”میرا جسم، میری مرضی“ اقبال کی نظر میں (1)

”میرا جسم، میری مرضی“ اقبال کی نظر میں (1)
”میرا جسم، میری مرضی“ اقبال کی نظر میں (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

8مارچ کو گلوبل سکیل پر یومِ نسواں منایا گیا۔ لیکن پاکستان میں کئی روز پہلے ہی اس موضوع پر لے دے شروع ہو گئی تھی۔ دراصل دورِ حاضر الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے۔ قوم کے بہت سے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے ہاتھوں میں موبائل فون کی شکل میں ”کھل جا سم سم“ آیا ہوا ہے۔ صرف نوجوانوں ہی پر منحصر نہیں، ادھیڑ عمر اور ہم جیسے بزرگ بھی سوشل میڈیا کو نہ چاہتے ہوئے بھی دیکھنے اور پڑھنے پر مجبور ہیں۔ واٹس آپ، انسٹا گرام، ٹوئٹر وغیرہ نے ترسیل و حصولِ معلومات کو ارزاں ہی نہیں مفت کر دیا ہے۔ کسی وڈیو یا آڈیو کو دیکھ کر اگر آپ اس کے مندرجات سے متفق نہ ہوں تو اس پر تبصرہ کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ اگر اردو کی بورڈ (Key Board)پر دسترس نہیں تو رومن اردو پر تو ہے۔ آج کل بہت لکھے پڑھے افراد بھی رومن اردو کا سہارا لیتے دیکھے جاتے ہیں۔ یعنی اپنے مدعا کو انگریزی حروفِ تہجی میں لکھ کر اسے اردو ”بنا“ دیتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان مفت واٹس اَپ وغیرہ کی Apps کا سب سے بڑا نقصان وقت کا ضیاع ہے۔ مین سٹریم الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا نے مل کر جہاں قوم کی بے راہ روی کے فروغ کا ٹھیکہ لے رکھا ہے وہاں چند ایک کلپس (Clips) ایسے بھی نظر آ جاتے ہیں جو شائد آپ کی معلومات میں کوئی مثبت اضافے کا سبب بنتے ہوں وگرنہ تو اس الیکٹرانک گیم میں آپ کی ہار ہی ہار ہے!


میں 8مارچ کو عالمی سطح پر منائے جانے والے یومِ نسواں کا ذکر کر رہا تھا…… اس روز ”عورت مارچ“ اور اس سے بھی کئی روز پہلے ”میرا جسم، میری مرضی“ جیسے موضوعات ہمارے ہاں دیکھنے اور سننے کو مل رہے تھے۔”میرا جسم، میری مرضی“ والے سلوگن کو پڑھ کر طائر خیال کی پرواز نجانے بلندیوں کی بجائے پستیوں کی طرف کیوں چلی جاتی ہے۔ کسی خاتون کا جب نکاح ہو رہا ہوتا ہے تو اس سے اس کے ”جسم کی مرضی“ہی کا سوال تو پوچھا جاتا ہے اور تین بار پوچھا جاتا ہے۔ یہ سوال نہ صرف اسلام کی ازدواجی حدود و قیود کا مرکزی نقطہ ہے بلکہ دوسرے آسمانی مذاہب (عیسائیت اور یہودیت وغیرہ) کی روایات و حدود بھی یہی ہیں۔ لیکن کسی دلھن سے بوقتِ نکاح ”میرا جسم، میری مرضی“ کا جو اقرار لیا جاتا ہے وہ ایک سیل (Cell) میں مقید ہوتا ہے۔ عورت اقرار کرتی ہے کہ اس کا جسم اس کی مرضی سے صرف ایک ہی مرد استعمال کر سکتا ہے، جو اس کو نظر آ رہا ہے اور وہ اسے خوب جانتی بھی ہے، جبکہ اس سلوگن کے وہ معانی جو آجکل مغرب میں آزادی ء نسواں کے نام سے سامنے لائے جا رہے ہیں وہ کسی سیل (Cell) میں مقید نہیں۔


