امریکہ بھارت کی طرح پاکستان کیساتھ بھی ایٹمی معاہدے کرے ،ڈائریکٹر امریکی تھنک ٹینک
ویانا(عمر شامی)سابق امریکی سفارتکارا ورتھنک ٹینک انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹجک سٹڈیز کے ڈائریکٹر برائے ایٹمی عدم پھیلاؤ اور تحدید اسلحہ پروگرام مارک فٹنر پیٹرک نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہنے کا کوئی راستہ نکالنا چاہیے بصورت دیگر ان دونوں ملکوں میں سے کسی کی بھی طرف سے کوئی غلطی ہونے سے ایٹمی جنگ شروع ہو سکتی ہے جس کے نتائج پوری دنیا کے لئے تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ویانامیں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ کو چاہیے کہ پاکستان کے ساتھ بھی اسی طرح کا ایٹمی معاہدہ کرے جس طرح کا اس نے بھارت کے ساتھ کیا ہے تاہم اس کے لئے پاکستان کے سی ٹی بی ٹی پر ستخط کرنے کی شرط رکھی جانی چاہیے ۔مارک فٹنر پیٹرک نے امریکی محکمہ خارجہ میں مختلف ذمہ داریوں پر کام کیا ہے جبکہ ریٹائر ہونے سے پہلے انہوں نے اسسٹنٹ سیکرٹری برائے ایٹمی عدم پھیلاؤ کی حیثیت سے فرائض انجام دیئے۔انہوں نے بہت سے مضامین بھی لکھے ہیں جن میں نیوکلیئر بلیک مارکیٹ : پاکستان، عبدالقدیرخان اور ایٹمی پھیلاؤ سے متعلق نیٹ ورکس (2007)بھی شامل ہے۔ ان کی ایک کتاب بھی حال ہی میں شائع ہوئی جس کا نام ہے ’’اوورکمنگ پاکستانز نیوکلیئر ڈینجرز ‘‘۔ ویانا سنٹر برائے تحدید اسلحہ اور ایٹمی عدم پھیلاؤ کے زیر اہتمام ’’جنوبی ایشیاء :ایٹمی عدم پھیلاؤ سے متعلق چیلنجز اور مواقع ‘‘ کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مارک فٹنر پیٹرک نے پاکستان یا بھارت کی طرف سے کسی غلط اندازے یا غلط فہمی کی بنا پر ایٹمی ہتھیاروں کے ارادی استعمال سے جنوبی ایشیا کو لاحق خطرات کا ذکر کیا اور کہا کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ان دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان کسی حادثے یا کسی دہشت گرد حملے کے نتیجے میں مخاصمت بڑھی تو اس سے ایٹمی تصادم کا سنگین خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ سابق امریکی سفارتکار کی رائے تھی کہ میدان جنگ میں ایٹمی ہتھیاروں کی تنصیب سے روایتی جنگ کے ایٹمی میں بدلنے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔مارک فٹنرپیٹرک نے کہا کہ جنوبی ایشیا دنیا کا نیوکلیئر فلیش پوائنٹ رہا ہے اور اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان عدم اعتماد کی موجودہ کیفیت جاری رہی تو پھر اگلا بحران محض وقت آنے کا معاملہ ہوگا، اس حوالے سے دونوں ملکوں میں اس تباہی کے متعلق بہت زیادہ عوامی اور ادراک نہ ہونا افسوسناک ہے، جوایٹمی تصادم خصوصاً جنوبی ایشیا اور عموماً پوری دنیا کے لئے لا سکتاہے۔ایک حالیہ تحقیقی جائزہ کے حوالے سے انہوں نے جنوبی ایشیا میں ایٹمی جنگ سے قریباً دو کروڑ افراد لقمہ اجل بن سکتے ہیں اور اس جنگ کے مابعد ماحولیاتی اثرات سے کم از کم دو ارب لوگوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔امریکی ڈائریکٹرنے پاکستان اور بھارت پر زور دیا کہ وہ ایٹمی معاملات پر اپنی گفت و شنیدمیں مزید شفافیت لائیں،انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے ایٹمی ڈاکٹرائنز سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے بارے میں اعتماد کی کمی کا شکار ہیں، کسی بھی غلط فہمی کے بہت ہی چھوٹے امکان سے بھی بچنے کا میکانزم بناناہوگا۔ انہوں نے کہا اس بارے میں زیادہ توقع نہیں رکھی جانی چاہیے کہ جنوبی ایشیا میں بڑے ایٹمی بحران نے سر اٹھا یا تو امریکہ ہر وقت کوئی معاہدہ کرا دینے کی صلاحیت کا حامل ہوگا،بہت سے عوامل کے باعث دونوں ملکوں پر امریکی اثر و رسوخ بتدریج ختم ہو رہا ہے ۔ اس لئے امریکہ آئندہ پیدا ہونے والی صورتحال میں سمجھوتہ کرانے کے قابل نہیں بھی ہو سکتا ، دونوں ملکوں کی قیادت کو اپنا مقدر اپنے ہاتھوں میں رکھنا ہوگا۔امریکی تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ جنوبی ایشیا میں ایٹمی دہشت گردی کا خدشہ انتہائی کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اصل خطرہ پاکستان اور بھارت میں سے کسی کے بھی جنگ کے موقع پر ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے اوردوسرے کی طرف سے اس کابڑا بہت جواب دینے کی صلاحیت ہے۔ انہوں نے امریکہ کی طرف سے کئی ملکوں کو ایٹمی صلاحیت مہیا کئے جانے اور اسی ضمن میں پاکستان کی طرف سے ایٹمی چھڑی مہیا کرنے کے حوالے سے سعودی عرب کے ساتھ مبینہ خفیہ معاہدے کی مکمل طور پر نفی نہیں کی جا سکتی۔اس بات کا انتہائی تھوڑاامکان ہے کہ پاکستان سعودی عرب کو ایٹمی ہتھیارفراہم کرکے بین الاقوامی پابندیوں کو دعوت دے گا تاہم ضرورت پڑنے پر وہ ایسا کر بھی سکتا ہے۔اس سوال کے جواب میں کہ کیا ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی )پر پوری طرح عملدرآمدہو رہا ہے۔ مارک فٹنر پیٹرک نے کہا کہ پانچ مسلمہ ایٹمی طاقتوں امریکہ، روس،برطانیہ،فرانس اور چین کو بھی اپنے ایٹمی ذخائر تلف کرنا ہونگے تاکہ جنوبی ایشیا سے ایٹمی ہتھیار ختم کئے جانے کے مطالبے کو زیادہ اخلاقی جواز مہیاکیاجاسکے۔
امریکی ڈائریکٹر نے کہا اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں انتہا پسند گروپ حالیہ برسوں میں کئی گنا بڑھ گئے ہیں،اگرچہ امریکی ڈرون حملوں میں بہت سے دہشت گرد بھی مارے گئے مگر عام شہریوں کی ہلاکتوں سے کئی پشتون انتقام لینے کی غرض سے انتہا پسندوں کی صفوں میں شامل ہو گئے۔ لہٰذا دہشت گردی کی لعنت کے خلاف لڑنے میں پاکستان کی مدد کرنے سے امریکہ کی ذمہ داری کو مکمل طورپر نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کئی برسوں سے دہشت گردی کے خلاف لڑ رہا ہے اس لئے وہ عالمی برادری کی طرف سے ہمدردانہ سلوک کا مستحق ہے تاہم پاکستان کو خود بھی شفاف ہونا چاہیے اور تما م دہشت گرد تنظیموں کو بلا امتیاز ختم کیاجانا چاہیے۔مارک فٹنر پیٹرک نے آئی ایس آئی اور بعض جہادی تنظیموں کے درمیان مبینہ رابطوں کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ماضی میں پاکستان کی انتظامیہ نے مقبوضہ کشمیر میں تخریب کاری کرنے والے گروپوں کے بارے میں چشم پوشی اختیارکئے رکھی،اگلے چند برسوں میں پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے اقدامات ملک کی حقیقی سمت کا تعین کریں گے جو سانحہ پشاور سے ہل کر رہ گئی تھی۔ انہوں نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے محفوظ ہونے کے ضمن میں بھارتی حکومت کے عام طور پر لگائے جانے والے الزامات کو من گھڑت قرار دے کر مسترد کر دیا اور کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نہ صرف ایٹمی ملک کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری کو سمجھتی ہے بلکہ اس نے امریکہ کی مدد سے اپنے ایٹمی اثاثے محفوظ رکھنے کے حوالے سے جامع طریقے بھی اختیار کر رکھے ہیں۔
امریکی ڈائریکٹر