مسلم معاشرے میں عدم مساوات اور کسب ناموں کی روایت
پنجابی شاعری کی ایک صنف ’’کسب نامہ‘‘ ہے اس نظم کو ’’کسب نامہ‘‘ کا نام اس لئے دیا گیا کیونکہ اس میں شاعر کسی نہ کسی پیشے کو موضوع بناتا ہے مثلاً لوہار، ترکھان، موچی، جولاہا، حجام، مداری وغیرہ، شعبہ پنجابی پنجاب یونیورسٹی کی ایک استاد ڈاکٹر عاصمہ قادری نے مجلہ ’’تحقیق‘‘ (شمارہ اپریل تا جون 2013ء) میں پنجابی کسب ناموں پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا ہے۔ اس میں انہوں نے چند پیشوں کا تعارف پیش کیا ہے لیکن کسب ناموں کے تخلیقی محرکات کا پس منظر واضح نہیں کیا یعنی یہ نہیں بتایا کہ وہ کیا معاشرتی حالات تھے جو پنجابی شاعروں کے کسب ناموں کی تخلیق کا محرک بنے۔ جدید علوم بتاتے ہیں کہ ادب خلا میں تخلیق نہیں ہوتا، معاشرتی تبدیلیاں ہی نئی نئی صنفوں کو وجود میں لانے کا سبب بنتی ہیں اس لئے ڈاکٹر عاصمہ کے مقالے کے مشمولات پر کلام کرنے سے پہلے ہم کسب ناموں کا پس منظر واضح کرتے ہیں۔
آٹھویں صدی عیسوی میں جب مسلمان برصغیر میں آئے تو وہ اپنے ساتھ انسانی مساوات کا تصور لائے تھے، جس کا مفہوم یہ تھا کہ تمام انسان حضرت آدم اور اماں حوا کی اولاد ہیں۔ خدا کے نزدیک سب برابر ہیں۔ انہیں ایک دوسرے پر رنگ، نسل، زبان اور وسائل دنیوی کی بنیاد پر کوئی تفوق حاصل نہیں۔ اگر کسی کو بڑائی مل سکتی ہے تو تقویٰ اور اخلاق ہی کے حوالے سے مل سکتی ہے۔ اس وقت یہاں ہندو مت غالب تھا جس میں چار ذات کا نظام رائج تھا اور اسے مذہبی تقدس حاصل تھا۔ وہ چار طبقے تھے: برہمن، کشتری، ویش اور شودر، ہندوؤں کا اعتقاد تھا کہ برہمنوں کو سب سے اُونچا معاشرتی مقام حاصل ہے کیوں کہ وہ برہما دیوتا کے سر سے پیدا ہوئے تھے۔ ان کے بعد دوسری پوزیشن کشتریوں کو حاصل تھی انہوں نے برہما جی کے بازوؤں سے جنم لیا تھا۔ تیسرے درجے میں ویش اور چوتھے میں شودر یا اچھوت تھے۔ برہمنوں کا کام مذہبی اور سماجی رسوم انجام دینا ہوتا تھا۔ وہ مذہبی تعلیمات کا پرچار سنسکرت زبان میں کرتے تھے۔ وہی لوگ یہ زبان سیکھتے اور بولتے تھے۔ کشتریوں کے پاس سیاسی اقتدار ہوتا تھا، یعنی راجے، مہاراجے اور فوجی، سپاہی وغیرہ کشتری ہوتے تھے۔ ویش کھیتی باڑی کرتے تھے اور شودوں کے ذمے گندگی وغیرہ اٹھانے کا کام تھا۔ کوئی شخض اپنا طبقہ تبدیل نہیں کر سکتا تھا۔ جو شخص برہمنوں میں پیدا ہوتا وہ تا حیات برہمن ہی رہتا اور شودر بھی شودر ہی رہتا تھا۔ اگر کوئی شخص طبقہ تبدیل کرتا تو اسے سخت سزا دی جاتی تھی۔
اس طبقہ واریت کی وجہ سے ہندوستانی معاشرہ اندر سے یک جہتی اور استحکام سے محروم ہو چکا تھا۔ ہندو راجے مسلمان حملہ آوروں کے مقابلے میں شکست کھا گئے، حالانکہ ان کی افواج تعدادِ سپاہ اور اسلحہ کے اعتبار سے مسلمان لشکروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑی ہوتی تھیں۔ مسلمانوں کی کامیابی کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ وہ تمام انسانوں کے درمیان برابری کے قائل تھے۔ دہلی کے تخت پر پہلے پہل جو مسلمان بیٹھے وہ ترک غلام تھے۔ غلامی کسی طرح بھی ان کے لئے سدِ راہ نہیں بنی تھی۔ مگر بدقسمتی سے آہستہ آہستہ مسلمان بھی طبقہ واریت میں مبتلا ہو گئے۔ اقتداری ڈھانچے میں اونچے مناصب صرف انہیں ملتے تھے جو خود یا ان کے باپ دادا تُرکستان، ایران یا عرب ممالک سے آئے ہوتے تھے۔ یہی لوگ زمینوں، جاگیروں کے مالک ہوتے تھے۔ انہیں ہی خاندانی لوگ قراردیا جاتا تھا۔ باقی مسلم عوام چھوٹے چھوٹے پیشوں سے وابستہ ہوتے تھے۔ کاشتکار، لوہار، بڑھئی، موچی، نائی، دھوبی، جولاہے، ٹھٹھیار وغیرہ کمی کہلاتے تھے یعنی جو اپنے ہاتھ سے روٹی کما کر اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے تھے۔ ان پیشوں کے وابستگان کو معاشرے میں کمتر مقام حاصل تھا۔ یہی صورت حال انگریزوں کے دور میں بھی قائم رہی۔ وہ بھی فوج یا سول سروس میں مقامی افراد کو بطور افسر بھرتی کرتے ہوئے ان کے خاندانی پس منظر، ذات برادری وغیرہ کو پیش نظر رکھتے تھے۔
دہلی سلطانوں اور مغلوں کے دور میں چونکہ نچلے طبقات کے لئے زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کے امکانات معدوم تھے اس لئے ہر پیشہ ور کی اولاد اپنے خاندانی پیشے ہی سے منسلک رہتی تھی۔ ان کا اوپر والوں سے مستقل طور پر فاصلہ قائم رہتا تھا اور یہ احساس ان کے خون میں نسل در نسل شامل رہتا تھا کہ وہ کسی طرح بھی اونچے طبقوں میں شامل نہیں ہو سکتے۔ اٹھارویں صدی عیسوی میں جب سید وارث شاہ قصہ ہیر لکھنے بیٹھا تو یہی طبقاتی معاشرہ اس کے سامنے تھا جس کی اس نے قصہ میں جا بجا جھلکیاں پیش کی ہیں۔ رانجھا صاحب ملکیت طبقے کا نوجوان تھا لیکن جب وہ اپنے طبقے سے تعلق توڑ کر نچلے طبقے میں شامل ہو کر کاما بن جاتا ہے۔ تو ہیر کا باپ چوچک اسے بیٹی (ہیر) کا رشتہ دینے سے انکار کر دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں معاشرہ اسے ڈی کلاس ہونے پر سزا دیتا ہے۔ اسی قصّہ میں مردوں اور عورتوں کے نام ہی ان کے خاندانی پیشوں کی نشاندہی کر دیتے ہیں۔ مثلاً فتو کلال، جھکڑڈوم، کموں موچن، سمی مالن، بختاور لوہاری، بخت ترکھانی، ستو گھمیاری، سبھرانی تیلن، بھاگو ڈومنی، مٹھی نائن وغیرہ قصہ مرزا صاحباں میں مرزا صاحباں سے ملنے کے لئے ان کی بستی میں پہنچتا ہے تو ایک کمی عورت ماسی بیبو کے ہاتھ پر تین سونے کی مہریں رکھتا ہے تو وہ صاحبان سے ملاقات کروانے پر فوراً امادہ ہو جاتی ہے۔ بین السطور بتایا گیا ہے کہ نچلے طبقوں کا کوئی دین ایمان نہیں ہوتا، بہت تھوڑی قیمت پر بک جاتے ہیں۔ (یہ الگ بات کہ اونچے طبقے والے بھی بکتے تھے لیکن قیمت زیادہ پڑتی تھی)پنجابی اکھانوں (کہاوتوں) میں بھی نچلے طبقات کے بارے میں حقارت آمیز رویہ نظر آتا ہے۔ مثلاً تیلی کس دانہ بیلی (تیلی کسی کا دوست نہیں ہوتا) سس دیاں میلناں جو لاہیاں تے تیلناں(ساس کا میل جول جولاہیوں اور تیلنوں سے رہتا ہے) لیس لسوہڑے دی تے آکڑ چوہڑے دی (لسوہڑے کا مادہ لیس دار ہوتا ہے اسی طرح چوہڑے میں اکڑ کا ہونا مسلمہ امر ہے) اور چوہڑیاں دا کھٹیا ،تے کتے گئے گواء (چوہڑوں کی کمائی حقیر کاموں کی نذر ہو کر ضائع ہو جاتی ہے) آج بھی یہ محاورہ سننے میں آتا ہے، تم بندے ہو کہ نائی یعنی حجاموں کے پاس آدمیت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔
پنجابی معاشرے میں مولوی کو مسلم اقتدار کے زمانے میں باعزت مقام حاصل ہوتا تھا کیونکہ ایک تو یہ لوگ عرب اور وسط ایشیائی ریاستوں سے پڑھ کر آتے تھے یا اس پس منظر کے علماء سے شرف تلمذ رکھتے ہوتے تھے۔ دوسرے دینی مدارس کے ساتھ زمینیں، جاگیریں وغیرہ وقف ہوتی تھیں، علماء کو عوام سے چندے کی اپیل نہیں کرنا پڑتی تھی۔ اس کی نوبت انگریزی دور میں آئی تھی جب انگریزوں نے وقف جاگیریں ضبط کر لیں اور علماء اور ان سے تعلیم پانے والے طالبعلموں کو چنگیر اُٹھا کر در در سے روٹی مانگنا پڑی۔ چنانچہ برطانوی دور ہی میں علماء نے جماعتوں کی صورت میں منظم ہونا شروع کیا تو اس کے پیچھے دراصل طبقاتی احساس ہی کار فرما تھا۔ اسی احساس نے بعد میں جہادی رویئے کو جنم دیا۔ افسوس ہمارے ہاں ابھی تک تعلیم اور تحقیق کی کمی کی وجہ سے جہادی رویوں کے خالص سماجی اور نفسیاتی عوامل کو سمجھنے کی سائنسی اپروچ ہی نہیں بن سکی۔
ڈاکٹر عاصمہ قادری نے اپنے مقالے میں بتایا ہے کہ کس طرح پنجابی شاعروں نے مختلف پیشوں کی عظمت بیان کر کے نچلے طبقات کو احساس کمتری سے نجات دلوانے کے لئے کوشش کی۔ مثلاً شاہ حسین لاہوری کا خاندانی پیشہ ’بافندگی‘ یعنی کپڑا بننے کا کام تھا۔ جو لاہوں کی سادگی پر کئی لطیفے بنے ہوئے تھے جو آج بھی سنننے میں آ جاتے ہیں۔ شاہ حسین ایک کافی میں عجز اور انکسار کا اظہار اپنے آپ کو جولاہا بتا کر کرتے ہیں:
ناؤں حسیناتے ذات جولاہا، گالیاں دیندیاں تانیاں والیاں وو
کہتے ہیں میں نے معرفت و سلوک کا راستہ اختیار کیا ہے تو میری برادری کی خواتین مجھے ملامت کرتی ہیں کہ تم اپنے معاشرتی مقام کو تو نہ بھول جاؤ، لوگ تمہیں حسین کی بجائے حسینا کہہ کر بلاتے ہیں اور تمہارا پیشہ بافندگی ہے تم چار لفظ لکھ پڑھ کر کیا کوئی بڑا مقام پالو گے۔ڈاکٹر عاصمہ کا کہنا ہے کہ پنجابی فقیروں اور درویشوں نے کسب ناموں کے ذریعے ایک تو مختلف پیشوں کی بڑائی بیان کی، دوسرے ان کے کام کاج سے عارفانہ معانی بھی پیدا کئے۔ جیسے ’لوہار نامہ‘ میں بتایا کہ آہن گری پیغمبر انہ پیشہ ہے۔ لوہے کو کوٹنا دراصل نفسانی خواہشات پر کنٹرول حاصل کرنے کا عمل ہے۔ اسی طرح ’’چوہڑ ہٹیڑی نامہ‘‘ میں چوہڑوں کی صفائی کے پیشے سے صفائی باطن کا مفہوم پیدا کیا۔ گزشتہ صدی کے استاد کرم امرتسری نے گجری، چمیاری اور جولاہی عنوان کی نظموں میں بھی اسی طرح عرفان نفس کا مضمون باندھا ہے۔ ڈاکٹر عاصمہ نے ایک تو کسی ایسے پنجابی ہندو شاعر کا ذکر نہیں کیا جس نے کوئی کسب نامہ لکھا ہو دوسرے کسب نامے کی روایت کو دور جدید تک بیان نہیں کیا۔ حالانکہ شریف کنجاہی، انور مسعود، اقبال صلاح الدین اور کئی دیگر جدید شاعروں کی آزاد اور پابند نظموں میں ذرا مختلف اسلوب کے ساتھ کسب نامے کی روایت پھلتی پھولتی دکھائی دیتی ہے۔!