اسرائیلی وزیراعظم کی کانگریس میں ایک تقریر(3)
لیکن میرے دوستو! وہ معاہدہ کہ جس پر مذاکرات ہو رہے ہیں، وہ اگر ایران کی طرف سے تسلیم کر لیا گیا تو وہی کچھ ہو سکتا ہے جو میں نے پہلے کہا ہے۔ یہ معاہدہ ایران کو جوہری ہتھیاربنانے سے نہیں روکے گا، بلکہ الٹا یہ ہوگا کہ ایران کو ان ہتھیاروں کو بنانے کی ضمانت مل جائے گی۔
اجازت دیجئے کہ میں اس بات کی کچھ وضاحت کروں۔۔۔ اگرچہ وہ معاہدہ کہ جس پر مذاکرات ہو رہے ہیں، اس پر ہنوز دستخط نہیں ہوئے، لیکن اس کے بعض اجزا ایسے ہیں جو پبلک کے سامنے آ چکے ہیں۔ ان کو جاننے کے لئے نہ کسی انٹیلی جنس ایجنسی کی ضرورت ہے اور نہ کسی خفیہ معلومات کی۔۔۔ آپ اس کو ’’گوگل‘‘ پر جا کر دیکھ سکتے ہیں!
ہمیں یہ بات یقینی طور پر معلوم ہے کہ اس ڈیل سے ایران کو دو بڑی مراعات مل جائیں گی۔ پہلی بڑی رعائت یہ ہوگی کہ ایران کے پاس اس کا موجودہ وسیع و عریض جوہری انفراسٹرکچر جوں کا توں باقی رہے گا اور یہ انفراسٹرکچر ایران کو بم بنانے کے لئے نہایت مختصر بریک آؤٹ ٹائم دے دے گا۔ بریک آؤٹ ٹائم وہ ٹائم ہے کہ جو کسی جوہری بم بنانے سے پہلے، ویپن گریڈ یورنیم یا پلوٹنیم کو اکٹھا کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
اس معاہدے کے مطابق ایران کی کوئی جوہری تنصیب منہدم نہیں کی جائے گی۔ ہزاروں سنٹری فیوج جو یورینیم کو افزودہ کرتے ہیں، وہ گھومتے/ چلتے رہیں گے۔ ہزاروں ایسے بھی ہوں گے جن کو ڈس کنکٹ (Disconnect) تو ضرور کر دیا جائے گا لیکن تباہ نہیں کیا جائے گا۔
چونکہ ایران کے جوہری پروگرام کا بڑا حصہ صحیح و سالم باقی رہے گا اس لئے اس کا بریک آؤٹ ٹائم بہت کم ہوگا۔۔۔ امریکی اندازوں کے مطابق شائد ایک برس ہوگا لیکن ہم اسرائیلوں کے مطابق ایک برس سے بھی کم ہوگا۔۔۔ اگر ایران اپنے تیز تر سنٹری فیوجوں پر کام نہیں روکتا تو پھر بریک آؤٹ ٹائم اور بھی مختصر ہو سکتا ہے۔۔۔ بہت زیادہ مختصر
(جیسا کہ نیتن یاہو نے خود وضاحت کر دی ہے بریک آؤٹ ٹائم جوہری اصطلاح میں وہ ٹائم ہے کہ جو افزودہ یورینیم/ پلاٹونیم سے بم بنانے میں صرف ہوتا ہے۔ سنٹری فیوج وہ ڈرم ہوتے ہیں جو تیز رفتاری سے گھومتے ہیں اور اپنے اندر رکھی ہوئی یورینیم/ پلوٹینم کو اس درجہ تابکار کر دیتے ہیں کہ اس کو ویپن گریڈ یورینیم / پلوٹینم کا نام دیا جاتا ہے اور جس سے جوہری بم بنایا جاتا ہے۔ سنٹری فیوج جتنی تیز رفتاری سے گھومے گا، یورنیم / پلوٹینم اتنی ہی جلد ویپن گریڈ لیول تک پہنچ جائے گی اور اس سے بم بنانے میں زیادہ عرصہ نہیں لگے گا۔۔۔ دوسرے لفظوں میں افزودہ یورنیم / پلوٹینم سے جوہری بم بنانے کے درمیانی ٹائم کو بریک آؤٹ ٹائم کہا جائے گا۔مترجم)
دوستو! اس میں کوئی شک نہیں کہ اس معاہدے کی رو سے ایران پر بعض پابندیاں لگا دی جائیں گی اور ان پابندیوں کی نگرانی کرنے کے لئے چند بین الاقوامی انسپکٹر بھی مقرر کر دیئے جائیں گے، لیکن پرابلم یہیں سے شروع ہوتی ہے۔۔۔ یہ انسپکٹر صاحبان، ان خلاف ورزیوں کو نوٹ تو کر سکتے ہیں، ان کو روک نہیں سکتے!
