سیرت و کردار کی اعلیٰ مثال ملکہئ معظمہ: سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا!
حضرت خدیجۃ الکبر یٰ حضور نبی کریمؐ کی سب سے پہلی رفیقہئ حیات ہیں۔ یوں تو آپؐ کے فضائل و مناقب بے شمار ہیں لیکن نمایاں وصف یہ ہے کہ آپ اپنے مقدس شوہر کی ہر خوشی و غمی میں شریک رہنے والی تھیں، حضور ؐ نے جب اعلانِ نبوت فرمایا تو یہ بغیر کسی توقف کے ایمان لائیں، آپؐ کی ہر قدم پر بھرپور نصرت فرمائی۔ تبلیغ ِدین کی راہ میں جب حضورؐ کو ستایا جاتا، آپؐ کی تکذہب کی جاتی تو حضرت خدیجہؓ ہی آپؐ کی دلجوئی فرمایا کرتیں، آپؐ کی تسکین ِقلب کا باعث بنتیں، آپؐ کا ہر ممکن اکرام فرماتیں جس سے آپؐ کا غم دور ہو جاتا۔ حضرت خدیجہؓ وہ پہلی خاتون تھیں جو آپؐ پر ایمان لائیں اور آپؐ کا ساتھ دیا۔
حضرت خدیجہؓ نے سختیوں اور پریشانیوں میں آپؐ کو تسلی و تشفی دی اور آپؐ کا ساتھ دیا اور اپنا مال خرچ کرنے میں دریغ نہیں کیا اور آپ کو جو قدرت اور شہرت حاصل تھی اس کے ذریعہ آپؐ کی ہر طرح سے مدد کی، لہٰذا رسول اللہؐ بہت زیادہ ان کو پسند کرتے تھے۔ حضرت خدیجہؓ ان صفات کے ساتھ آسمان میں چمکتے ہوئے ستارہ کی طرح ہیں کہ جن کے وجود سے تمام عورتوں کی آنکھیں روشن تھیں۔حضرت خدیجہؓ کا مقام و مرتبہ اس قدر بلند و بالا تھا کہ خالقِ کائنات نے جبرائیلؑ کے ذریعہ ان کو سلام کہلایا اور آپ کو بہت عظیم ثواب کا وعدہ دیا،ایسا عظیم ثواب جو آج تک کسی گزشتہ صحابی کو نہیں ملا تھا۔حضرت خدیجہ ؓ کے لئے مریمؑ کی طرح آسمانی دسترخوان نازل ہوتا تھا جیسا کہ بخاری نے اپنی صحیح میں ابوہریرہؓ سے روایت کی ہے کہ جبرائیلؑ حضورؐ پر نازل ہوئے اور ایک بہشتی برتن میں بہشت کے کھانے لائے اور کہا یا رسول اللہؐ! یہ دسترخوان خداوند ِعالم کی طرف سے حضرت خدیجہؓ
کے لئے ہے اور ان کو میرا سلام کہنا اور ان کو خوش خبری دینا کہ تمہارے لئے بہشت میں ایسا محل ہے جس میں کوئی شور اور سختی نہیں ہے۔
حضرت خدیجہؓ کا آپؐ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ آپؐ سے منسلک ہر رشتہ کا اکرام فرماتیں۔ اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ رسولِ اکرم ؐ کی رضاعی والدہ حضرت سعدیہ حلیمہؓ تشریف لائیں اور قحط سالی اور مویشیوں کے ہلاک ہونے کی رسول اللہ ؐ سے شکایت کی۔ آپؐ نے اس سلسلے میں حضرت خدیجہؓ سے بات کی تو انہوں نے حضرت حلیمہ سعدیہؓ کو 40 بکریاں اور ایک اونٹ تحفتاً پیش کیا۔ (طبقات الکبریٰ جلد 1 صفحہ نمبر92) حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کے صدق و دیانت کا تذکرہ سن کر آپؐ کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ”میرا مالِ تجارت لے کر شام جائیں، میرا غلام میسرہ آپؐ کے ہمراہ ہوگا“ اور یہ بھی فرمایا ”جو معاوضہ میں آپؐ کے ہم قوموں کو دیتی ہوں، آپؐ کو اس کا دُگنا دوں گی“ آپؐ نے حامی بھرلی اور بصریٰ (شام) کی جانب روانہ ہو گئے۔ وہاں پہنچ کر جو سامان ساتھ لے گئے تھے اسے فروخت کیا اور دوسرا سامان خرید لیا۔ نیا سامان جو مکہ آیا تھا،اس میں بھی بڑا نفع ہوا۔ حضرت خدیجہؓ نے آمدنی سے خوش ہو کر جو معاوضہ طے کیا تھا، اس کا دُگنا ادا کیا۔
