احتساب ادارے کیوں؟

احتساب ادارے کیوں؟
 احتساب ادارے کیوں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اگر ملک میں پولیس ، عدالتیں اور تحقیقاتی ادارے موجود ہوں تو کیا احتساب کے نام پر کسی ادارے کی گنجائش موجود ہوتی ہے؟ آپ امریکہ، یورپ اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک کو لے لیں یا پھر ایشیا اور افریقہ کے غیر ترقی یافتہ ممالک کو دیکھ لیں، آپ کو پاکستان کے قومی احتساب بیورو (نیب) جیسا ادارہ کسی اور ملک میں نہیں ملے گا۔ وفاقی محتسب کا ادارہ، ضرور کئی ملکوں میں ہوتا ہے ، لیکن اس کا کام شکایات کا جائزہ لے کر احکامات جاری کرنا ہوتا ہے۔ ایک ایسا ادارہ، جہاں محتسب کا ادارہ ہو، پولیس بھی ہو، وہ لوگوں کو گرفتار کرتی ہو اور انہیں قید میں رکھتی ہو، وہ تحقیقاتی ادارے کے تمام اختیارات او ر ہتھکنڈوں سے بھی لیس ہو اور ساتھ ہی ساتھ وہ عدالت بھی ہو جو لوگوں کو سزائیں سنانے کے مکمل اختیارات رکھتی ہو، ایسا تھری ان ون ادارہ پوری دنیا میں کہیں نہیں ہے۔ یہ صرف پاکستان ہی ہے جہاں ڈکٹیٹر احتساب کے نام پر سبق یاد نہ کرنے والے شرارتی ’’بچوں‘‘ کو گرائنڈ کرنے کے لئے احتساب بیورو بناتے ہیں ، ہاں البتہ یہ بات ضرور ہے کہ جس بچے کو سبق ازبر ہو جائے اسے وزارت اور امارت کے اونچے درجوں پر فائز کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں نیب ایک اسی طرح کا ادارہ ہے جسے بنانے والے ڈکٹیٹر کا مقصد یہ تھا کہ جس بچے کو سبق یاد نہ ہو اسے اسے اتنی دیر تک گرائنڈ کیاجائے جب تک وہ اپنا سبق یاد نہیں کرلیتا۔


12 اکتوبر 1999ء کو پاکستان میں منتخب حکومت پر شب خون مارا گیا اور جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تو پاکستانی عوام کی طرف سے دئیے گئے دو تہائی اکثریت کے مینڈیٹ کے حامل وزیر اعظم میاں محمدنواز شریف کو گرفتار کرکے اٹک قلعہ میں بند کر دیا ۔ اس کے بعد جیسا کہ ہر مارشل لاء میں ہوتا ہے کہ ملک پر غیر آئینی طور پر قابض ڈکٹیٹر نے احتساب کا نعرہ بلند کردیا کیونکہ یہی وہ آسان ترین نسخہ ہے جو ایک غیر قانونی اور غیر اخلاقی حکمران کے پاس بکثرت پایاجاتا ہے۔ مختلف ملکوں کے فوجی حکمران اسی سے استفادہ کر کے اپنی غیر آئینی حکومت کا جواز پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی ایک ماہ بعد ہی اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے ایک سات نکاتی ایجنڈے کا اعلان کیا، جس میں سے ایک نکتہ احتساب کا بھی تھا، یوں 16 نومبر 1999ء کو ایک آرڈیننس کے ذریعے ملک میں قومی احتساب بیورو معرض وجود میں آیا جو اپنے مخفف نیب کے نام سے زیادہ معروف ہے۔اب اس ادارے کو بنے 16سال سے زائدکا عرصہ گذر چکا ہے ، اس دوران اس نے کتنا احتساب کیا اور کتنا اپنے مخالفین کے بازو مروڑنے کے لئے استعمال ہوا، یہ ایک اہم باب بن کر ہماری تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہو چکا ہے۔


