ایکشن ری پلے، اب کیا ہو گا؟

ایکشن ری پلے، اب کیا ہو گا؟
ایکشن ری پلے، اب کیا ہو گا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


یہ14اپریل1977ء کی صبح کا ذکرہے۔لاہور میں موسم بہت خوشگوار تھا،آسمان پر بادل اور ٹھنڈی ہوا کے ساتھ بوندا باندی بھی ہو رہی تھی،اس روز گورنر ہاؤس کے لان میں شامیانے لگائے گئے تھے۔ان کے اندر پیپلزپارٹی کے ڈیڑھ دو ہزار(زیادہ بھی ہو سکتے ہیں،یہ میرا اندازہ ہے) جیالے بڑے پُرجوش نعرے لگا رہے تھے۔مجھے یاد ہے کہ ان میں معروف لوگ بھی تھے،آج جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو ان میں سے متعدد حضرات اللہ کو پیارے ہو چکے اور جو زندہ ہیں،وہ بوڑھے ہیں اور ماضی کو یاد کرتے ہیں،ذکر اس اہم دن کا ہے،اس وقت وزیراعظم (تب) ذوالفقار علی بھٹو گورنر ہاؤس کے مہمان خانے والی گیلری میں تھے اور یہ سب دیکھ رہے تھے، کارکنوں کا مطالبہ تھا کہ وہ ان کے درمیان آئیں،ذوالفقار علی بھٹو کا پیغام تھا کہ کارکن پہلے اپنے جذبات پر کنٹرول کریں۔بہرحال کارکنوں نے کچھ خاموشی اختیار کی تو بھٹو آ گئے،ان کی آمد پھر سے نعروں کا ذریعہ بنی۔روزنامہ”پاکستان ٹائمز“ کے کارٹونسٹ محمود بٹ اور شیخ غلام رسول بھی موجود تھے۔ ہمارے دوست محمود بٹ بہت پُرجوش اور نعرے لگا کر مطالبہ کر رہے تھے کہ جیالوں کو بھی باہر سڑکوں پر نکلنے کی اجازت دی جائے،بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ اسلحہ بھی دیا جائے کہ پی این اے (پاکستان قومی اتحاد) والوں کے پاس ہتھیار ہیں۔اس واقعہ سے پانچ  روز قبل9اپریل کا سانحہ ہو چکا تھا، ریگل چوک میں قومی اتحاد کے جلوس اور پولیس کے درمیان تصادم میں فائرنگ ہوئی اور مظاہرین جاں بحق  اور زخمی بھی ہوئے۔جذبات مشتعل تھے، حتیٰ کہ 9اپریل کے سانحہ کے بعد ہی رتن سینما اور لاہور ہوٹل کے سامنے والی بلڈنگ جلائی گئی اور پھر طارق وحید بٹ(مرحوم) کے گھر پر بھی دھاوا بولا گیا۔یوں گورنر ہاؤس میں موجود ان جیالوں کا پارہ اونچا تھا۔ذوالفقار  علی بھٹو نے ان کو بمشکل خاموش کرایا اور پھر ان کو جوابی مظاہروں اور کارروائی سے روکا۔ یہاں پہلی بار انہوں نے ”گرے ہاؤنڈرز  آفٹر می“ (شکاری کتے میری تلاش،میں ہیں)، راولپنڈی صدر کے چوک میں کاغذ لہرا کر انہی الفاظ کے ساتھ ان کی طرف سے انکل سام (امریکہ)  پر الزام لگایا گیا تھا۔بھٹو نے ان لاہوری کارکنوں سے تحمل کی اپیل کی اور کہا کہ وہ ملک میں خانہ جنگی نہیں چاہتے۔


اس کے بعد واقعات کا تسلسل ہے،اور روز بروز حالات خراب ہوتے چلے گئے،حتیٰ کہ19اپریل کا وہ تاریخی دن بھی آیا، جب اسی گورنر ہاؤس کے دربار ہال میں ذوالفقار علی بھٹو نے (مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کی موجودگی میں)اس پریس کانفرنس میں اہم اعلان کئے جن کا ماخذ اسلامی اصلاحات تھیں کہ ان کو ان کے بڑے مشیر مولانا کوثر نیازی(مرحوم) نے یہی مشورہ دیا اور دلیل دی تھی کہ قومی اتحاد نے نظام مصطفےٰ  ؐ کی بات کی اور لوگوں کو ابھارا ہے، اس لئے وہ یکطرفہ طور پر اسلامی نظام کے نفاذ کی طرف پیش قدمی کر دیں،چنانچہ اس روز انہوں نے شراب کی خرید و فروخت پر پابندی لگا دی۔اتوار کی بجائے جمعہ کی چھٹی کا اعلان کیا اور اسلام کے نفاذ کے لئے کمیشن /کمیٹی بنانے کا بھی حکم جاری کر دیا، اسی پریس کانفرنس میں اس وقت بی بی سی کے نمائندے نے سوال کیا کہ ان کی اطلاع کے مطابق وہ (بھٹو) جنرلوں کے گھیراؤ میں ہیں۔یہ نمائندہ (مارک ٹیلی نہیں) سوال کر کے بیٹھ گیا،بھٹو صاحب نے پوچھا کس نے سوال کیا۔کون ہے، متعلقہ صحافی اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔بھٹو صاحب نے پوچھا کہ ان کا تعلق کس ادارے سے،متعلقہ جرنلسٹ نے اپنا نام بتا کر کہا بی بی سی سے ہے۔اس کے بعد بھٹو صاحب برہم ہوئے اور انہوں نے کہا ”کسی میں اتنی جرأت نہیں ہے،میں مکمل طور پر بااختیار ہوں“۔