مغرب میں اس سلوگن کے جو معانی لئے جاتے ہیں، وہ مادر پدر آزاد ہیں اور مشرقی ممالک بالخصوص اسلامی ممالک میں ان کے معانی قرآن و حدیث کے سیل میں مقید کر دیئے گئے ہیں۔ میں چاہتا تھا کہ اس کالم کا عنوان ”میرا جسم، میری مرضی، قرآن کی نظر میں“ رکھوں لیکن پھر خیال آیا کہ جدید معاشروں کی سماجی آزادیوں پر فریفتہ خواتین اس عنوان کو قدامت پرستانہ اور فرسودگی کا مظہر دیکھ کر منہ دوسری طرف پھیر لیں گی……کاش ایسا نہ ہوتا!…… سورۂ نسا میں اور اس کے علاوہ اور بھی کئی متعدد سورتوں اور آیات و احادیث میں عورت کے حقوق و فرائض کا جو تعین کر دیا گیا ہے وہ آنی نہیں، ابدی ہے، عارضی نہیں مستقل ہے اور وقتی نہیں دائمی ہے…… سوشل میڈیا کے بعض آڈیو وڈیو کلپس (Clips) میں اس موضوع پر جو پُرمغز اور مدلل مباحث ”میرا جسم، میری مرضی“ کے ”جدید معانی“ کے ابطال میں آ رہے ہیں، وہ بھی دیدنی اور شنیدنی اور لائقِ صدر ستائش ہیں!…… ’عورت اور قرآن“ کے موضوع پر تو میں نے کسی ٹاک شو کی ٹیم کو خال خال ہی کسی ٹی وی چینل پر 8مارچ کے پرائم ٹائم میں حصہ لیتے دیکھا ہے۔ لیکن ہم نے تو بھیڑ چال قائم رکھی اور خلیل الرحمن قمر اور ماروی سرمد کے مابین جو گالم گلوچ ہوئی بس اسی پر فوکس رکھا۔ ماروی سرمد کے نقطہ ء ہائے نظر اور افکار و آراء کو کون نہیں جانتا؟…… لیکن خلیل الرحمن کو کم کم لوگ جانتے تھے۔ چلو اس سلوگن نے ایک نسبتاً غیر معروف ادیب، شاعر، ڈرامہ نویس، ڈائریکٹر اور سکرپٹ رائٹر کا تعارف کروا کر ثوابِ دارین تو حاصل کیا (دیکھئے بعض غلط سلوگن حصولِ ثواب کے صحیح حقدار کیسے بن جاتے ہیں!)


پھر میری نظر حضرتِ اقبال کی طرف چلی گئی جنہوں نے ضربِ کلیم میں ”عورت“ کے عنوان سے نو (9) عدد مختصر نظمیں کہی ہیں اور ان میں اس موضوع پر زبردست کمالِ فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ میں قارئین کے سامنے فرمودۂ اقبال کے یہی چند پہلو رکھنا چاہتا ہوں۔ ویسے تو اقبال نے اپنی پہلی فارسی تصنیف ”اسرار و رموز“ میں بھی مقامِ نسواں کو ایک نمایاں جگہ دی ہے۔ لیکن چونکہ وہ فارسی میں ہے اور ہمارا آج کا قاری فارسی سے اگر قطعاً نابلد نہیں تو بہت کم آشنا اور بہت کم شناسا ہے، اس لئے فارسی نظموں کے حوالے نہیں دوں گا۔تاہم اقبال کی اس موضوع پر کہی گئی چندفارسی منظومات کے اردو عنوانات قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ اگر کوئی قاری اسی کا مطالعہ کرنا چاہے تو کلیاتِ اقبال (فارسی) ہر اچھی لائبریری میں دستیاب ہے اور اس کے ساتھ اردو ترجمہ بھی ہے۔ درجِ ذیل نظمیں بار بار پڑھنے کے لائق ہیں:
1۔ عورت، بقائے نوعِ انسان کی ضامن ہے اور عورت کا احترام عینِ اسلام ہے۔
2۔حضرت فاطمتہ الزہراؓ مستوراتِ اسلام کے لئے کامل نمونہ ہیں۔
3۔اسلامی عورتوں سے ایک خطاب۔


اقبال نے حضرت فاطمہؓ کا ذکر کرتے ہوئے جو اشعار کہے ہیں، ان میں سے چار پانچ کا ترجمہ ضرور دیکھ لیجئے۔ فرماتے ہیں:
1۔ حضرت مریمؓ صرف ایک نسبت سے عزیز ہیں کہ حضرت عیسیٰ کی والدہ ہیں لیکن حضرت فاطمہؓ تین نسبتوں سے عزیز ہیں۔ یعنی رحمت العالمینؐ کی نور چشم ہیں، حضرت علیؓ مشکل کشا شیر خدا کی بیگم ہیں اور حضرت امام حسینؓ کی والدۂ محترمہ ہیں۔
2۔اگر آئینِ حق اور جنابِ رسولِ خداﷺ کا فرمانِ گرامی اس کا اذن دیتا تو میں حضرت فاطمہؓ کے مرقد کے گردا گرد طواف کرتا اور ان کی خاکِ پاک پر سجدے نچھاور کرتا…… جی چاہتا ہے آخری دو اشعار فارسی میں بھی نذرِ قارئین کروں:
رشتہء آئینِ حق زنجیرِ پاست
پاسِ فرمانِ جناب مصطفیؐ است

