خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندھے کدھر جائیں!

میری یہ دیرینہ عادت اپنے بزرگوں کے حوالے سے ہے کہ کبھی ذات کو مقدم نہ رکھا جائے، معاشرہ کی نوعیت کو دیکھیں اور دوسروں کا احساس کریں، اسی لئے میں سوشل میڈیا کا بھی ایک حد تک استعمال کرتا ہوں،میں نے تاحال دفتر کے محترم ساتھیوں کے سوا کسی دوست سے ذکر نہیں کیا کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران کن مسائل سے دوچار رہا، آج یہ ذکر یوں کر رہا ہوں کہ پرانے اعمال کے نئے تجربے سے گزرا ہوں، طویل عرصہ سے میرا معمول ہے کہ میں نے خود کو گھر اور دفترتک محدود کر لیا ہوا ہے،الیکٹرونک، سوشل میڈیا اور اخبارات سے مستفید ہوتا ہوں تاہم آج جب پھر سے وہ منظر نظر آیا جس کے بارے میں پہلے سے جانتا ہوں تو سوچا یہ لکھ ہی کیوں دیا جائے، یہ گزشتہ پیر کی صبح کا قصہ ہے کہ نماز فجر کے بعد معمول کے مطابق سو گیا، ان دنوں پی ایس ایل کے میچ ہو رہے ہیں، کرکٹ سے دیرینہ دلچسپی کے باعث رات میچ دیکھ کر سوتا ہوں، محظوظ ہوتا ہوں کہ اس سیریز کی وجہ سے نیا ٹیلنٹ بھی سامنے آ رہا ہے اور اکثر نوجوانوں کو بھی موقع مل رہا ہے کہ وہ اپنی مہارت سے آگے بڑھ سکیں، بہرحال ہوا یوں کہ جب صبح اٹھ کر نہانے کے لئے گیا تو اچانک گھبراہٹ شروع ہو گئی جو نہاتے نہاتے اس حد تک ہو گئی کہ بلڈ پریشر کا دباؤ محسوس ہونے لگا اور کیفیت بالکل ویسی ہو گئی جیسی کئی سال پہلے تھی اور مجھے گھبراہٹ، پریشانی (Anxiety)کا شدید دورہ پڑا تھا اور کئی قسم کے علاج کے بعد بھی شفا نہیں ہو پا رہی تھی، حتیٰ کہ کئی بار رات کو نیند نہ آتی تو میرا چھوٹا صاحبزادہ مجھے گاڑی میں بٹھا کر اس وقت تک نہر والی سڑک پر گھماتا رہتا، جب تک نیند نہ آ جاتی، اللہ بھلا کرے عاصم بیٹے کے دوست کا جس نے ہمیں ڈاکٹر عدنان قاضی سے رجوع کرنے کو کہا مریض دوست یہ ڈاکٹر صاحب بیرونی ملک کے ڈگری ہولڈر بھی ہیں اور بلڈ پریشر، معدہ اور گیس وغیرہ والے امراض کے ماہر،ان کی تشخیص اور ادویات کی تبدیلی کے بعد ایک وقت وہ آیا، جب ٹھہراؤ آ گیا اور چند مخصوص ادویات کے استعمال سے یہ تکلف دور ہو گئی۔ پریشانی اس لئے ہوئی کہ 2009ء میں میرا دل کا بائی پاس آپریشن ہو چکا ہوا ہے، بہرحال میں نہا دھو اور دوا لے کر دفترپہنچ گیا، دفتر کے اپنے روم میں گیا تو گھبراہٹ اور بڑھ گئی، اتفاق سے عاصم گھر پر تھا، میں نے اپنے کولیگز کو تکلیف دینے کی بجائے عاصم اور اس سے بڑے قاسم دونوں کو بلا لیا،وہ مجھے پی آئی سی لے گئے جہاں ایمرجنسی سے ای سی جی ہوئی اور بلڈ پریشر بھی دیکھ لیا گیا، اس کے ساتھ ہی خون کا نمونہ لیا گیا کہ ٹیسٹ ہو گیا جو شام کو ملنا تھا، طے ہوا کہ رات کو نتیجہ لے کر محترم ڈاکٹر عدنان قاضی صاحب ہی کے پاس جائیں اور چلے گئے، انہوں نے ٹیسٹ دیکھ کر بتایا کہ ہر دو ٹیسٹ صاف ہیں اور تفصیلی معلومات اور معائنہ کے بعد معلوم ہوا کہ دل نامراد کی وجہ سے پھیپھڑوں میں پانی جمع ہو چکا اور یہ سب گھبراہٹ اسی وجہ سے ہے، انہوں نے تسلی دی کہ ادویات سے ٹھیک ہو جائے گا، دوا تجویز کرکے ہدایت کی کہ یہ پیشاب آور ہے اس لئے بار بار واش روم جانا ہوگا، بہتر ہوگا کہ دفتر سے ریسٹ کی اجازت لے لیں اور گھر پر آرام کریں سو اس ہدایت پر عمل ہوا تاہم دفتر کا کام گھر پر لیپ ٹاپ کے توسط سے کیا کہ دور جدید کی یہ بھی ایک سہولت ہے۔ جمعرات کی شب ڈاکٹر قاضی صاحب کی ہدایت کے مطابق پھر چیک کرایا تو انہوں نے بہت تسلی دی اور بتایا کہ 60فیصد بہتری ہے اس لئے علاج اور آرام جاری رکھیں، ان شاء اللہ پندرہ روز میں سب ٹھیک ہو گا، البتہ اس کے بعد بھی وقتاً فوقتاً چیک کروانا اور دوا استعمال کرنا ہوگی۔