جنرل پرویز مشرف نے جب نیب بنایا تو شروع کے سالوں میں ایک حاضر سروس جرنیل کو اس کا سربراہ لگایا جاتا رہا۔ اس کے پہلے چیئرمین لیفٹنٹ جنرل سید محمد امجد تھے جو ایک شریف اور نیک نام انسان ہونے کی وجہ سے زیادہ عرصہ نہ چل سکے ، انہوں نے سویلین کے ساتھ ساتھ جب ان چھ فوجی سودوں کی تحقیقات بھی شروع کر دیں، جن کی شفافیت کے بارے میں شکوک و شبہات موجود تھے تو جنرل پرویز مشرف نے انہیں چیئرمین کے عہدے سے ہٹا دیا۔ جنرل سید محمد امجد کے بعد نیب کو کھل کر کھیلنے کا لائسنس مل گیا، ان کے بعد آنے والے کئی چیئرمین ایسے تھے جن کے اپنے اوپر بھی سوالیہ نشان موجود تھے۔ ان کے بعد آنے والوں نے سیاست دانوں کے بازو مروڑ کر زبردستی ، بلیک میلنگ اور مقدمات میں پھنسا کر انہیں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سے نکال کرمسلم لیگ(ق) بنوائی،یوں نیب کا سب سے بڑا استعمال کنگز پارٹی بنانا اور جمہوری سیاسی پارٹیوں کو توڑنا رہ گیا۔ شروع کے سالوں میں نیب کی’’ کریڈیبلٹی‘‘ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے جمہوری دور حکومت کے وزیر مواصلات عوامی نیشنل پارٹی کے اعظم خان ہوتی کو کرپشن کے کیس میں گرفتار کر لیا ۔ ان پر الزام تھا کہ اسلام آباد میں پے فونز کی تنصیب کے پراجیکٹ میں انہوں نے کروڑوں روپے کی کرپشن کی ہے۔نیب عدالت نے بہت جلدی میں ان کے خلاف مقدمے کی سماعت کی اور 14 سال قید بامشقت کی سزا سنا دی، لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا اس نے نیب کا پول کھول دیا اور احتساب کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹ گئی ۔


اس بات سے قطع نظر کہ انہوں نے کرپشن کی تھی یا نہیں، انہیں گرفتار کرنے سے چھوڑ دینے کا واقعہ زیادہ دلچسپ ہے۔ امریکہ بہادر کو افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم کرتے وقت پاکستانی صوبہ سرحد میں عوامی نیشنل پارٹی کی سیاسی حمایت درکار تھی، چنانچہ اس نے کہا کہ وہ اعظم خان ہوتی کو چھوڑ دے۔ ویسے تو جنرل پرویز مشرف ہوا میں مکے لہرانے کے لئے مشہور تھے ، لیکن اس معاملے میں وہ امریکی دباؤ برداشت نہ کر سکے اور انہوں نے اعظم خان ہوتی کی ’’خرابئ صحت‘‘ کو جواز بنا کر رہا کر دیا۔ اس میں سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ جس ملزم کو خرابئ صحت کی وجہ سے چھوڑا گیا، اس کی رہائی اس شان سے ہوئی کہ اس نے سینکڑوں موٹر گاڑیوں کے ایک بہت بڑے جلوس کی نہ صرف قیادت کی، بلکہ مختلف جلسوں سے خطاب بھی کیا ۔ یہ ایک ٹسٹ کیس تھا جس میں نیب بری طرح ناکام ہوا۔ لوگوں کا سیدھا سادا سوال تھا کہ اگر اعظم خان ہوتی بے قصور تھا تو گرفتاری اور 14 سال قید بامشقت کی سزا کیوں دی گئی اور اگر وہ قصوروار تھا تو ’’خرابئ صحت‘‘ کا جواز بنا کر چھوڑا کیوں؟ اور یہ کون سی خرابئِ صحت ہوتی ہے جس میں رہائی پانے والا ملزم ہسپتال جانے کی بجائے ریلیاں نکالتا اور جلسے جلوسوں سے خطاب کرتا پھرتا ہے۔ اعظم خان ہوتی کے واقعہ کے بعد نیب کا سارا کچا چھٹا کھل کر سامنے آگیا۔