ورنہ گردِ تربتش گروید مے
سجدہ ہا برخاکِ او پا شیدمے
ان کا ایک اور فارسی شعر یاد آ رہا ہے جس میں خواتینِ اسلام سے مخاطب ہیں اور فرماتے ہیں:
بتولےؓ باش و پنہاں شو ازیں عصر
کہ در آغوش شبیرےؓ بگیری
(اگر تو چاہتی ہے کہ تیری آغوش سے حضرت امام حسینؓ پیدا ہوں تو حضرتِ فاطمہؓ بن جا اور اس عصرِ جدید کی چکاچوند سے حجاب کر)
مقام و احترامِ نسواں کے موضوع پر اقبال کے کئی اور فارسی اشعار بھی نوکِ زبان بن رہے ہیں لیکن میں قارئین کو اس موضوع پر ان کے اردو اشعار کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں ……ضربِ کلیم میں عورت کے موضوع پر ایک مختصر اردو نظم یہ ہے:
ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا
مگر یہ مسئلہء زن رہا وہیں کا وہیں

قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں
گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ و پرویں

فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور
کہ مرد سادہ ہے، بے چارہ زن شناس نہیں
اس چھ مصرعوں والی چھوٹی سی نظم کا عنوان ہے ”مردِ فرنگ“……


ضرب کلیم کا سالِ اشاعت 1936ء ہے۔ اقبال 1905ء سے 1908ء تک یورپ میں رہے۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور سپین وغیرہ کو دیکھا۔ وہ کٹر ملّا نہیں تھے بلکہ ملا کو ہزار بار نشانہء تضحیک بنایا۔ لیکن جہاں تک عورت کے مقام کا تعلق ہے تو کہا کہ عورت ایک ایسی محترم ہستی ہے کہ جس کی شرافت کی گواہی چاند اور ستارے بھی دیتے ہیں۔ لیکن افسوس یہ حقیقت حکیمانِ فرنگ (مغربی فلاسفروں) کی سمجھ میں نہیں آئی کہ عورت کا مقام متعین کر دیں۔ یہی وجہ ہے کہ افرنگی سماج میں مسئلہء زن کی تفہیم کی ناسمجھی سے فساد پیدا ہو رہا ہے۔
دوسری نظم میں صرف دو شعر ہیں جو درج ذیل ہیں اور اس کا عنوان ہے: ”ایک سوال“
کوئی پوچھے حکیمِ یورپ سے
ہندو یوناں ہیں جس کے حلقہ بگوش

کیا یہی ہے معاشرت کا کمال؟
مرد بے کار و زن تہی آغوش


اقبال کی بصیرت ملاحظہ کیجئے کہ انہوں نے تقریباً ایک صدی پہلے اس دور میں عورت کے مقام کے بارے میں یہ راز فاش کر دیا تھا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب ہندوستان اور یونان (بلکہ اس دور کی ساری جدید دنیا) مغربی فلسفہء معاشرت کی حلقہ بگوش تھی۔ یہ یاد رہے کہ اقبال خود فلسفے کے طالب علم بلکہ استاد تھے۔ مغربی فلاسفہ کی تعلیمات اور یونانی فلاسفروں کی تصنیفات ان کو گویا ازبر تھیں۔ بقراط، سقراط، ارسطو، افلاطون،فیثا غورث وغیرہ یونانی حکما تھے اور یورپ کے جدید حکما میں نطشے، ہیگل، آئین سٹائن، برگساں، شوپن ہار، ٹالسٹائی، کارل مارکس، کومٹ، لاک، کانٹ…… کس کس کا ذکر اقبال نے پیامِ مشرق میں نہیں کیا اور ان کے فلسفہ کا نچوڑ نکال کر قاری کے سامنے نہیں رکھ دیا۔ لیکن ان سب کے ہوتے ہوئے بھی کوئی مغربی فلاسفر مقامِ نسواں کا تعین نہیں کر سکا۔ یہ صرف اسلام اور قرآن تھا (اور ہے)کہ جس نے عورت کے مقام کے ایک ایک پہلو کو اجاگر کرکے دکھایا۔تفسیر کی تفصیل میں بے شک نہ جایئے صرف کسی بھی اچھے مترجم کا قرانی ترجمہ اردو (یا انگریزی میں) پڑھ لیجئے۔آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ مغرب کی عورت تہی آغوش کیوں ہے اور مرد بیکار کیوں ہے۔ اس شعر میں بیکار کا مطلب بے روزگار نہیں، بلکہ ناکردہ کار، بے عقل، ناسمجھ اور نااہل ہے۔ ہم مغرب کو ایجادات کا امام مانتے ہیں لیکن اس امام نے کوئی ایسی ایجاد اب تک ہمارے سامنے نہیں رکھی جو مقامِ نسواں کا تعین کر سکتی۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ وہاں کی عورت آج ”میرا جسم، میری مرضی“ کی رٹ لگاتی اور اپنے جسم کے ایک ایک عضو کو نمایاں اور نیم برہنہ کرنے میں پیش پیش ہے۔اس کی صدائے بازگشت بعض ریلیوں میں آپ نے 8مارچ کو پاکستان میں بھی سنی اور دیکھی ہو گی۔ لیکن پاکستانی عورت کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی آزادی اور طرح کی ہے اور ”میرا جسم، میری مرضی“ کے علمبردار مغربی سلوگن کا مفہوم اور ہے۔(جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -