کرونا وبا، مہنگائی میں اضا فہ اور سیاست
ایک طرف پوری دنیا عالمی وبا کرونا کی وجہ سے مسائل در مسائل کا شکار ہے مہنگائی عام آدمی کے لئے بین الاقوامی عفریت کی شکل اختیار کر چکی ہے،معاشی ماہرین آنے والے دنوں میں ریکارڈ کساد بازاری کی نشاندہی کر رہے ہیں بڑی اقتصادی طاقتیں (ممالک) گھٹنوں پر جا رہی ہیں پیدوار کم اور مانگ بڑھ رہی ہے سپلائی چین ابھی تک بحال نہیں ہو پا رہی رشین فیڈریشن کے یوکرائن پر حملے سے نہ صرف یورپ بلکہ امریکہ بھی ماضی سے زیادہ پریشان ہے یورپین کوشش میں ہیں کہ ان کا بھرم بھی قائم رہے اور مسئلے کا حل بھی نکل آئے جو ابھی تک ممکن نظر نہیں آ رہا۔ ان تمام حالات کا اثر پاکستان پر آ رہا ہے جو آنے والے دنوں میں بڑھ سکتا ہے مہنگائی میں ہوشربااضافہ اور غربت تیزی سے بڑھ رہی ہے عام آدمی کے لئے اب تین نہیں دو وقت کی روٹی کا مسئلہ بن چکا ہے،روز مرہ کی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں صبح و شام اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے جو ماضی میں کبھی نہیں ہوا کوئی چیز اٹھا لیں قیمتیں تین سے چار گنا بڑھ چکی ہیں اور مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ایسے میں حکمران اور اپوزیشن ایسے مسائل پر توجہ کی بجائے وہی پرانا راگ الاپ رہے ہیں وزیراعظم عمران خان ماضی کے حکمرانوں پر ملبہ ڈالنے سے ابھی تک دستبردار نہیں ہوئے تقریباً چار سال حکومت کرنے کے باوجود یہاں کوئی ایسا بنیادی کام نہیں کر سکے،
جس سے عام آدمی کو کوئی ریلیف مل سکے اب کہتے ہیں کہ چوروں کا ایجنڈا نا کام بنا دیں گے مگر کیسے، تفصیل نہیں ہے تحریک انصاف کے میڈیا منیجرز اور وزراء اپنے بیانات سے سیاسی ماحول کو نرم کی بجائے گرم کرنے میں مصروف ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی کسی ایجنڈے کے تحت اپنی ہی حکومت کے پاؤں اکھاڑ رہے ہیں۔ عام انتخابات کو ابھی ایک سال رہتا ہے، لیکن حکمران کس خوف کے تحت عوامی اجتماع کرتے پھر رہے ہیں یہ سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایسے اجتماع کے لئے پوری سرکاری مشینری عوامی فنڈز سے متحرک ہوتی ہے گو تحریک انصاف کی قیادت نے بلاول بھٹو زرادری پر بھی ایسا ہی الزام عائد کیا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف لانگ مارچ میں سندھ کی حکومتی مشینری استعمال کر رہے ہیں اور یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ لانگ مارچ کو خود مانیٹر کر رہے ہیں شاید اس لئے وزیراعظم عمران خان نے پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کو کاؤنٹر کرنے کے لئے اپنے دو وزراء مخدوم شاہ محمود قریشی اور علی زیدی کو سندھ کے اندر مارچ کرنے کے لئے وفاقی مشینری کے ہمراہ بھیج دیا،جسے سندھ حقوق مارچ کا نام دیا گیا ہے۔ اس ماچ کے نتائج اور پذیرائی الگ، لیکن ایک بات واضع ہے کہ سیاست میں اب ایسا بھی ممکن ہو رہا ہے کہ سیاست دان خود عام آدمی کی آنکھیں کھول رہے ہیں۔
ادھر مرکز اور صوبے میں عدم اعتماد کے حوالے سے اپوزیشن کی تینوں بڑی جماعتوں نے اسلام آباد میں سر جوڑ لئے ہیں قومی اور صوبائی اسمبلی میں ان کے نمبر پورے ہیں مزید کے لئے کوششیں ہو رہی ہیں، جو بار آور ہو سکتی ہیں کہ پنجاب سمیت خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں کچھ ارکان اسمبلی ایسے ہیں،جو گزشتہ دو تین سالوں سے مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے ساتھ رابطے میں ہیں ان میں زیادہ تعداد ان کی ہے،جو کبھی سو دن میں جنوبی پنجاب صوبہ بنوانے کے لئے تحریک انصاف کی جھولی میں جا بیٹھے تھے اب ان کے عشق کا بخار اتر چکا ہے گو میلسی کے عوامی اجتماع میں جہاں وزیراعظم عمران خان نے اربو ں روپے جنوبی پنجاب کے لئے دئیے وہاں انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ اسمبلی میں جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لئے بل لا رہے ہیں تو اپوزیشن جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اس بل کا ساتھ دیں، یعنی بطور وزیراعظم اور قائد ایوان ایک مرتبہ پھر جنوبی پنجاب کے عوام کے ساتھ غلط بیانی کر گئے جو الگ صوبے کی آس لگائے بیٹھے تھے،
کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ الگ صوبے کا بل بعد میں پہلے آئین کی شق ایک میں ترمیم تو کر لیں کہ ملک کی چار اکائیوں میں اضافہ اور بوقت ضرورت صوبے تشکیل دئیے جا سکتے اس پر اپوزیشن جماعتیں بھی بات نہیں کرتیں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوتی ہے کہ نہیں یہ الگ بات، مگر نتیجے میں اعتماد کا ووٹ کون لے گا اس پر ”راوی“ خاموش ہے کہ انہوں نے فیصلہ کرلیا ہو گا اور حسب ِ سابق اور روایت اس مرتبہ بھی جنوبی پنجاب کے ارکان اسمبلی دونوں ایوانوں میں کلیدی اور فیصلہ کن کردار ادا کریں گے جس کا فیصلہ جہانگیر ترین کے گروپ کے اجلاس میں ہو چکا جو ان کی غیر موجودگی میں لاہور میں منعقد ہوا، جس میں صوبائی وزراء بھی شریک تھے خصوصاً نواب اسحاق خان خاکوانی کی طرف سے عمران خان کی حکومت پر سخت تنقید ظاہر کرتی ہے کہ تحریک انصاف کا ”ڈائی ہارڈ“ گروپ اس وقت سخت ترین نالاں ہے جس کی وجہ شاید عمران خان خود نہ ہوں، مگر ان کے اردگرد ”نان انصافی“ جو کردار ادا کر رہے ہیں وہ حکمران جماعت کی کشتی دوبارہ برد کرنے کے لئے کافی ہے۔