شمالی کوریا کی مثال لیتے ہیں۔ اس نے جب بم بنانے کے لئے بریک آؤٹ کیا تھا تو اس نے بھی بین الاقوامی انسپکٹروں کا کہا نہیں مانا تھا۔ ایسا تین بار ہوا تھا۔۔۔ پہلے 2005ء میں، پھر 2006ء میں اور پھر 2010ء میں۔۔۔ شمالی کوریا نے بھی تالے تو توڑ دیئے تھے، لیکن کیمرے بند کر دیئے تھے۔
مجھے معلوم ہے آپ کو یہ باتیں سن کر کوئی اچنبھا نہیں ہوا ہوگا۔ لیکن ایران نہ صرف یہ کہ انسپکٹروں کی مزاحمت کرتا رہا ہے بلکہ ان کے ساتھ ’’چھپن چھپائی‘‘ (Hide and Cheat) کی گیم بھی کھیلتا رہا ہے۔
ابھی کل ہی IAEAکے چوکیداروں (Watchdogs) اور پاسبانوں نے کہا ہے کہ ایران اب بھی اپنے ملٹری جوہری پروگرام کے سلسلے میں صاف صاف باتیں بتانے سے انکاری ہے۔ ایران ایک بار نہیں دو بار نتانز (Natanz) اور قم (Qom) کی خفیہ جوہری تنصیبات آپریٹ کرتے ہوئے پکڑا جا چکا ہے۔ ان دونوں جوہری تنصیبات کا علم تو انسپکٹروں کو بھی نہیں تھا کہ یہ سہولیات زمین پر موجود بھی ہیں یا نہیں ہیں۔
اب بھی عین ممکن ہے کہ ایران اپنی اُن کئی جوہری تنصیبات کو چھپائے بیٹھا ہو کہ جن کا علم نہ اسرائیل کو ہوگا، نہ امریکہ کو۔ IAEA کے سابق سربراہ نے 2013ء میں کہا تھا: ’’اگر آج ایران میں کوئی ایسی جوہری تنصیب موجود نہ ہو کہ جس کا اعلان ایران نے قبل ازیں نہ کیا ہو تو ایسا گزشتہ 20 برسوں میں پہلی بار ہوگا‘‘( مطلب یہ ہے کہ ایران گزشتہ 20برسوں سے اپنی جوہری تنصیبات کی صحیح تعداد نہیں بتا رہا۔ مترجم)۔ ایران نے بار بار اس بات کا ثبوت فراہم کیا ہے کہ اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے ایران کو پہلی رعائت دینا ہمارے لئے از حد پریشانی کا باعث ہوگا۔ اس رعائت کی رو سے ایران کا وسیع و عریض جوہری انفراسٹرکچر جوں کا توں قائم رہے گا اور ہمیں انسپکٹروں پر انحصار کرنا پڑے گا کہ وہ بریک آؤٹ سے بچائیں۔ یہ رعائت دینے کے باوجود یہ خطرہ بھی برقرار رہے گا کہ ایران معاہدے کی خلاف ورزی کرکے بم بنا سکتا ہے۔
لیکن دوسری رعائت، اس پہلی رعائت سے بھی زیادہ خطرناک ہوگی۔ یعنی ایران، معاہدے کی پابندی کرنے کے باوجود بم بنا لے گا۔ یعنی دس برس گزر جانے کے بعد ایران کے جوہری پروگرام سے پابندیاں خود بخود اٹھ جائیں گی۔ یعنی معاہدے کی خلاف ورزی بھی نہ ہوئی اور ایران نے دس برس بعد بم بھی بنا لیا!
ہو سکتا ہے دس برس کا یہ عرصہ سیاسی زندگی میں ایک طویل عرصہ نظر آئے، لیکن قوموں کی زندگی میں دس سال آنکھ جھپکنے کے برابر ہوتے ہیں اور ہمارے بچوں کی زندگی میں بھی یہ چشم زدن والی بات ہے۔ اس لئے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ مل بیٹھ کر سوچیں کہ اس وقت کیا ہوگا جب ایران کی جوہری صلاحیتیں بے روک ٹوک ہو جائیں گی اور اس پر سے تمام پابندیاں اٹھ چکی ہوں گی۔ تب ایران لاتعداد اور بے محابا جوہری بم بنانے کے قابل ہوگا۔
ایران کا سپریم لیڈر تو واشگاف طورپر یہی اعلان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ایران کا پلان ایک لاکھ نوے ہزار (190000) سنٹری فیوج بنانے کا ہے۔۔۔ 6000 نہیں اور نہ ہی 19000کہ جو آج ایران کے پاس موجود ہیں، بلکہ موجودہ تعداد سے دس گنا زیادہ سنٹری فیوج کہ جو یورینیم کو افزودہ کر رہے ہوں گے۔ اس گراں بہا صلاحیت کے ساتھ، ایران کے پاس اتنا ایندھن جمع ہو جائے گا کہ محض چند ہفتوں میں اپنا سارا جوہری اسلحہ خانہ بھر لے گا۔۔۔۔ صرف فیصلہ کرنے کی دیر ہوگی!
