کیا امریکہ کو بھی دہشت گردی کا سامناہے؟

کیا امریکہ کو بھی دہشت گردی کا سامناہے؟
کیا امریکہ کو بھی دہشت گردی کا سامناہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


قانون قدرت ہے کہ نیکی کابدلہ نیکی اور برائی کا بدلہ برائی ہی سے ملتا ہے۔ انسان جو اعمال کرتا ہے اس کا اجروہ ضرور پاتا ہے۔ جو کسی کے لئے برا سوچتا ہے، اسے بھی برائی کا سامنا کرناہی پڑتا ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ اور برطانیہ کمزور ہوگئے تو انہوں نے اپنی کالونیوں کے حصے بخرے کرنا شروع کر دیئے۔ اس مقصد کے لئے خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں بنائی گئیں۔ اپنے من پسند اطاعت گزار عرب خاندانوں کو حکومتیں دیں۔ ان کا مقصد تقسیم تھا کہ مسلمان اگر سلطنت عثمانیہ کی طرح اکٹھے ہو گئے اور ان کی مرکزیت قائم رہی تومشکلات پیدا کریں گے۔سلطنت عثمانیہ کوختم کیا گیا تاکہ وحدت امت کو توڑا جاسکے۔تفرقہ بازی اتنی پیدا کی جائے کہ ایک مملکت ہونے کے باوجود مسلمان دست و گریبان رہیں۔ مرکزیت قائم نہ رہ سکے۔


 گذشتہ دو تین دہائیوں میں جو کچھ افغانستان میں ہوا، تباہی کا پیغام لایا۔ روس کے افغانستان سے انخلا کے لئے امریکی سرپرستی میں مسلم دنیا میں سے القاعدہ کے نام سے ایک تنظیم سامنے لائی گئی۔مدارس کے طلبا کو استعمال کیا گیا۔پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا(سابقہ سرحد) اور افغانستان میں ا س نجی جہادی گروہ کو طالبان کا نام دیا گیا۔جب روس خطے سے نکل گیا تومستقبل کا ایجنڈا کسی کے پاس نہ تھا۔ طالبان  اپنے علاقوں میں آئے تو انہوں نے پاکستان میں کارروائیاں شروع کر دیں۔انقلاب اسلامی ایران کے بعد 1979ء میں خطے میں استعماری قوتوں کا ایجنڈا بھی تبدیل ہوگیا۔ عوامی قوت کے ذریعے اسلامی نظام کا نفاذ عالم کفر کو ہضم نہ ہوا۔ اسلامی نظام کے اثرات کا دوسرے مسلمان معاشروں میں اثر یقینی تھا۔


افغانستان میں یورپی اتحاد کے خلاف جنگ لڑی گئی۔ مشرق وسطیٰ میں داعش بنائی گئی،جس نے اسلام کو بدنام کیا اور امن پسند مذہب کا خونخوار قسم کا چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیاکہ خود مسلمان بھی داعش برانڈ اسلام سے نفرت کرنے لگے۔ داعش نے اتنے مظالم کئے کہ انسانیت شرما گئی۔ زندہ انسانوں کو جلایا گیا، لائن میں کھڑے کرکے گولیوں کی بوچھاڑ،انسانوں کے گلے کاٹے گئے، بچوں کا قتل اور خواتین کوزبردستی کنیز یں بنا لینا کسی صورت سید المرسلین حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ تعلیمات نہیں۔


 داعش کا سرپرست یورپ اسلام کی بدنامی پر خوش ہوتا رہا۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اور وہ ظالموں سے انتقام بھی لیتا ہے۔ حالیہ مثال لے لیں۔ چھوٹا سا وائرس کورونا انسانوں کے لئے کیسے تباہ کن ثابت ہوا کہ اس نے انسان کی بنائی گئی جغرافیائی تقسیم کی پروا کئے بغیر امیر و غریب،کالے گورے، سربراہ مملکت اور مزدور کارکن تک کی تفریق کو ختم کردیا ہر کسی کو متاثر کیا۔دنیا کا حلیہ اور کلچر ہی بدل گیا۔ گویا جیسے سسکتی انسانیت پر ظلم و ستم کی سزا دی گئی ہو۔


 حیران کن طور پر6 جنوری 2021ء کو امریکہ میں ایک ایسا واقعہ ہوا کہ دنیا ورطہ حیرت میں مبتلا ہوئی اوراب تک سکتے میں ہے کہ یہ بھیانک واقعہ کیسے ممکن ہوا۔ وہ یہ کہ ہزاروں لوگ جھنڈے، ڈنڈے اور اسلحہ لے کرکیپیٹل ہل واشنگٹن پر حملہ آور ہوگئے۔ گانگریس کی بلڈنگ پر حملہ کر دیا گیا جبکہ اس وقت وہاں اجلاس ہو رہا تھا۔ بلوائیوں نے عمارتوں کے شیشے توڑ دیئے۔دیواریں پھلانگی گئیں۔ اراکین پارلیمنٹ کو بیسمنٹ کے محفوظ کمرے میں بند کردیاگیا۔ باہر ہٹلر زندہ باد کے نعرے لگائے جارہے تھے۔ 


