افغان امن مذاکرات اور امریکہ ۔ ۔ ۔
امریکا افغانستان میں خون اور پیسا بہا بہا کر تھک گیا ہے 2350 امریکی فوجی مروانے، 20000 امریکن فوجی زحمی کروانے اور ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ کا قرضہ چڑھانے کے بعد بھی امریکا کچھ نا حاصل کر سکا، زخمی امریکی فوجیوں کا خرچہ جو اگلے 30 سے 40 سال امریکی حکومت کو اٹھانا پڑے گا ، وہ بھی ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہوگا، ایک ریسرچ کے مطابق وسطی ایشیا میں جنگیں لڑنے کے لیے امریکا نے جو قرضہ لیا اس کا سالانہ سود ہی 453 بلین ڈالر اور اگلے 40 سال تک امریکا کو اس سود کی ادائیگی کے لیے مزید 9۔7 ٹریلین ڈالر کا قرضہ لینا ہو گا۔
جنگ سے امریکا اپنی اتنی تباہی کر چکا جو طالبان اور القاعدہ سو سال میں بھی نا کر پاتے، امریکا اب افغانستان کے بوجھ سے رہائی چاہتا ہے جو کہ 45 بلین ڈالر سالانہ کی صورت میں اس پر لدا ہے، امریکی 14 ہزار فوجیوں کا خرچہ 13 بلین ڈالر ہے جبکہ دو لاکھ افغان فوج پوری کھڑی کرنے کے لیے سالانہ خرچہ 5 بلین ڈالر ہے جو کہ ثابت کرتا ہے کہ امریکن فوج افغانستان میں جنگ لڑنے کی اہل نہیں ۔
امریکہ افغانستان سے نکلنے کو تیار بیٹھا ہے، مذاکرات میں امریکہ کا مطالبہ ہے کہ افغان سرزمین امریکا کے خلاف استعمال نہیں ہو گی جبکہ طالبان امریکی فوجیوں کا انخلا چاہتے ہیں، امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان پاور شیئرنگ کا کوئی منصوبہ ذیر غور نہیں اور امریکی فوج کا انخلا ایک بار پھر افغانستان کو جنگ کی طرف دھکیل دے گا ،یہ بالکل واضح ہے ۔
افغان فوج جو کہ بلڈ اپ کے عمل سے گزر رہی ہے کو 2023 تک 5 بلین ڈالر سالانہ کی ضرورت ہو گی جبکہ اس کے بعد اس کو اپنی خدوخال برقرار رکھنے کے لیے ایک بلین ڈالر سالانہ کی ضرورت ہو گی، امریکا افغانستان سے انخلا کے بعد بھی کیا افغان فوج کی ذمہ داری ادا کرے گا؟ دیکھنے کے لائق ہو گا جبکہ امریکی فضائیہ کے بنا جس نے طالبان کا غزنی سے قبضہ چھڑانے میں اہم کردار ادا کیا تھا کے بغیر افغان فوج کس حد تک طالبان کا سامنا کر سکتی ہے، یہ بھی بڑا سوال ہے ۔
افغانستان میں امریکی ہدف شدت پسندی کا خاتمہ تھا، 17 سال میں امریکہ نا صرف جنگی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا بلکہ افغانستان میں روشن پسند سوچ بھی نا ابھار سکا، نا افغان اکانومی کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر سکا، نا افغانستان میں تعلیم و تربیت کا پرچار کر سکا، نا ہی افغانستان میں انفراسٹرکچر ڈیویلپ کر سکا ۔امریکا نے اس سب کے لیے 100 بلین ڈالر ہی خرچ کے جو کہ نا کافی ثابت ہوئے لیکن اس سب کے اخیر میں پاکستان کی پالیسی صحیح ثابت ہوتی نظر آ رہی ہے، تمام تر بیرونی پریشر کے باوجود پاکستان نے امریکا دشمن (افغان طالبان ) کو اپنا دشمن ماننے سے انکار کیا لیکن اس انکار کے بدلے میں افغان حکومت کو اپنا دشمن بنایا جس کا نقصان بھی ہوا لیکن امریکی فوجوں کے انحلا کے بعد پاکستان وننگ سائیڈ کی طرف کھڑا نظر آتا ہے۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’dailypak1k@gmail.com‘ پر بھیج دیں۔