میں خود بھی بہتر محسوس کر رہا ہوں، آج صبح کچھ پیسوں کی ضرورت تھی۔ بنک دفتر کے قریب ہے، جہاں تنخواہ جمع ہوتی ہے چنانچہ کچھ رقم نکلوائی تو دفتر کے ساتھیوں سے بھی ہیلو ہائے ہو گئی، اللہ نے چاہا تو آئندہ پیر تک معمول کا کام شروع کر سکوں گا اور دفتر حاضر رہوں گا، آج (جمعہ) تو صاحبزادے نے ڈیوٹی دی جس کا تبادلہ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لاہور ہو گیا۔ یہ ایک الگ روئداد ہے، میں اپنے محترم مجیب الرحمن شامی صاحب دوسرے احباب اور عاصم کے حکام بالا کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے اس سلسلے میں دلچسپی لی کہ عاصم کا لاہور میں ہونا میرے لئے ضروری ہے کہ اس عمر میں دیکھ بھال لازم ہے۔ نماز جمعہ ہم باپ بیٹے نے کریم بلاک کی مسجد میں پڑھی اس کے بعد ہم دونوں کریم بلاک کے شہر خاموشاں آ گئے جہاں میری اہلیہ اور عاصم کی والدہ مدفون ہیں،عاصم کا تو یہ معمول ہے کہ وہ گھر پر ہو تو نماز یہاں پڑھتا اور والدہ کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لئے آتا ہے، بڑے بیٹے قاسم کو تہواروں کے مواقع پر آنا ہوتا ہے، یہ قبر کی دیکھ بھال بھی کرتے کراتے ہیں۔ میں کافی دیر کے بعد آیا تھا، چنانچہ قبرستان میں داخل ہوتے ہی پہلا احساس ہوا کہ اس شہر خاموشاں کی آبادی میں بھی اسی طرح اضافہ ہو گیا ہے جیسے زندہ حضرات کی تعداد بڑھ رہی ہے تاہم عاصم نے ٹوکا اور تصحیح کی کہ رخصت کی نسبت آمد زیادہ ہے اور مسائل بھی آبادی کے پھیلاؤ کے باعث زیادہ ہو گئے ہیں۔
معذرت چاہتا ہوں کہ اس تفصیل میں الجھ گیا حالانکہ دکھ اور بھی ہیں، واپسی پر وحدت روڈ سے گزر ہوا تو دکھ سے دل بوجھل ہو گیا کہ سڑک کنارے بنے شادی ہال میں کوئی بارات اتری تھی اور اس کے سامنے پوری گرین بیلٹ پارکنگ تھی، دور دور تک گھاس ختم اور مٹی کا میدان ہے، یہ مرکزی سڑک ہے جہاں سے حکام اور اہل کار بھی گزرتے اور محکمہ والے تجاوزات ختم کرنے کے دعویدار بھی ہیں لیکن حالت یہ کہ ان کی آنکھ کو یہ سب نظر نہیں آتا، ابھی اس پر دل بوجھل تھا کہ عاصم نے گاڑی مصطفےٰ ٹاؤن کے موڑ پر فروٹ کے جھونپڑے والے کے پاس روکی جس نے کوٹھی والوں کی دیوار کے ساتھ اپنا سودا لگا رکھا ہے، یہاں دو بھائی الگ الگ روزی کماتے ہیں۔ عاصم کو سودا خریدنے میں تاخیر ہو گئی، واپسی پر اس نے وجہ بتائی کہ کوئی صاحب جو لاہور کارپوریشن کے اہل کار تھے، ان دونوں سے ایک ایک ہزار روپیہ لے چکے تھے اور دھمکی دے رہے تھے کہ ان کے خلاف پرچہ ہو گیا ہے اور ان کو جرمانہ اور قید دونوں ہوں گی وہ دونوں یہ فریاد کررہے تھے کہ گاہک کو کیا علم کہ ہم روزی کیسے کماتے ہیں، ہم کیا کریں، ہم تو بھتہ بھی دیتے ہیں۔
مجھے یاد آیا کہ یہ جو غریب لوگ سڑکوں پر ریڑھی لگا کر روزی کماتے ہیں وہ کس کس پریشانی کا سامنا کرتے ہیں، پولیس اہلکار ان سے پھل لے جاتے ہیں، ایل ڈی اے اور کارپوریشن کے اہل کار الگ الگ منتھلی لیتے ہیں صرف یہی نہیں، ہر علاقے میں ایک نام نہاد چودھراہٹ گروپ بھی ہوتا ہے جو بھتہ خوری کرتا اور وہ روزانہ دیہاڑی لیتا ہے، جو نہ دے اس کا سودا اُلٹا کر اسے ریڑھی نہیں لگانے دی جاتی، کوئی بھی ان کا چارہ گر نہیں کہ کسی باقاعدہ سلسلے کے تحت کوئی انتظام ہو اور ان کا پیسہ رشوت سے جیبوں میں جانے کی بجائے سرکاری خزانے میں جا سکے، سچ ہے ”بہت تلخ ہیں، بندہ مزدور کے اوقات“۔