گاری میں اضافہ کرتی جا رہی ہے۔

لارڈ نذیر پاکستانی قوم میں پائی جانے والی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کے دلی طور پر معترف ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہماری پاکستانی قوم نے دنیا بھر میں اپنی مختلف صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ ہم نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کئی تعلیمی ادارے تو کھولے ہیں لیکن ابھی ہم اس میدان میں اپنے ہمسایہ ملک سے بہت پیچھے ہیں وہ سائبر سٹی بنا کر دنیا بھر کی مارکیٹوں اور اکانومی میں اپنا قابلِ ذکر کردار قائم کر رہے ہیں لیکن ہم صرف اپنی ملکی ضرورت کو بھی پورا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

یہ بات اکثر مشاہدے میں آئی ہے کہ بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں میں اپنے وطن سے محبت کا جذبہ کچھ زیادہ ہوتا ہے۔ باہر کی سرد مہریوں اور روحانی محرومیوں کی وجہ سے تمام تر دنیاوی سہولتوں اور آسائشوں کے باوجود کوئی کمی سی نظر ٓتی رہتی ہے۔ کچھ یہی حال امریکی اور مغربی دنیا میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے والے ہمارے افراد کا ہوا ہے شائد یہی وجہ ہے کہ وہ وہاں کے ہر فورم پر اپنے وطنِ عزیز اور مسلمان امت کی حمایت میں آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ جیسے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور یہ کہتے رہتے ہیں کہ نائن الیون واقعہ کے فوراً بعد میں پہلا پاکستانی تھا جس نے اس واقعہ کے خوفناک نتائج و اثرات کی طرف توجہ دلائی تھی۔ آج دہشت گردی کے جس آﺅٹ آف کنٹرول عفریت سے ہم نبرد آزما ہیں یہ سزا اسی واقعہ کے نتیجے میں ہم بھگت رہے ہیں ۔ پچاس ہزار سے زائد انسانی جانیں لقمہ¿ اجل بننے کے باوجود ہم اس مسئلے کو ابھی تک حل نہیں کر پا رہے۔

ایسا ہی حال لارڈ نذیر کا ہے وہ بھی گزشتہ عرصے میں اپنے پاکستانی دوروں کے دوران ان عناصر کی حمایت کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ان کے اس دو ٹوک نقطہ¿ نظر پر برطانوی اور یورپی ممالک میں ایک احتجاجی بازگشت سُنی گئی تھی۔ ان غیر مسلم سامراجی طاقتوں کو یہ گوارا نہیں تھا کہ ہماری برطانوی پارلیمینٹ کا تا حیات ممبر لارڈ نذیر اسلام کے نام لیواﺅں کی حمایت کرے کیونکہ ان سامراجی طاقتوں نے اسلامی قوتوں کو انتہا پسند قرار دے رکھا ہے۔ اس کے بعد لارڈ نذیر نے مغربی پریس میں اپنے خلاف اٹھنے والی ان آوازوں کا مو¿ثر جواب دیا۔ غالباً حالیہ دورے میں اکثر مقامات پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اس پہلو سے وہ محتاط رہے، البتہ پاکستانی سیاست کے بارے میں وہ پوری بے باکی کے ساتھ اظہار کرتے رہے۔ ان کا یہ کہنا بجا تھا کہ ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں جمہوریت کا شور بہت مچاتی ہیں حالانکہ خود ان پارٹیوں کے اندر جمہوریت موجود نہیں ہے۔ تین چار بڑی سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کے نام پر شخصی اور خاندانی آمریت قائم ہے۔ صرف ایک دینی اور سیاسی جماعت میں باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں لیکن پاکستانی عوام کی اکثریت اس جماعت اسلامی کو ووٹ نہیں دیتی۔ پاکستان میں جمہوریت کے اس المیئے پر مختلف حلقوں اور سیاسی تجزیوں میں اظہارِ خیال ہوتارہتا ہے اور سیاسی پنڈت اس کا یہی حل بتاتے ہیں کہ پہلے ہمارے ہاں پرائمری تعلیم کو عام کرنا چاہئے جس کے نتیجے میں عوام کے سیاسی شعور میں اضافہ ہوگا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری اکثر سیاسی اور جمہوری حکومتیں تعلیم کو فروغ دینے کے بارے میں صرف بیان بازی سے کام لیتی ہیں جبکہ عملی طور پر کوئی بہت نمایاں کام کرتی نظر نہیں آتیں۔ اس کا اندازہ مایوس کُن تعلیمی بجٹ سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ لارڈ نذیر کے حالیہ دورے میں ان کے ذاتی دوست میاں قمر الزمان اور اشتیاق ساقی وغیرہ بہت سر گرم دکھائی دیئے۔

لارڈ نذیر کو لاہور کے مختلف تعلیمی اداروں اور سماجی حلقوں کی طرف سے کافی پذیرائی تو دی گئی لیکن ہمارے ہاں دور کی کوڑی لانے والے ہر منظر کا اصل پس منظر تلاش کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ یہ غوطہ خور امکانات کے سمندر کی آخری تہہ تک جاتے ہیں۔ کبھی تو اصل حقیقت تک پہنچ پاتے ہیں لیکن اکثر وہم و گمان کے صحراﺅں میں بھٹکتے رہتے ہیں۔ لہٰذا ان یار لوگوں نے لارڈ نذیر کے حالیہ دورے کا اصل پس منظر بھی ان کے اسلام آباد سے جاری ہونے والے بیان سے ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں مطلوب دو افراد تک رسائی کی اجازت دے۔ ان کے اس بیان کی اصل وجوہات اور تفصیلات تو مستقبل میں سامنے آتی رہیں گی لیکن لندن میں پاکستانی سیاست کے بارے میں ہونے والے فیصلوں سے لارڈ نذیر کے اس بیان کا تعلق ضرور لگتا ہے۔ان سب باتوں کے باوجود لارڈ نذیر، ہمیشہ ہمیں اسلام اور پاکستان سے دلی طور پر محبت کرنے والے محسوس ہوئے ہیں اس حوالے سے عصری مسائل پر وہ پورے جوش و جذبے سے پورے دبنگ لہجے میں بولتے ہیں اور اپنے مخاطبین کو متاثر کرتے ہیں۔ مایوسی، کنفیوژن اور بے یقینی کی موجودہ فضا میں لارڈ نذیر جیسے افراد کا دم بہت غنیمت محسوس ہوتا ہے۔ خدا کرے کہ اپنے اپنے حصے کی شمع جلاتے رہنے کا یہ عمل جاری و ساری رہے احمد فراز نے کہا تھا کہ:

شکوہ¿ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

مزید :

کالم -