حضور ﷺ کے عفو و درگزر کی انتہا

حضور ﷺ کے عفو و درگزر کی انتہا
 حضور ﷺ کے عفو و درگزر کی انتہا
سورس: WIkimedia Commons

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جب نبی کریم ﷺ دعوتِ اسلام کے لیے طائف تشریف لے گئے تو وہاں کے سرداروں نے آپ کے پیغام کو رد کر دیا اور اوباش لڑکوں کو آپ پر پتھر برسانے کے لیے بھیج دیا۔ آپ ﷺ کے قدم مبارک زخمی ہو گئے، خون بہنے لگا، حتیٰ کہ آپ کے نعلین مبارک خون سے بھر گئے۔ اس وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوئے اور عرض کیا:"اے محمد ﷺ! اگر آپ چاہیں تو میں ان پر پہاڑ گرا دوں۔" لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا "نہیں، مجھے امید ہے کہ اللہ ان کی نسل میں ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے۔"
صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے  ایک روایت موجود ہے۔ آپ فرماتی ہیں کہ  آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، کیا آپ پر کوئی دن احد کے دن سے بھی زیادہ سخت گزرا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ تمہاری قوم (قریش) کی طرف سے میں نے کتنی مصیبتیں اٹھائی ہیں لیکن اس سارے دور میں عقبہ کا دن مجھ پر سب سے زیادہ سخت تھا ، یہ وہ موقع تھا جب میں نے (طائف کے سردار) کنانہ بن عبد یا لیل بن عبد کلال کے ہاں اپنے آپ کو پیش کیا تھا۔ لیکن اس نے (اسلام کو قبول نہیں کیا اور) میری دعوت کو رد کر دیا۔ میں وہاں سے انتہائی رنجیدہ ہو کر واپس ہوا۔ پھر جب میں قرن الثعالب پہنچا، تب مجھ کو کچھ ہوش آیا، میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بدلی کا ایک ٹکڑا میرے اوپر سایہ کئے ہوئے ہے اور میں نے دیکھا کہ جبرائیل علیہ السلام اس میں موجود ہیں۔

 انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں سن چکا اور جو انہوں نے رد کیا ہے وہ بھی سن چکا۔ آپ کے پاس اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے، آپ ان کے بارے میں جو چاہیں اس کا اسے حکم دے دیں۔

اس کے بعد مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی، انہوں نے مجھے سلام کیا اور کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر انہوں نے بھی وہی بات کہی، آپ جو چاہیں (اس کا مجھے حکم فرمائیں) اگر آپ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑ ان پر لا کر ملا دوں (جن سے وہ چکنا چور ہو جائیں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مجھے تو اس کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جو اکیلے اللہ کی عبادت کرے گی، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔

(صحیح البخاری: 3231)

مزید :

روشن کرنیں -