حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن انکوائری ٹربیونل کے قیام پر خود ہی اعتراض اٹھادیا ،لاہور ہائی کورٹ میں دلچسپ صورتحال
لاہور(نامہ نگار خصوصی )لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس خالد محمود خان ، جسٹس محمد انوارالحق اور جسٹس عبدالستار اصغر پر مشتمل فل بنچ کے روبرو سانحہ ماڈل ٹاو ¿ن کی جوڈیشل انکوائری کی رپورٹ منظر عام پر لانے اور اس سانحہ کی انکوائری کے لئے جوڈیشل ٹربیونل کی تشکیل کے خلاف دائر دو الگ الگ درخواستوں کی مشترکہ سماعت کے دوران اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی جب پنجاب حکومت کے وکیل مصطفی رمدے نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی انکوائری کے لئے قائم کئے گئے جوڈیشل ٹربیونل کی قانونی حیثیت پر خود ہی سوال اٹھادیا اور عدالتی استفسار پر کہا کہ بادی النظر میں جوڈیشل ٹربیونل کی تشکیل قانون کی خلاف ورزی ہے اور ایسا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوسکتا تھا چیف جسٹس نے جو نوٹیفکیشن جاری کیا وہ بھی قانون کے خلاف ہے ،جس پر بنچ کے سربراہ جسٹس خالد محمود خان نے ریمارکس دئیے کہ انکوائری کے لئے دو دو خط لکھ کر ہائی کورٹ کے ججز سے مذاق کیا جارہا ہے۔فاضل بنچ نے ماضی میں بننے والے تمام انکوائری ٹریبونلز اور جوڈیشل کمیشنزسے متعلق نوٹیفکیشنز طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 13مارچ تک ملتوی کردی ۔اس سے قبل انکوائری ٹربیونل کی تشکیل کے خلاف دائرقمر سہیل کی درخواست پر سماعت شروع ہوئی تو ان کے وکیل آفتاب باجوہ نے موقف اختیار کیا کہ ہائی کورٹ کے جج سے انکوائری کروانے کا نوٹیفکیشن عدلیہ کے اختیارات میں مداخلت ہے اور آئین کے آرٹیکل175اورعدالتی فیصلوں کے منافی ہے۔ہائی کورٹ کے جج کو ٹریبونل کا ممبر نہیں بنایا جاسکتا کیوں کہ قانون کے مطابق ٹربیونل نے انتظامی حیثیت سے کام کرنا ہوتا ہے ۔عدالت نے رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ سے متعلقہ ریکارڈ طلب کیا تو دو خط عدالت کے سامنے آئے ۔ایک خط میں حکومت پنجاب نے دفعہ176 ضابطہ فوجداری کے مطابق انکوائر ی کرنے کا کہا تھاجبکہ دوسرے خط میں پنجاب ٹریبونل انکوائری آرڈنینس1969کے تحت ٹریبونل بنانے کا کہا گیا تھا ،جسٹس خالد محمود خان نے حکومت پنجاب کے وکیل مصطفےٰ رمدے سے استفسار کیا کہ دو نوٹیفکیشن کیوں جاری ہوئے ہیں اس پر انہوں نے جواب دیا کہ بادی النظر میں یہ قانون کی خلاف ورزی ہے اور ایسا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوسکتا تھا چیف جسٹس نے جو نوٹیفکیشن جاری کیا وہ بھی قانون کے خلاف ہے، جسٹس خالد محمود خان نے ریمارکس دئیے کہ یہ تو ہائی کورٹ کے ججز سے مذاق کیا جارہا ہے۔
دوسری طرف جوڈیشل انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کے لئے دائر درخواست میں اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ پوری دنیا میں انکوائری ٹریبونل تشکیل دئیے جاسکتے ہیں اور انڈیامیں بھی1952 کا قانون موجود ہے مگر ہمارے قانون میں نقائص ہیں اور سیکشن11 میں حکومت وقت کو ضرورت سے زیادہ اختیارات دے دئیے گئے ہیں جو رپورٹ حکومت کے حق میں آتی ہے اس پر عملدرآمد ہوجاتا ہے اور جو پسند نہیں آتی وہ ردی کی ٹوکری میں پھینک دی جاتی ہے ،انڈیا میں جوڈیشل ٹریبونل کی رپورٹ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کی جاسکتی ہے۔ جسٹس خالد محمود خان نے ریمارکس دئیے کہ عدالت یہی چیز تو دیکھنا چاہتی ہے کہ کیا یہ عدالتی معاملات میں مداخلت ہے ۔ اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ جب تک سانحہ ماڈل ٹاو ¿ن کی رپورٹ اور تمام ریکارڈ عدالت کے سامنے نہیں آتا جوڈیشل ٹربیونل کے قیام کے نوٹیفکیشن کی حیثیت نہیں دیکھی جاسکتی ۔17جون2014 ءکو ہوم سیکرٹری حکومت پنجاب نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی مشاورت سے جسٹس علی باقر نجفی صاحب کو انکوائری ٹریبونل بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا اس نوٹیفکیشن میں کوئی سقم نہیں ہے اگر حکومت پنجاب یہ سمجھتی ہے کہ یہ نوٹیفکیشن غلط ہے تو یہ نوٹیفکیشن حکومت پنجاب کو واپس لے لینا چاہیے تھا،اس وقت جبکہ نوٹیفکیشن پر عملدرآمد ہوچکا ہے ٹریبونل کی انکوائری رپورٹ آچکی ہے اور اس پر عملدرآمد ہونا چاہیے ۔
حکومت نے پہلے اس پر عملدرآمد روکنے کے لئے جسٹس (ر) خلیل الرحمن خان کی سربراہی میں 03رکنی ایک کمیٹی تشکیل دی جو سیکرٹری قانون اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب پر مبنی تھی اور اب ٹریبونل کے قیام پر تحفظات ظاہر کئے جارہے ہیں ۔حکومتی وکیل مصطفی رمدے نے عدالت کو بتایا کہ حکومت پنجاب کی کوئی بدنیتی نہیں ،حکومت نے عدلیہ کی آزادی کو ملحوظ خاطر رکھنا ہے ۔محمد اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ ٹربیونل کے قیام کے مروجہ قانون کو اس وقت چھیڑا گیا یا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا گیا تو ماضی میں ہونے والی جوڈیشل انکوائریوں کی رپورٹوں پر بھی سوالیہ نشان اٹھ جائیں گے جس پر جسٹس عبدالستار اصغر نے ریمارکس دئیے کہ یہ معاملہ بعد میں دیکھیں گے پہلے ٹربیونل کی قانونی حیثیت کا جائزہ لیں گے ۔ بیرسڑعلی ظفر نے استدعا کی کہ پہلے تمام ریکارڈ منگواءلیا جائے پھر کیس کا فیصلہ کیا جائے جس پرعدالت نے ماضی میں بننے والے تمام ٹربیونلز اور کمیشنز سے متعلقہ نوٹیفکیشنز طلب کرتے ہوئے مزید سماعت 13مارچ تک ملتوی کردی ۔