جناب نبی کریم ؐ کی نیک نامی، حسنِ اخلاق اور امانت و صداقت کی شہرت کے چرچے ہونے لگے جو ہوتے ہوتے حضرت خدیجہؓ تک بھی پہنچے؛ چنانچہ واپس آنے کے تقریباً تین ماہ بعد حضرت خدیجہ ؓ نے آپؐ کے پاس شادی کا پیغام بھیجا۔ اس وقت ان کے والد کا انتقال ہو چکا تھا لیکن ان کے چچا عمرو بن اسد زندہ تھے۔ آنحضرتؐ حضرت ابوطالبؓ اور تمام رؤسائے خاندان، جن میں حضرت حمزہؓ بھی تھے، حضرت خدیجہؓ کے مکان پر آئے، حضرت ابوطالبؓ نے آنحضرتؐ کا خطبہئ نکاح پڑھا اور پانچ سو درہم طلائی مہر قرار پایا۔ شادی کی تقریب بعثت سے پندرہ سال پیشتر انجام پذیر ہوئی، یہ پچیس عام الفیل تھا۔
حضرت خدیجہؓ سے نکاح کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ حضرت خدیجہؓ 24 سال آپؐ کے ساتھ رہیں۔ (سیرۃ خیرالانامؐ، ص 583) آغاز وحی کے وقت سے ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ نے نبی اکرم ؐ کی حمایت و معاونت کا فیصلہ کر لیا تھا اور وہ نبوت ملنے کی ابتدائی گھڑیوں میں ہی آنحضورؐ پر ایمان لے آئی تھیں۔ سب سے پہلے حضرت خدیجہؓ آنحضرت ؐ پر ایمان لائیں۔قبولِ اسلام کے وقت حضرت خدیجہؓ کی عمر 55 سال تھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت خدیجہؓ کے قبولِ اسلام سے اسلام کی اشاعت پر بڑا خوشگوار اثر پڑا۔ان کے خاندان اور اعزہ و اقارب میں سے بہت سے لوگ اسلام لے آئے۔شعب ِابی طالب سے نکلنے کے چند روز بعد نماز فرض ہونے، یعنی واقعہ معراج سے قبل 10 رمضان، 10 نبوت کو حضرت خدیجہ ؓنے بعمر 65 برس وفات پائی۔ یہ ہجرت سے تین سال پہلے کا واقعہ ہے۔ آنحضرتؐ نے جحون میں حضرت خدیجہؓ کو دفن کیا، خود قبر میں اترے۔اسی سال آپؐ کے چچا حضرت ابوطالبؓ نے وفات پائی۔ ان دونوں عزیزوں کی وفات سے آپؐ کو بے حد صدمہ ہوا۔ اسی نسبت سے اس سال کو عام الحزن کہا جاتا ہے۔
قبولِ اسلام کے بعد حضرت خدیجہؓ کی دولت و ثروت تبلیغِ دین و اشاعت ِاسلام کے لیے وقف ہو گئی۔ آنحضرت ؐ تجارتی کاروبار چھوڑ کر عبادتِ الٰہی اور تبلیغِ اسلام کے کاموں میں مصروف ہو گئے۔حضرت خدیجہؓ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ حضرت ابراہیمؓ کے علاوہ آنحضرت ؐ کی تمام اولاد انہی سے پیدا ہوئی۔ حضرت خدیجہ ؓ کی وفات کے بعد آپؐ انہیں اکثر یاد کیا کرتے تھے اور ان کی خدمات کا اعتراف کرکے فرمایا کرتے تھے کہ ”خدیجہؓ نے اس وقت میری تصدیق کی اور مجھ پر ایمان لائی جب لوگوں نے میری تکذیب کی۔ خدیجہؓ نے مجھے اپنے مال و منال میں شریک کر لیا۔“ حضرت خدیجہؓ میں اتنی خوبیاں تھیں کہ حضور نبی کریمؐ زندگی بھر انہیں یاد کرتے رہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی ان کے لیے اللہ تعالیٰ کا سلام لے کر آتے تھے۔اللہ عزوجل ہمیں ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
final