یہ گذارشات اس لئے کیں کہ ذوالفقار بھٹو جیسا ذہین شخص بھی 1977ء میں ایک سال قبل انتخابات کرانے اور فتح حاصل کرنے کے بعد بھی حالات کے گرداب میں پھنس گیا تھا، اور تب ہم نے امریکہ کی مداخلت اور امریکہ کے خلاف ان کے الزام سنے، خاصے ہنگامی حالات تھے اور پیپلزپارٹی والوں کو جوابی کارروائی کی اجازت نہ ملی تو الزام امریکی مداخلت کا لگایا گیا،حالانکہ حالات کے باعث پوری دنیا کے میڈیا ہاؤسز نے پاکستان میں موجود اپنے مستقل نمائندوں کی موجودگی کے باوجود خصوصی نمائندے بھی بھیجے تھے اور یوں  دنیا کی نگاہیں،پاکستان کے اندرونی حالات پر تھیں۔ انجام جو ہوا،سب کے علم میں ہے۔


مزید بھی بہت کچھ تحریر کیا جا سکتا ہے۔جو مشاہدے میں آیا،لیکن یہ سب یوں عرض مکرر کے طور پر لکھا کہ آج بھی کشیدگی اس دور جیسی ہے، اور برسر اقتدار چیئرمین ان سے بھی زیادہ ”ضدی اور اَنا پرست“ واقع ہوئے ہیں،اور اب ان کی اور ان کی جماعت کی طرف سے بھی مغربی بلاک(جس کی سرپرستی امریکہ کرتا ہے) پر یہی الزام لگایا جا ہا ہے، آج تو روس اور یوکرائن کی جنگ کے باعث حالات بھی بہت مخدوش ہیں اور ان حالات میں جب ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال اور دنیا کی تباہی کے خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں،اس لئے ہمیں تو پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہئے،لیکن ہم مزید جذباتی ہو گئے ہیں۔قارئین گذشتہ ہفتے  شیخ رشید نے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی اور پیشکش کی تھی کہ قبل از وقت انتخابات پر بھی بات ہو سکتی ہے،لیکن یہ بھی بعد از وقت تھی کہ اس وقت تک پلوں کے نیچے سے بہت پانی گذر چکا تھا۔


آج جو صورت حال ہے اس میں اب نہیں تو کبھی نہیں،والی بات ہے،کپتان بہت غصے میں ہیں اور اس غصے میں ان کی گفتگو اعتدال سے گذر گئی ہے،یہ سب ہم عوام اور ملک کے لئے بہتر نہیں ہے، تحریک عدم اعتماد اپوزیشن کا آئینی اور دفاع تحریک انصاف کا بھی آئینی ہی حق ہے، تاہم جن غیر آئینی اور غیر جمہوری انداز اور حکمت عملی کا ذکر ہو رہا ہے،وہ کسی طور پر بہتر نہیں،فریقین کا دعویٰ اکثریت کا ہے۔یہ فیصلہ تو عدم اعتماد پر رائے شماری ہی سے سچ یا غلط ہو سکتا ہے،اس لئے ممکن طور پر اجلاس (قومی اسمبلی) جلد بُلا کر قوم کو اس کرب سے نجات دلائی جائے جس کا سامنا ہے۔عدم اعتماد کے حوالے سے حکمت عملی کا اگر فریقین کو  حق ہے تو ہارس ٹریڈنگ اور دباؤ کا بھی کسی کو اختیار نہیں۔یوں بھی اب تو حکومت کے اتحادی بھی کھل کر حمایت کا اعلان نہیں کر رہے،ہر کوئی اپنا مفاد سوچ رہا ہے،تازہ ترین اطلاع کے مطابق سپیکر محترم کی رہائش پر وزراء اور تحریک انصاف کے بعض رہنماؤں کا اجلاس ہوا،اور تحریک کو ناکام بنانے پر غور کیا گیا۔اس اجلاس کی جو خبر شائع ہوئی اس کے مطابق جو فیصلہ ہوا وہ بھی نہ تو رکاوٹ بن سکتا نہ ہی اکثریت کے حامل ہونے کے دعویٰ کی دلیل ہے۔کوئی جماعت اگر اپنے کسی رکن کو اجلاس میں جانے سے منع کرتی ہے تو یہ اس کی اپنی صوابدید اور مرضی ہے کہ وہ عمل کرے یا نہ، تاہم کسی کو اجلاس میں شرکت اور رائے دہی سے نہیں روکا جا سکتا،اس لئے یہ حکمت عملی درست نہیں،جو مخالفت کا حتمی فیصلہ کر چکے وہ ہر صورت آئیں گے، یوں بھی سپیکر محترم اسد قیصر کو اپنے عمل پر غور کرنا چاہیے۔

مزید :

رائے -کالم -