میرے دیرینہ دوست وزیر خارجہ جان کیری نے گزشتہ ہفتے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ جب ایران پر سے یہ دس سالہ پابندیاں ختم ہوں گی تو اس کے پاس واقعی بہت کثیر تعداد میں سنٹری فیوج موجود ہوں گے۔
دوستو! میں چاہوں گا کہ آپ اس بات پر بھی توجہ فرماویں کہ گلوبل دہشت گردی کا یہ برآمد کنندہ دس برس بعد اتنی افزودہ یورینیم کا حامل ہونے سے صرف چند ہفتے دور رہ جائے گا کہ جس کے ساتھ وہ اپنا پورا جوہری اسلحہ خانہ معمور کرلے گا اور ساری دنیا اس کو جائز بھی تصور کرے گی۔
اور ہاں برسبیل تذکرہ یہ بھی کہتا چلوں کہ ایران کا بین البراعظمی میزائل پروگرام اس معاہدے کا حصہ نہیں کیونکہ ایران ابھی تک اس مسئلے کو مذاکرات کی میز پر لانے سے ہی انکاری ہے! یہ یاد رکھئے کہ ایران کے پاس اپنے جوہری ترکش کے سارے تیر سارے کرۂ ارض پر جہاں کہیں وہ چاہے گا پھینک سکے گا بشمول ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ہر حصے پر!
چنانچہ میرے دوستو! اس معاہدے کے ذریعے ایران کو دو بڑی مراعات مل جائیں گی۔ ایک یہ کہ اس کا وسیع جوہری پروگرام صحیح سالم رہے گااور دوسرے ایک عشرے کے بعد ایران سے تمام قسم کی جوہری پابندیاں اٹھا لینے کا نتیجہ وہی نکلے گا جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مَیں کہہ رہا ہوں کہ یہ معاہدہ بہت بُرا معاہدہ ہے۔ یہ معاہدہ ایران کو بم تک پہنچنے سے نہیں روکتا بلکہ بم سازی تک پہنچنے کا راستہ ہموار کرتا ہے!
اب سوال یہ ہے کہ بعض لوگ اس معاہدے کی طرفداری کیوں کررہے ہیں؟ ایک وجہ تو یہ بتائی جاتی ہے کہ ایران آنے والے برسوں میں اپنا رویہ بہتر بنا لے گا اور دوسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اگر یہ معاہدہ نہ کیا گیا تو اس کی کوئی بھی متبادل آپشن اس سے بدتر ہوگی!
لیکن مجھے اس سے اتفاق نہیں۔۔۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایران کی انتہا پسند رجیم اس معاہدے کے بعد اپنے رویوں میں کوئی تبدیلی پیدا کرلے گی۔ اس رجیم کو اقتدار سنبھالے 36برس ہو چکے ہیں اور اس دوران اس کی جارحیت کی پھاڑ کھانے والے اشتہا (بھوک) سال بہ سال بڑھتی رہی ہے۔ یہ معاہدہ اس اشتہا کو مزید تیز کر دے گا!
سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس معاہدے کے خاتمے کے بعد ایران پر جب ساری پابندیاں ختم ہو جائیں گی تو اس کی جارحیت ماند پڑ جائے گی؟ اگر آج کہ جب ایران پر پابندیاں عائد ہیں اور وہ چار ممالک کو ہڑپ کر چکا ہے تو کل کلاں کہ جب یہ پابندیاں اٹھا لی جائیں گی تو ایران کتنے مزید ملکوں کو نگل جائے گا؟
ایران کے پاس جب کیش کے پہاڑ موجود ہوں گے تو کیا وہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی فنڈنگ کم کر دے گا؟ ایران کی انتہا پسند رجیم سے کل کلاں بہتر رویوں کی امید کیوں رکھی جائے کہ آج وہ دونوں دنیاؤں کے مزے لوٹ رہا ہے۔۔۔ یعنی ملک سے باہر دہشت گردی اور ملک کے اندر خوشحالی! (نیتن یاہو نے رجیم (Regime) کا لفظ بار بار اپنی تقریر میں استعمال کیا ہے۔ ویسے اس کا لغوی معنیٰ تو ’’طرزِ حکومت‘‘ ہے لیکن ایسا طرز حکومت کہ جس کو جائز اور مثبت معنوں میں نہیں لیا جاتا۔ مترجم)
دوستو! یہ وہ سوال ہے کہ جو آج ہمارے خطے میں ہر کوئی پوچھ رہا ہے۔ ایران کے ہمسائے جانتے ہیں کہ جب اس کی اکانومی کو زنجیروں سے آزاد کر دیا گیا اور جب اس کے لئے بم سازی کا راستہ صاف ہو گیا تو وہ زیادہ جارح اور جارحیت کا زیادہ سپانسر بن جائے گا۔(جاری ہے)