اس بدامنی کے پیچھے ایک انتہا پسند تنظیم QAnonبتائی جار ہی ہے۔ جس کا آرگنائزر یا سربراہ ابھی تک تلاش نہیں کیا جاسکا۔ امریکہ میں یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو نائن الیون کو تسلیم نہیں کرتی اور موقف رکھتی ہے کہ دنیا کا نقشہ بدلنے والاواقعہ، یہودیوں کی سازش تھی۔ پینٹاگون کی بلڈنگ پر جو طیارہ گرایا گیا تھا وہ کہاں ہے؟ قوم کو دکھائیں تو سہی۔ان کا خیال ہے کہ کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ جو کچھ بھی ہوا ہے یہودیوں نے کیا ہے۔ یہ تنظیم یہودیوں کے خاتمے کا مطالبہ بھی کرتی ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں ایک واقعہ ہوا تھا کہ یہودیوں کے قبرستان میں قبروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ اس افسوسناک واقعہ کا ذمہ دار بھی اسی انتہاپسند تنظیم کو قراردیا جاتا ہے۔ اس تنظیم QAnonکے بارے میں کوئی اخبار، ادارہ، ایجنسی نہیں بتا رہی کہ تنظیم کا بانی کون ہے؟اس کے عہدیدار اور ممبران کون ہیں؟کچھ پتہ نہیں۔ لیکن امریکہ میں اس کی سرگرمیاں اور مقبولیت روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ یہ مذہب اور رنگ کے حوالے سے بھی تفریق پیدا کر رہی ہے۔کالے گورے، مسیحی اور یہودی کی تفریق کی بات کرتی ہے۔ یہ سفید چمڑے والے انگریز ہی کو امریکہ کا وارث اور حق دار سمجھتی ہے۔یہ تنظیم صرف امریکہ ہی میں وجود نہیں رکھتی، عالمی دہشت گرد بھی کہلاتی ہے۔ اسلامی دہشت گرد کی اصطلاح کے بعد اب کہا جارہا ہے کہ امریکہ میں بھی دہشت گردپیدا ہورہے ہیں۔ اور یہ سب QAnonکی وجہ سے ہی ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے یورپ میں اس تنظیم نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے۔


گویا جن امریکیوں نے مشرق وسطیٰ میں انتہا پسند تنظیموں سے مذہب اسلام کو بدنام کیا۔ ان کے اپنے پاس QAnonکے نام سے دہشت گردی پہنچ چکی ہے،یعنی جو کل تک مذہب کے نام پر مسلمانوں میں قتل و غارت گری کرواتے تھے۔ویڈیوبناتے تھے۔آج وہ اپنے ملک میں بے بس نظر آتے ہیں۔ کچھ وڈیو کلپس میں QAnonکے اراکین کے لیکچرز نظر آتے ہیں۔ گویا جو کل تک دوسرے ممالک میں دہشت گردی کو فروغ دیتے رہے، ان کے اپنے ممالک میں اسی بلا کا شکار ہوگئے ہیں۔ حکومت ان کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے۔ امریکی صدرجوبائیڈن بار بار دہشت گردی ختم کرکے قوم کو متحد کرنا چاہتے ہیں، جبکہ انتہا پسند اعلان کررہے ہیں کہ وہ پھر آئیں گے اور کیپیٹل ہل پر قبضہ کریں گے۔ اسی طرح امریکہ میں صدارتی انتخابات میں پیدا ہونے والی نفرت اورکشیدگی موجود ہے۔ ڈیموکریٹس کو ری پبلکن تسلیم کرنے کو تیار نظر نہیں آتے۔ کیپیٹل ہل پر فوج ابھی تک تعینات ہے۔ حکومت کانگریس اجلاس طلبی کو خفیہ رکھ رہی ہے۔ آرنیڈو ریاست میں ری پبلکن نے ٹرمپ کے جلسے کے دوران واضح اعلان کیا کہ صدر صرف ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ ڈیموکریٹس کے منتخب صدور کو تسلیم نہیں کیا جارہا۔ کانگریس پر دوبارہ قبضہ اور ٹرمپ کو دوبارہ صدر بنوانے کے دعوے بھی کئے جارہے ہیں۔ جبکہ نیویارک میں ایشیائی باشندوں سے نفرت کے واقعات بڑھ رہے ہیں انہیں گالیاں دی جاتی اور ان پر حملے کئے جارہے ہیں اور کورونا کورونا کے نعرے لگوائے جارہے ہیں۔ اب حالات کس طرف جاتے ہیں، اس کا اختتام نظر نہیں آرہا۔ 

مزید :

رائے -کالم -