جب نیب بنائی گئی تھی تو ایک درجن سے زائد رٹ سپریم کورٹ میں داخل کی گئی تھیں، جس میں سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ وہ نیب کو متوازی عدالتی نظام نہ بنائے اور اسی طرح نیب آرڈیننس کی بہت سے ڈریکولائی شقیں ختم کر دی گئی تھیں۔ اندازہ کیجئے کہ اگر سپریم کورٹ NAB کا ڈریکولا پن ختم نہ کرتی تو آنے والے سالوں میں اس نے پاکستان میں ظلم ودہشت کا ایک ماحول برپا کئے رکھنا تھا۔ اسفند یار ولی خان کیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کی تقرری کو چیف جسٹس پاکستان کی مشاورت اور اس کو ہٹانے کے طریقہ کار کو آئین کے آرٹیکل209 سے مشروط کر دیا۔اسی طرح نیب آرڈیننس میں پائی جانے والی بہت سی خرابیوں کی نشاندہی کرکے انہیں دور کرنے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ بھی دیا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 199 میں ہائی کورٹس کو جو اختیارات دئیے گئے ہیں ، انہیں کسی بھی طور نیب آرڈیننس سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ان احکامات کے باوجود نیب ڈھٹائی سے سیاست دانوں کو توڑنے اور بیوروکریٹس کو ہراساں کرنے میں مصروف رہی، یہاں تک کہ سول بیوروکریسی کے سروں پر آرمی مانیٹرز بٹھا دئیے گئے جنہوں نے ہر سرکاری محکمے میں مداخلت کرنا شروع کردی ، پوسٹنگ، ٹرانسفر اپنے ہاتھ میں لے لی اور سول بیوروکریسی کو عملاً غیر فعال کر دیا۔ ان مانیٹرز نے نیب کے پہلے ہی سال میں 2500 افسروں کو وفاقی سیکریٹریٹ اور 1000 کو سی بی آر سے معطل یا برطرف کر دیا۔ اس ضمن میں جنرل پرویز مشرف نے سروس سے برخاستگی کا آرڈیننس 2000 ء جاری کیا۔ نیب نے یہ سب کچھ اتنے بھونڈے طریقہ سے کیا کہ سپریم کورٹ نے ان تمام اقدامات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے تمام افسران کو بحال کر دیا جو نیب کے لئے انتہائی خفت اور شرمندگی کا باعث بنا۔ نیب کو بنے ہوئے اب سولہ سال سے زائد ہو چکے ہیں ، لیکن کسی بھی وقت ان کی کارکردگی قابل رشک نہیں رہی۔ ویسے بھی اس ادارے کی تشکیل کا مقصد سیاسی مخالفین کی گردن دبوچ کر زبردستی سرکاری کنگز پارٹی میں شامل کرنا تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پرویز مشرف کے مستعفی ہونے کے بعد ملک میں جب جمہوریت بحال ہوئی تونیب کو ختم کرکے میثاق جمہوریت کو مضبوط کیا جاتا، لیکن آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف دونوں نے اٹھارویں ترمیم کو آئین کا حصہ بناتے ہوئے بہت بڑی تاریخی غلطی کا ارتکاب یہ کیا کہ نیب کا ادارہ ختم نہیں کیا۔ پچھلے کچھ دنوں میں وزیر اعظم میاں محمدنواز شریف اور وزیر اعلیٰ میاں محمدشہبازشریف کے علاوہ آصف علی زرداری، پرویز رشید اور کئی دیگر سیاسی لیڈر کئی مواقع پر نیب کو آڑے ہاتھوں لے چکے ہیں۔میرے خیال میں بہتر ہو گا کہ پاکستان کی اہم سیاسی پارٹیاں ملک میں موجود دوسری پارٹیوں کے ساتھ مل کر نیب کو ختم کرنے کی باقاعدہ قانون سازی کریں، کیونکہ خا لی برا بھلا کہنے سے کچھ نہیں ہوگا، بلکہ اس کے لئے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ دنیا بھر کے دوسرے ممالک کی طرح پولیس، تحقیقاتی اداروں اور عدلیہ کو انتہائی مضبوط کر دیا جائے ۔

مزید :

کالم -